ایک صدی کی گواہ شخصیت

Bhatkallys

Published in - Other

04:22AM Fri 3 Jan, 2014

 از:عبد المتین منیری

(یہ تاثرات انڈین اسلامک سنٹر دبی کے زیر اہتمام منعقدہ تعزیتی اجلاس میں 27 ؍رمضان المبارک 1420ھ مطابق 4؍ جنوری 2000ء  کوپیش کئے گئے تھے ، ہم پرحضرت مولانا سے وابستہ مشاہدات و تاثرات پر مفصل کالم لکھنے کا قرض ابھی باقی ہے ، دعا کریں ، جلد اس کا موقعہ ملے)

بیسویں صدی کے اختتام اور اکیسویں صدی کے آغاز پر جہاں ساری دنیا جشن کے شادیانے بجارہی تھی اور نئی صدی کے پر جوش استقبال کی تیاریوں میں مگن تھی، مسلمانا ن عالم ایک عظیم سانحہ سے دوچار ہوگئے ۔ ان کے عظیم قائد و رہنما و مفکر حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی عمر عزیز کی ۸۶ بہاریں طاعت خداوندی اور رہنمائی خلق میں گذار کر داعی اجل کو لبیک کہا۔ زیست کے آخری لمحات میں موجود اعزہ و اقارب شاہد ہیں کہ آپ نے ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کی تیاری کی ، بال بنوائے ، غسل کیا ، مصحف شریف ہاتھ میں لے کر تلا وت ابھی شروع ہی کی تھی کہ مالک حقیقی کا بلاوا آگیا اور روح قفس عنصری سے آزاد ہوگئی ۔ سورہ کہف آپ کی عزیز جان تھی ۔ آپ اسے معرکہ ایمان و مادیت میں علامت کی حیثیت دیتے تھے ۔ یہ وہ سورت تھی جسے آپ نے تفسیر و تشریح کے لئے چنا ، اسکے مطالب کو حرز جان بنایا ، ساری زندگی اسی معرکہ کو سر کرتے گذاردی ، اور جاتے جاتے یہی درس دے گئے کہ ابھی یہ معرکہ ختم نہیں ہوا،اس راہ میں جد و جہد کا تسلسل ابھی باقی ہے اور ہر مسلمان کے لئے کامیابی اسی میں مضمر ہے کہ مادیت کے بالمقابل ایمان اور روحانیت کو غالب کرتے کرتے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردے ۔ حضرت مولانا کا جسد خاکی اب ہمارے درمیان موجود نہیں ہے ۔ لیکن معرکہ ایمان و مادیت کو سر کرنے کے لئے آپ نے جو سر وسامان تیار کیا تھا آپ کی (۸۰) سے زیادہ تصانیت کی شکل میں زاد راہ کی حیثیت سے محفوظ ہے ، اب ہر کوئی انہیں کھنگال کر سرخروئی کے اسباب فراہم کرسکتا ہے ۔ انہیں نسخہ کیمیا کے طور پر استعمال کرسکتا ہے ۔ حضرات ! بیسویں صدی کا آغاز مسلمانوں کے لئے عموما مایوسی اور کسمپرسی لے کر آیا تھا، عالم اسلام کا بندر بانٹ شروع ہوئے کئی دہائیاں بیت رہی تھیں ، دنیا کی حاکم مسلم امت اب غلامی کی چکی کے پاٹ میں کراہ رہی تھی ۔ان پر بے بسی اور مرعوبیت طاری تھی ، رہی سہی خلافت عثمانیہ اب غروب کے دہانے پر تھی، ایسی تاریکی کے عالم میں علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کے نامور شاگردان و فرزندان ندوہ مولانا ابو الکلام آزادؒ اور علامہ سید سلیمان ندوی ؒ نے ۱۹۱۳ء میں کلکتہ سے الہلال کے ذریعہ صدائے سحربلند کی ۔ جو صور اسرافیل کی طرح برصغیر کے چپہ چپہ پر گونج اٹھی ، یہی وہ سال ہے جب (سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا )کے خالق وطن پرست شاعر علامہ اقبال نے ملی شاعری کی طرف اپنا رخ موڑا ، مغربی تہذیب کی مرعوبیت ختم کرنے کی جانب توجہ مرکوز کی اور اپنے روح پر نغموں سے فضاؤں کو مسحور کردیا ، دیکھتے ہی دیکھتے صدیوں سے خواب ٖغفلت میں پڑی امت جاگ اٹھی ، ملی تحریکات کا دور شروع ہوا ۔ نظم جماعت سے ملت مرحومہ آشکار ا ہوئی ، برصغیر کی عظیم دینی تحریکات ، تحریک خلافت ، جمعیۃ علمائے ہند، مجلس احرار ، تحریک خاکسار ، تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی کا آغاز ۱۹۱۳ء کے بعد ہی ہوا تھا، اسی سال ۵ ؍ دسمبر کو مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ؒ کا اس دنیا میں جنم ہوا۔ حضرت مولانا جس خانوادے سے تعلق رکھتے تھے ، وہ مجاہدین کا خانوادہ تھا ، اس میں بڑے بڑے اہل اللہ گذرے تھے ،اس کا فطری نتیجہ تھا کہ آپ کو اس صدی کی تمام اہم ملی و دینی شخصیات کاقرب حاصل رہا ، مولانا محمد علی جوہر ؒ کی ولولہ انگیز تقریریں سنیں ، علامہ اقبالؒ ، مولانا ابو الکلام آزاد ؒ ، حکیم الامت مولانا تھانوی ؒ ،شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ ، مفسر قرآن مولانا احمد علی لاہوری ؒ ، مولانا عبدالقادری رائپوری ؒ ، مولانا محمد الیاس کاندھلوی ؒ ، مفتی امین الحسینی ؒ ، ڈاکٹر تقی الدین ہلالی مراکشی وغیرہ اس صدی کی جملہ چوٹی کی ملکی و عالمی ملی و دینی شخصیات کی شفقت آپ کے حصے میں آئیں ۔ ۔ بیسوی صدی کی عبقری شخصیات کے شب وروز سے واقف ، ملی بیداری کا چشم دید گواہ صدی کے آخری سورج کے ساتھ ڈوب گیا اور جس طرح برصغیر میں اسلامی نشات ثانیہ کا آغاز ایک ندوی اہل قلم سے ہوا تھا ، اس کا آخری باب بھی گلشن ندوہ کے ایک گل سرسبد پر بند ہوگیا ۔(انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر) آپ کی سب سے معرکۃ الآراء تصنیف ہے ، لیکن صد افسوس کہ آج کی مجلس یہ غور کرنے بیٹھی ہے ، کہ اس کتاب کے مصنف کے اس دنیا سے اٹھ جانے کے بعد انسانیت کا عموما اور ملت اسلامیہ کا خصوصا کتنا بڑا نقصان ہوا ۔ حضرت مولانا ایک ایسے وقت ہم سے جدا ہوئے ہیں جب کہ آپ کی قیادت کی ملت اسلامیہ کو پہلے سے زیادہ ضرورت تھی ، ملت اسلامیہ ہندیہ کے سامنے مسلم پرسنل لاء کا تحفظ ،ملی تشخص کی بقا، اسلامی عقیدہ کی بنیا د پر نونہالان ملت کی تعلیم وتربیت جیسے حساس مسائل پہاڑ کی طرح کھڑے ہیں اور ایسی قیادت مفقود ہے جس کی آواز باوزن ہو ، جو روٹھے ہؤوں کو ملا سکے ، ٹوٹے ہوئے دل جوڑ سکے ، جس کے سائے تلے آنے میں کسی کو اپنی آن خطرے میں پڑنے کا احساس نہ ہونے پائے ، آپ کی ذات وحدت ملی کی علامت تھی ، کارخانہ قدرت میں اس کا کیا نعم البدل رکھا ہے قدرت ہی بہتر جانتی ہے ۔ حضرت مولانا کا شمار بر صغیر کے ایسے دو تین عظیم مفکرین میں ہوتا تھا جن کی تحریروں نے پورے عالم اسلام پر اپنے گہرے اثرات چھوڑے ، اس دوران اٹھنے والی جملہ اسلامی تحریکات نے انہیں آنکھوں کا سرمہ بنایا ،حضرت مولانا کے والد ماجد علامہ عبد الحی حسنی رحمۃ اللہ علیہ کا ملت اسلامیہ ہندیہ پر یہ احسان عظیم ہے کہ ہندوستان میں اسلام کے داخلہ سے لے کر دور حاضر تک جو علمی و دینی شخصیات گذری ہیں ان کا انسائکلوپیڈیا (نزھۃ الخواطر)اور(الثقافۃ الاسلامیۃ )کی شکل میں پیش کیا ، جس سے عرب و اسلامی دنیا ،اہل ہند کے علمی کارناموں سے آشکار ا ہوئی ، آپ ہی کے خلف الرشید نے اپنے قائدانہ کردار اور فکر کی تازگی اور للھیت سے عالم اسلام میں مسلمانان ہند کا سر فخر سے بلند کردیا ۔اگر تقسیم ہند کی ہولناکیوں کے بعد آپ کا حکیمانہ قلم مسلمانان ہند کو نصیب نہ ہوتا تو شاید دنیا کے اسٹیج پرہندوستانی مسلمان بھلادئے گئے ہوتے ، یہاں پر دینی تعلیم کے فروغ ، ملی ورثہ کی حفاظت ، ثقافتی اداروں کے قیام کے باوجود پڑوسی نوزائیدہ مسلم مملکت کے باشندوں کے بالمقابل مسلمانا ن ہند اپنے ایمان و عقیدے میں ہیچ سمجھے جاتے ، ممالک اسلامیہ سے آپ کو ملنے والے پروقار شاہ فیصل ایوارڈ ، دبی کا عالمی اسلامی شخصیت ایوارڈ ، شاہ حسن بلفقیہ ایوارڈ ، رابطہ عالم اسلامی کی رکنیت تاسیسی ، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی رکنیت تاسیسی ، رابطہ ادب اسلامی کی صدارت ، کلیۃ الشریعہ دمشق سے پروفیسری کی پیشکش،آپ کے ہاتھوں کعبہ مقدسہ کی باب کشائی کے اعزاز سے حضرت مولانا کا مقام کتنا بلند ہوا یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے ، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان سے دنیا کے اسٹیج پر مسلمانان ہند کا قد کاٹھ بہت اونچا ہوگیا۔آپ کا یہ احسان مسلمانان ہند کبھی نہیں بھلا سکیں گے ۔ آپ کے فراق پر ندوۃ العلماء ماتم کناں ہے ، ندوے کی جو قدر و منزلت آج دنیا میں قائم ہے اس میں آپ کی سحر انگیز شخصیت کا وافر حصہ رہاہے۔ آپ اس ادارے کی آبرو تھے ، مسلم پرسنل لابورڈ ، مسلم مجلس مشاورت ، تعلیمی کونسل ، حلقہ پیام انسانیت ، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام اور برصغیر کا ہر صاحب دل مسلمان آپ کی رحلت سے متاثر ہے ، آخر تعزیت کریں تو کس سے ، پوری ملت اسلامیہ تعزیت و دلجوئی کی حقدار ہے ، پوری قوم اشک بار ہے ، ہمارے ہاتھ دست بہ دعا ہیں ، خدایا آپ کی مغفرت فرما، درجات کو بلند کر ، صدیقین ، شہدا و صالحین کی جلو میں آپ کو اٹھا ، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ جانے والے کو کیا ہماری ان دعاؤوں کی ضرورت بھی ہے؟ زمانہ آپ کی عفت لسانی کی قسم کھاتا ہے اور گواہی دیتا ہے کہ آپ کے زبان و قلم سے کسی کو تکلیف تو پہنچنا دور کی بات ، اپنے سخت سے سخت مخالف کا نام بھی کسی نے آپ کی زبان پر نہیں سنا، سیرت نگاری ایسی کی کہ جانے والے کی زندگی کے روشن پہلو ہی سامنے آئے ، رواداری کی ایسی مثال قائم کی کہ چراغ لے کر ڈھونڈیں تو دوسری مثال نہ ملے ، منصب اور عہدے بھاگ بھاگ کر ان کے قدموں تک آئے ، لیکن اپنی آنکھیں بند ہونے سے پہلے خاندان والوں کو اکٹھے کر کے وصیت کی کہ جب ندوے یا کسی اور ادارے میں عہدوں کے انتخاب کا وقت ہوتوتم سب سے آخری صف میں رہنا ، انعام و اکرام کی آپ پر بارشیں ہوئیں ، لیکن ان میں سے ڈھیلہ پیسہ اپنی ذات پر خرچ نہ ہونے دیا ہو ،ندوے اور اپنے ماتحت اداروں کو مادیت پرستی سے دور رکھا، ارض حرم کا دل میں ایسا تقدس تھا کہ وہاں کی جامعات میں نوخیز فارغین کو اس لیئے بھیجنے کی ہمت افزائی نہیں کی کہ آفاق میں رہ کر گناہ آلود ہونے والوں کے نصیب یہاں آکر کھلتے ہیں ، لیکن جس نے یہاں پہنچ کربھی معصیت ترک نہیں کی اس کی بد نصیبی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ،اس کے لئے دنیا میں کوئی دوسری پناہ گاہ نہیں ، لہذا آپ نے حرمین کی جامعات میں جانے کے لئے طلبہ کی سفارش سے ہمیشہ احتراز کیا ، فرائض وسنن کی ایسی پابندی کہ آٹھ ماہ قبل دل کا دورہ پڑا اور فالج کا اثر ہوا ،تب بھی کوئی نماز باجماعت نہیں چھوٹی۔ جب محسن انسانیت ﷺ ہی اس دنیا سے پردہ فرما گئے تو پھر اوروں کی کیا حیثیت ، بیسویں صدی اپنے ساتھ اپنے آخری گوہر گراں مایہ کو لے گئی ، مسلم قوم ایک بار پھر بے قیادت ہوگئی ،نئی صدی کا آغاز ایک بار پھر گزری صدی کے آغاز جیسا ہوگیا ، اب دور دور تک ایسی جامع الصفات قیادت کا نام و نشان نہیں مل رہا ہے۔ یہی قانون قدرت ہے ، جوزندہ شخصیات ہیں انہیں کو ملت کا سرمایہ مان کر کڑی سے کڑی جوڑنا ہے ۔ انہی کے ذریعے ملت کی نیا پار لگوانی ہے ، حضرت مولانا کی تصنیف( تاریخ دعوت و عزیمت) یہی پیغام دیتی ہے ۔ آئیے ماہ مبارک کی ان مبارک ساعتوں میں بارگاہ خداوندی میں دست بہ دعا ہوں کہ خدا یا اس امت کو مزید امتحان میں نہ ڈال ، جو ناقابل تلافی نقصان اب نظر آتا ہے اسے پاٹنے کے اسباب مرحمت فرما ، مسلم قیادت کو حلم و تدبر سے مزین کر ، رواداری سے ان کے دلوں کو بھردے ، عزت جاہ مال و دولت کا لالچ ان کے دلوں سے نکال باہر کر، ان میں للہیت اور خلوص پیدا فرما ، ملت اسلامیہ کو جملہ مسائل و مشکلات سے آزاد کر ، اسے سرخرو کر،توہی دعائین قبول کرنے والا ہے ، ہماری دعاؤوں کو قبول فرما۔آمین ۔ ammuniri@gmail.com