دہلی واطراف کا ایک مختصر علمی سفر ۔ ۰۷ ۔ تحریر:عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Bhatkallys

Published in - Other

08:23PM Sun 19 Jan, 2020

ammuniri@gmail.com

علم وکتاب گروپ میں سے دیوبند میں مفتی محمد اللہ خلیلی صاحب، ویب ایڈیٹر دارالعلوم۔ مفتی محمد نوشاد نوری صاحب، مفتی امانت علی قاسمی وغیرہ احباب سے شرف ملاقات حاصل ہوا ، البتہ مفتی محمد انوار خان بستوی صاحب سے ملاقات نہ ہونے کا افسوس ہوا ، موصوف اس وقت عمرےپر تھے۔ دیوبند سے ہمارے قافلہ کی اگلی منزل سرزمین گنگوہ تھی،مغلیہ دور کے عظیم صوفی بزرگ شیخ عبد القدوس گنگوہی کی نسبت اسی مردم خیز قصبے کی طرف ہے،آپ کی طرف منسوب اس خانوادے کے افراد قدوسی کہلاتے ہیں، مشہور شخصیات میں مولانا محمد زکریا قدوسی، مولانا اعجاز الحق قدوسی وغیرہ اسی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں، ایک مشہور اناونسر صاحبزادہ شہریار قدوسی نے کافی عرصہ قبل ہمیں بتایا تھا کہ وہ گنگوہ کے انہی بزرگ کی خانقاہ کے سجادہ نشینوں سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن قریبی دور میں ا س قصبے کوسب سے زیادہ شہرت اور مرجعیت قطب الارشاد حضرت مولانا مفتی رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ سے ہوئی، کہا جاتا ہے کہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کی ایما پرمولانا رحمت اللہ کیرانوی رحمۃ اللہ علیہ نے مکہ مکرمہ میں مدرسۃ الصولتیہ ، مولانا منور علی دربھنگوی رحمۃ اللہ علیہ نے دربھنگہ ۔بہار میں مدرسہ امدادیہ ، مولانا انوار اللہ خان رحمۃ اللہ علیہ نے حیدرآباد دکن میں جامعہ نظامیہ، مولانا عبد الوہاب ویلوری رحمۃ اللہ علیہ نے ویلور۔ ٹامل ناڈو میں باقیات الصالحات، اور مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ نے دیوبند، اترپردیش میں دارالعلوم دیوبند کی بنا ڈالی، صلابت عقیدہ کے تعلق سے آخر الذکر ادارہ حضرت حاجی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ حضرت مولانا مفتی رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی نمائندگی کرتا ہے۔ لہذا گنگوہ کے بغیر دیوبند کا سفر ایک نامکمل سفر ٹہرے گا، گنگوہ میں حضرت قطب الارشاد کی قبر پر حاضری ہوئی،یہاں بھی وہی پر سکون منظر نظر آیا جو پہلے حضرت حکیم الامت نوراللہ مرقدہ کی قبر پر نظر آیا تھا ، گنگوہ کی اپنی تاریخی اور روحانی حیثیت کے ساتھ ساتھ اس میں ہمارے لئے کشش کا ایک سبب ہمارے میزبان مفتی ساجد صاحب کا یہ وطن ثانی بھی ہونا ہے، مفتی صاحب یہاں کے ممتاز تاریخی تعلیمی ادارے جامعہ اشرف العلوم رشیدی کے استاد حدیث اور اس کے ترجمان ماہنامہ صدائے حق کے مدیر تحریر بھی ہیں، یہیں سے آپ کے علم وفضل کی روشنی چاردانگ عالم میں پھیل رہی ہے۔ جامعہ کے بزرگوں میں سے ہماری ملاقاتیں ناظم اعلی مولانا مفتی خالد سیف اللہ گنگوہی، اور نائب مہتمم قاری عبید الرحمن قاسمی صاحبان سے ہوئی،بانی جامعہ کے پوتے مولانا بلال اشرف رشیدی کی بھی مختصر رفاقت رہی، جی تو بہت چاہتا تھا کہ ان بزرگوں کی صحبت سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہوں، ان کی زنبیل میں ہماری دلچسپی کے بہت سارے پھل اور میوے تھے، دل موہ لینے والی بہت سی باتیں تھیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے اس سفر نے طلب اور پیاس اور بڑھا دی ہے، اور احساس دلایا ہے کہ یہاں آنے میں ہم نے بہت دیر کردی ، لیکن تقدیر میں ہر ایک کام کے لئے ایک وقت مقرر ہے۔ ظہرانے کے بعد حضرت مولانا خلیل احمد محدث سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ کے قصبے انبہٹہ اور حضرت مولانا سعید احمد خان مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے قصبے کھیڑہ افغان سے ہوتے ہوئے مانک مئو پہنچے۔ہمارے میزبان نے سفر کے پڑاؤ کچھ ایسے ترتیب دئے تھے، کہ چندے آفتاب و ماہتاب ، ہر جگہ خوشی ہی خوشی اور مسرت ہی مسرت کا احساس رفیق سفر رہا ، یہ سبھی علاقے لق و دق صحراء میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کھڑے نخلستان لگتے ہیں، جہاں علم وعرفان اور روحانیت کا متلاشی سستاتا ہے، اور یک گونہ راحت محسوس کرتا ہے۔ مانک مئو ہمارے لئے ایک طرح سے انکشاف تھا، یہاں کے کثیر التصانیف بزرگ مولانا محمد ناظم ندوی کے نام سے واقفیت تھی، کافی سال قبل ان کی کتابیں بھی نظر سے گزریں تھیں، لیکن ان کے فرزند ڈاکٹر شاکر فرخ ندوی صاحب کی شخصیت ہمارے لئے بالکل نئی تھی، ڈاکٹر صاحب نے مصر کے مشہور زمانہ تعلیمی ادارے دارالعلوم سے فراغت پائی ہے، مصر میں ازہر شریف کو مذہبی تقدس حاصل ہے، لیکن جہاں تک دارالعلوم کا تعلق ہے ، عربی ادب اور دوسرے زاویوں سے اس کا تعلیمی معیار ازہر سے بلند سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ایک عراقی بزرگ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ جہاں تک عربی زبان میں تعبیر کا مسئلہ ہے اس کے لئے اہل زبان کے ماحول اور ان سے زبان سیکھنا نہایت ضروری ہے، وہ کہا کرتے تھے کہ حضرت مولانا علی میاں ، مولانا مسعود عالم، اور مولانا محمد ناظم ۔ مولانا سعید الرحمن اعظمی ندوی وغیرہ کی زبان اس وجہ سے معیاری ہے کہ انہوں نے  ڈاکٹر تقی الدین ہلالی مراکشی اور خلیل عرب جیسے اہل زبان سے عربی زبان سیکھی تھی، دیکھا جائے تو  دیوبند کے مولانا وحید الزماں کیرانوی مرحوم کا بھی مقام اس وجہ سے بلند ہے کہ آپ نے ایک شامی عالم شیخ مامون الدمشقی سے عربی زباں سیکھی تھی۔اس بات کی وضاحت شیخ الحدیث مولانا محمد حسن جان مرحوم نے اس طرح بیان سے ہوتی ہے کہ ، مولانا جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے ابتدائی طالب علموں میں سے تھے، وہ اکوڑہ ، خٹک وغیرہ سے فارغ ہوکر گئے تھے، کہنے لگے کہ انہوں نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں عرب اساتذہ سے اپنی ملاقات میں دریافت کیا کہ "ھل امک حیۃ" ۔ تو سبھی حاضرین ہنس پڑے، کیونکہ ہمارے مدارس میں یہ قاعدہ پڑھا یا جاتا ہے کہ مذکر پر تائے تانیث لگانے سے وہ لفظ مونث بن جاتا ہے، لہذا حی کا مطلب زندہ مرد اور حیۃ کا مطلب زندہ عورت ، لیکن عربوں میں حیۃ زندہ عورت کے بجائے کسی اور مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ ڈاکٹر فرخ کے تذکرہ کے ساتھ یہ سب باتیں اس لئے یاد آئیں کہ آپ یہاں کے دینی تعلیمی اداے المعھد الاسلامی کے روح رواں ہیں، بنیادی طور پر یہ ادارہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو کے زیر سرپرستی ہے، لیکن ڈاکٹر صاحب کی باتوں سے معلوم ہوا کہ یہاں کے نصاب میں چند بنیادی تبدیلیاں لائی گئی ہیں، مثلا یہاں پر دینی و عصری نصاب ساتھ ساتھ چلتا ہے، اور طالب علم یکساتھ عالم اور گریجویٹ بنتا ہے۔ ندوہ یا دیوبند سے وابستہ اداروں کے بارے میں ہماری جہاں تک محدود معلومات ہیں ، یہ ایک نیا تجربہ ہے،مختلف تعلیمی و تربیتی پہلو سے یہ تجربہ ہمِیں دعوت غوروفکر دیتا ہے۔ دراصل گزشتہ ایک صدی سے علوم شرعیہ اور عربی زبان کے جو نصابہائے تعلیم برصغیر میں رائج ہیں ، ان پر مسلسل آراء سامنے آرہی ہیں ، اس وقت زیادہ تر مدارس دینیہ میں درس نظامی کا سکہ چل رہا ہے، اس کے بعض نقائص پر علامہ شبلی ، مولانا مودودی سے لیکر ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم تک نے اظہار خیال کیا ہے، اس پر مزید اظہار خیال کی ضرورت نہیں۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ گزشتہ ایک ہزار سال میں جو اسلامی لٹریچر سامنے آیا ہے، چاہے وہ فقہ کی شکل میں ہو، یا اصول فقہ کی شکل میں، ان کے معانی کی گہرائی تک پہنچنے کے لئے علم بلاغت ، منطق ، فلسفہ اور کلام کا ادراک ضروری ہے۔ ان علوم میں مہارت، اور ان علوم کی غامض اور مشکل کتابوں کو سمجھنے کی صلاحیت کے بغیر عبارتوں کے سطحی معنی اور ترجمہ تو بیان ہوسکتے ہیں، لیکن عبارتوں کی گہرائی تک پہنچنا، اور ایک مختصر عبارت کے معنی و مفہوم کو شش جہت پھیلانا ممکن نہیں ہے۔ اس کے لئے سوچنے کی صلاحیتوں کو صیقل دینا ضروری ہے، اور دماغ کو آسان عبارتوں کا عادی بنانے کے بعد مشکل عبارتوں کے معانی ومفہوم کے بحر بے کراں میں غوطہ زنی بہت مشکل ہے۔درس نظامی صحیح ڈھنگ سے پڑھایا جائے تو اس پہلو سے یہ فرض کفایہ ادا کرتا ہے، لہذا کسی مدرسہ یا دارالعلوم میں درس نظامی پڑھانے کے ماہر دوچار اساتذہ نہ ہوں تو ہماری ناقص رائے میں یہ ایک نقص سمجھا جائے گا۔ فقہ شافعی کی ایک مشہور درسی کتاب ہے فتح المعین شرح قرۃ العین، اسے فقہ حنفی کی شرح الوقایہ یا شرح النقایہ کا درجہ دے سکتے ہیں، اس کتاب میں کئی ایک ایسے مسائل بیان ہوئے ہیں جنہیں بھٹکل و کوکن وغیر ہ علاقوں میں اب بدعت سمجھا جاتا ہے، جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں ہمارے مہتمم تھے مولانا شہباز اصلاحی صاحب، اساتذہ جامعہ نے اس کتاب کو نصاب سے نکالنے کی آپ سے فرمائش کی، تو مولانا نے فرمایا کہ یہ کتاب فقہ شافعی کی مشکل کتابوں کو سمجھنے کا دروازہ ہے، طلبہ اگر اس کتاب کو سمجھنے میں محنت کریں گے ، اور اپنی دماغی صلاحیتیں لگائیں گے تو وہ آئندہ محلی ، تحفۃ المحتاج وغیرہ جیسی مشکل کتابیں سمجھنے کے قابل ہونگے، اگر ابھی سے انہیں آسان کتابوں کا عادی بنا یا جائے گا تو یہ طلبہ اہم مراجع کو سمجھنے سے قاصر ہوجائیں گے۔ آج کے زمانے میں فقہی اکیڈمیوں اور سیمیناروں میں مقاصد الشریعۃ کا بہت چرچہ ہے، امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ کی الموافقات ، اور شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی حجۃ اللہ البالغۃ اس موضوع پر بنیادی کتابیں سمجھی جاتی ہیں، کیا ان کی عبارتیں اتنی سہل ہیں جتنی پڑھنے سے محسوس ہوتی ہیں؟۔ اچٹتی نظر سے انہیں پڑھنے سے ان کی عبارتیں گنجلگ نہیں لگتیں، سب جانی پہچانی لگتی ہیں، کیا یہ اتنی ہی آسان ہیں ؟ ، یا پھر ان میں غواصی کرنے اور ان کی گہرائی سے موتی لانے کے لئے مذکورہ بالا علوم وفنون میں مہارت درکار ہے؟ جنوبی ہند کی عظیم درسگاہ باقیات الصالحات میں شیخ الحدیث ہوا کرتے تھے، حضرت مولانا سید صبغۃ اللہ بختیاری رحمۃ اللہ ، حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد خاص اوران کے گرویدہ لوگوں میں تھے، انہیں برصغیر کے دو عظیم مفکرین کی رفاقت نصیب ہوئی تھی، ایک تو ان کے رفیق درس تھے، اور دوسرے ان کے گھر کے ممبر اور ان کے والد کے شاگرد۔ انہوں نے ایک مجلس میں اپنے ان دو دوستوں کی زبان دانی کا  موازنہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک نے عربی زبان میں اپنی تحریروں سے جادو جگایا ہے، اہل عرب ان کی تحریروں سے مسحور ہوئے، اس کے بالمقابل دوسری شخصیت ٹھیک سے عربی بول بھی نہیں سکتی تھی، لیکن انہوں نے قدیم اساتذہ سے بلاغت ، منطق وفلسفہ سیکھنے میں اتنی محنت کی تھی، کہ زبان فہمی اور اس کی باریکیاں نکالنے میں آخر الذکر کی مثال شاذ ونادر ہی ملتی ہے۔ اسی طرح آپ نے فرمایا کہ آپ کا بہت دنوں پہلے ندوے جانا ہوا تھا، سب اساتذہ کی تعلیم اورفراغت کے بارے میں استفسار کیا ،علم وفن میں جس گہرائی کی انہیں تلاش تھی ، اس کے بارے میں اطمئنان نہ ہوسکا، لیکن جب مولانا ابو العرفان ندوی رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات ہوئی تو دل باغ باغ ہوگیا، مولانا ابو العرفان ندوی جونپور کے تھے، اور علوم عقلیہ میں قدیم اساتذہ سے فیض یافتہ تھے، مولانا ابو العرفان مرحوم کا ایک واقعہ احباب نقل   کرتے ہیں کہ ندوی مصنفین کی کتابوں کی ایک نمائش لگی تھی ، تو وہاں سے مولانا کا گزر ہوا، آپ کی کوئی تصنیف ان میں نظر نہیں آئی ، ٹھوڑی پر ہاتھ رکھ کر فرمایا ، اچھا ان میں میری کوئی کتاب نہیں ہے؟ دراصل مولانا  تدریس کے آدمی تھے، ڈھونڈنے سے شاید ایک کتاب نکل آئے، آپ ندوے کے مہتمم بھی رہے، بڑے خوش مزاج بزرگ تھے۔ضروری نہیں کہ مولانا بختیاری مرحوم کی باتوں سے آپ اتفاق کریں، لیکن بر سبیل تذکرہ ایسی باتوں کے ذکر میں کیا حرج ہے؟ کیاان سے ذہنوں کو تحریک نہیں ملتی؟ اور ان موضوعات پر سوچنے کی نہیں جہتیں نہیں کھلتیں؟۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ڈاکٹر فرخ صاحب کی باتوں نے ہمیں متاثر کیا، ایسا لگا کہ ٹہرے پانی میں کسی نے کنکر مار دیا ہو، درس نظامی کی خصوصیات اپنی جگہ، لیکن ہمارے فارغین مدارس کی ضرورتیں اور بھی ہیں، ان کے سامنے چیلنجوں کا پہاڑ کھڑا ہے، عربی زبان کی نصابیات کا جہاں تک تعلق ہے اس کے لئے ڈاکٹر فرخ ایک مناسب شخصیت نظر آتے ہیں ، ان کی صلاحیتوں اور تجربات سے استفادہ کرنا چاہئے، لیکن نصابیات میں تغیر و تبدیلی ایک اکیلے کے بس کا کام نہیں ، ہماری ناقص رائے میں یہ کام اجتماعی فکر اور جد جہد کا متقاضی ہے، کیوں کہ اس کا حال یہ ہے کہ جب یہ کام شروع کیا جاتا ہے تو کبھی پیر کھل جاتا ہے، کبھی سر، انفرادی کاموں میں نقص اور نامکمل ہونے کا خوف ہمیشہ رہتا ہے۔ ہمارے مولانا شہباز اصلاحی مرحوم فرمایا کرتے تھے ، کہ اردو یا عربی نصاب تعلیم کو از سر نو ترتیب دینے کے تعلق سے برصغیر میں جو بھی کام ہوتاہے وہ دو تین درجات تک معیاری اور اچھی ترتیب کے ساتھ ہوتا ہے، لیکن اس کے بعد مرتبین کی سانس پھولنے لگتی ہے، وہ طلبہ کی نفسیات کو ملحوظ نظر رکھ کر نصاب مرتب نہیں کرسکتے ، جلد بازی میں لکھی ہوئی ریڈریں مدارس کے طلبہ کو بھگتنی پڑتی ہیں۔ ڈاکٹر فرخ صاحب نے ہمیں بتایا کہ موضوعات کی یکسانیت اور تکرار کی بوریت سے بچنے کے لئے، انہوں نے کئی ایک نصابی کتابوں اور ابواب کو کم کردیا ہے، چند منٹ کی ملاقات سے کسی نصاب تعلیم کے بارے رائے قائم کرنا زیادتی ہوگئی، لیکن ہماری ناقص رائے ہے کہ فقہ شافعی کی درسیات میں پہلے متن ابو شجاع ، اس کے بعد اس پرابن قاسم عزی کی فتح القریب المجیب ، اور اس کے بعد اس پر حاشیۃ الباجوری پڑھائی جائے ، تو ان سبھی کتابوں کے موضوعات یکساں ہونے کے باجود یہ غیر مفید تکرار نہیں ہوگی، کیونکہ ابتدائی عمر کے مطابق ، متن میں مختصر ابتدائی مسائل کا ادراک ہوگا، معیار کچھ بڑھے گا تو عمر کے معیار کے مطابق مزید مسائل اور متن کی باریکیاں سامنے آئیں گی، اور مزید عمر بڑھے گی تومزید مشکل مسائل مستحضر ہونگے، اور عبارتوں کی باریکیاں سمجھ میں آئیں گی، اور مختلف انداز اور معیار کے مسائل تین مرتبہ پڑھنے کی وجہ سے یہ مسائل تکرار سے پتھر کی لکیر کی طرح ذہن میں پیوستہ ہوجائیں گے۔ اب چار سالوں میں کوئی مسئلہ ایک ہی مرتبہ  طالب علم کے سامنے آئے گا تو اس کا ذہن میں پختہ طور پر محفوظ ہوجانا ممکن نظر نہیں آتا، اور یہ حافظے کے قوانین کے بھی خلاف نظر آتا ہے۔یہ ہمارا اعتراض نہیں ہے ، بلکہ تعلیم وتربیت سے وابستہ اہل علم شخصیات کے تبادلہ خیال کے لئے ایک نکتہ ہے جو ہم اٹھا رہے ہیں، بہر حال ڈاکٹر فرخ صاحب جو محنت کررہے ہیں ، وہ قابل قدر ہیں ، ملت کو ایسے کئی ایک باصلاحیت فکر مند نوجوانوں کی ضرورت ہے، ہماری نیک خواہشات آپ کے ساتھ ہیں۔

19/1/2020