سچی باتیں۔۔۔ دوسروں سے عبرت۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

10:53AM Fri 29 Oct, 2021

۔1927-10-14

آپ کے خاندان میں، برادری میں، محلہ میں، کوئی بیکس ولاوارث، مفلس ومحتاج بوڑھی بیوہ رہتی ہیں؟ اگر ہیں، تو کبھی آپ کو اُن کے غربتکدہ پر قدم رنجہ فرمانے کا اتفاق ہوتاہے؟ اگر اب تک نہ ہواہو، تو اب کسی روز، اپنی ’’اہم‘‘ مشغولیتوں سے اپنی ’’دلچسپ‘‘ صحبتوں سے، فرصت نکال کر ، ذرا اس زندہ گورستان کی بھی سَیر فرمالیجئے۔ یہاں گرمیوں کے موسم میں برف وشربت سے آپ کی خاطرداری نہیں کی جائے گی، سردی میں چائے کی پیالیاں آپ کے آگے نہیں پیش کی جائیں گی، پان اور حُقے سے آپ کی پیشوائی نہیں ہوگی، عطر کی خوشبوئیں آپ کے استقبال کو آگے نہیں بڑھیں گی، دوستوں کے قہقہے وچہچہے آپ کو محظوظ نہیں کریں گے، ان کی اگر تلاش وطلب ہے ، تو شام کا وقت کسی سرسبز پارک میں ،کسی نظر فریب سینما میں، کسی جگمگاتے ہوئے ہوٹل میں، کسی ٹھنڈی سڑک پر گلگشت میں صرف فرمائیے۔

یہ آنکھوں سے اندھی، اور کانوں سے بہری بیوہ، مَیلے کُچیلے بدبودار کپڑے پہنے جو پلنگ کے ایک جھلنگے پر آپ کے سامنے بیٹھی ہوئی ہیں، سدا سے ایسی نہیں، یہ بچّی بھی کبھی اپنے ماں باپ کی آنکھوں کا تارا تھی۔ بڑی آرزوؤں اور ارمانوں کے بعد پیدا ہوئی تھی۔ اس ’’نورِ نظر‘‘ کی پیدائش کے وقت بھی مامتا کے مارے ہوئے ماں باپ نے دل کھول کر اپنے حوصلے نکالے تھے۔ خوب زچہ گیریاں گائی گئی تھین، اِس مکھڑے کی خوب بلائیں لی گئی تھیں، اور اس ’’دختر نیک اختر‘‘ کے نصیبہ ورہونے کی دعائیں اور پیشگوئی خداجانے کتنی زبانوں سے نکلی تھین! پیدائشی اندھی نہ تھی، بہری نہ تھی، حورپری کا حُسن وجمال نہ سہی، آدمی کے بچہ کی شکل وصورت رکھتی تھی۔ گھر بھر کو اپنی موہنی باتوں سے موہ لیاتھا۔ بات چیت کئی گھرانوں سے آئی۔ جہاں کے لئے قسمت لائی تھی، وہاں منگنی اور بیاہ حوصلوں اور (ارمانوںکے ساتھ ہوا، ڈولا دھوم دھام سے اُتارا گیا، نوجونی کا غازہ اس کے چہرہ پر بھی تھا۔ پہلو میں دل تھا، اور دل میں ہر قسم کے شوق، ہرطرح کی اُمنگیں۔ شوہر کے دل پر حکومت۔ حُسن تھا اور نوجوانی۔ جو مانگا، وہ پایا۔ جو کہا، وہی ہوا۔ سامنے دُنیا تھی اور اُس کی بہاریں، زندگی تھی اور اُس کی لذتیں۔ گرمیوں میں پھولوں کا زیور پہنا، برسات میں ہمجولیوں کے ساتھ جھولے کے پینگ بڑھے، جاڑوں کی راتیں، عطرسے بسے ہوئے لحافوں کے اندر کاٹیں۔ پہنا اور اوڑھا، کھایا اور کھلایا، ہنسی اور ہنسایا۔ زیور بنا، کپڑے سلے، دیگیں چڑھیں، شادیانے بجے۔ اور ’’آج‘‘ نے ’’کل‘‘ کا خیال تک نہ آنے دیا!۔

ایک دِن وہ تھا ، جب ان کے ہاں سے دوسروں کو خیرات ملتی تھی، آج یہ خود دوسروں کی نگاہوں کو تک رہی ہیں! ایک زمانہ وہ تھا، جب اِن نئی دُلھن کے عقل وشعور ، ہنروسلیقہ کے چرچے سسُرال بھر میں تھے، آج اسی دُکھیاری رانڈ کی بے وقوفی بھی ضرب المثل بنی ہوئی ہے! کل یہ نگاہیں خدامعلوم کتنے دلوں پر بجلیاں گرارہی تھیں، آج پیشانی کے نیچے ان دوبے نور گڑھوں کو دیکھ کر کوئی اس کا یقین بھی نہیں کرسکتا! کل یہی سرخ وسفید رخسارے گلاب کے تروتازہ پھول تھے، آ ج جھُرّیاں پڑی ہوئی ان پچھتی ہوئی ہڈیوں پر کسی اس کا گمان بھی نہیںہوسکتا! کل انھیں نئی دلھن اوران کی ہمجولیوں کی ہنسی دل لگی، تیزی اور شوخی، گھرانے بھر کوہنساتے ہنساتے لُٹارہی تھی، آج اُسی سوگوار بیوہ کے رونے پر کسی کو رونا بھی نہیں آتا! کل پاس پڑوس کی عورتوں کے جمگھٹے سے یہی گھر گلزار بناہواتھا، آج یہ دیرانہ صرف چڑیوں کی گھونسلے بنانے کے قابل رہ گیا ہے!۔

شریک غفلت بہت ملیں گے، شریک عبر کوئی نہ ہوگا!۔

اپنی خوش وضعی اور خوش لباسی، اپنی نوعمری اور جامہ زیبی، اپنی شوخی اور زندہ دلی پر بھروسہ رکھنے والو، اور اترانے والو! دوسروں کے حال سے عبرت حاصل کرو، اور خدا نہ کرے کہ تمہارا حال دوسروں کے لئے لائق عبرت بن جائے۔

1927-10-14

آپ کے خاندان میں، برادری میں، محلہ میں، کوئی بیکس ولاوارث، مفلس ومحتاج بوڑھی بیوہ رہتی ہیں؟ اگر ہیں، تو کبھی آپ کو اُن کے غربتکدہ پر قدم رنجہ فرمانے کا اتفاق ہوتاہے؟ اگر اب تک نہ ہواہو، تو اب کسی روز، اپنی ’’اہم‘‘ مشغولیتوں سے اپنی ’’دلچسپ‘‘ صحبتوں سے، فرصت نکال کر ، ذرا اس زندہ گورستان کی بھی سَیر فرمالیجئے۔ یہاں گرمیوں کے موسم میں برف وشربت سے آپ کی خاطرداری نہیں کی جائے گی، سردی میں چائے کی پیالیاں آپ کے آگے نہیں پیش کی جائیں گی، پان اور حُقے سے آپ کی پیشوائی نہیں ہوگی، عطر کی خوشبوئیں آپ کے استقبال کو آگے نہیں بڑھیں گی، دوستوں کے قہقہے وچہچہے آپ کو محظوظ نہیں کریں گے، ان کی اگر تلاش وطلب ہے ، تو شام کا وقت کسی سرسبز پارک میں ،کسی نظر فریب سینما میں، کسی جگمگاتے ہوئے ہوٹل میں، کسی ٹھنڈی سڑک پر گلگشت میں صرف فرمائیے۔

یہ آنکھوں سے اندھی، اور کانوں سے بہری بیوہ، مَیلے کُچیلے بدبودار کپڑے پہنے جو پلنگ کے ایک جھلنگے پر آپ کے سامنے بیٹھی ہوئی ہیں، سدا سے ایسی نہیں، یہ بچّی بھی کبھی اپنے ماں باپ کی آنکھوں کا تارا تھی۔ بڑی آرزوؤں اور ارمانوں کے بعد پیدا ہوئی تھی۔ اس ’’نورِ نظر‘‘ کی پیدائش کے وقت بھی مامتا کے مارے ہوئے ماں باپ نے دل کھول کر اپنے حوصلے نکالے تھے۔ خوب زچہ گیریاں گائی گئی تھین، اِس مکھڑے کی خوب بلائیں لی گئی تھیں، اور اس ’’دختر نیک اختر‘‘ کے نصیبہ ورہونے کی دعائیں اور پیشگوئی خداجانے کتنی زبانوں سے نکلی تھین! پیدائشی اندھی نہ تھی، بہری نہ تھی، حورپری کا حُسن وجمال نہ سہی، آدمی کے بچہ کی شکل وصورت رکھتی تھی۔ گھر بھر کو اپنی موہنی باتوں سے موہ لیاتھا۔ بات چیت کئی گھرانوں سے آئی۔ جہاں کے لئے قسمت لائی تھی، وہاں منگنی اور بیاہ حوصلوں اور (ارمانوںکے ساتھ ہوا، ڈولا دھوم دھام سے اُتارا گیا، نوجونی کا غازہ اس کے چہرہ پر بھی تھا۔ پہلو میں دل تھا، اور دل میں ہر قسم کے شوق، ہرطرح کی اُمنگیں۔ شوہر کے دل پر حکومت۔ حُسن تھا اور نوجوانی۔ جو مانگا، وہ پایا۔ جو کہا، وہی ہوا۔ سامنے دُنیا تھی اور اُس کی بہاریں، زندگی تھی اور اُس کی لذتیں۔ گرمیوں میں پھولوں کا زیور پہنا، برسات میں ہمجولیوں کے ساتھ جھولے کے پینگ بڑھے، جاڑوں کی راتیں، عطرسے بسے ہوئے لحافوں کے اندر کاٹیں۔ پہنا اور اوڑھا، کھایا اور کھلایا، ہنسی اور ہنسایا۔ زیور بنا، کپڑے سلے، دیگیں چڑھیں، شادیانے بجے۔ اور ’’آج‘‘ نے ’’کل‘‘ کا خیال تک نہ آنے دیا!

ایک دِن وہ تھا ، جب ان کے ہاں سے دوسروں کو خیرات ملتی تھی، آج یہ خود دوسروں کی نگاہوں کو تک رہی ہیں! ایک زمانہ وہ تھا، جب اِن نئی دُلھن کے عقل وشعور ، ہنروسلیقہ کے چرچے سسُرال بھر میں تھے، آج اسی دُکھیاری رانڈ کی بے وقوفی بھی ضرب المثل بنی ہوئی ہے! کل یہ نگاہیں خدامعلوم کتنے دلوں پر بجلیاں گرارہی تھیں، آج پیشانی کے نیچے ان دوبے نور گڑھوں کو دیکھ کر کوئی اس کا یقین بھی نہیں کرسکتا! کل یہی سرخ وسفید رخسارے گلاب کے تروتازہ پھول تھے، آ ج جھُرّیاں پڑی ہوئی ان پچھتی ہوئی ہڈیوں پر کسی اس کا گمان بھی نہیںہوسکتا! کل انھیں نئی دلھن اوران کی ہمجولیوں کی ہنسی دل لگی، تیزی اور شوخی، گھرانے بھر کوہنساتے ہنساتے لُٹارہی تھی، آج اُسی سوگوار بیوہ کے رونے پر کسی کو رونا بھی نہیں آتا! کل پاس پڑوس کی عورتوں کے جمگھٹے سے یہی گھر گلزار بناہواتھا، آج یہ دیرانہ صرف چڑیوں کی گھونسلے بنانے کے قابل رہ گیا ہے!۔

شریک غفلت بہت ملیں گے، شریک عبر کوئی نہ ہوگا!۔

اپنی خوش وضعی اور خوش لباسی، اپنی نوعمری اور جامہ زیبی، اپنی شوخی اور زندہ دلی پر بھروسہ رکھنے والو، اور اترانے والو! دوسروں کے حال سے عبرت حاصل کرو، اور خدا نہ کرے کہ تمہارا حال دوسروں کے لئے لائق عبرت بن جائے!۔