لڑائی یا فرار۔۔۔

Bhatkallys

Published in - Other

11:45AM Tue 28 Jun, 2016
مشرقِ وسطیٰ میں حالات غیر مستحکم رہے ہیں مگر اس وقت جو صورت حال ہے ویسے برے حالات تو کبھی نہ تھے۔ عراق، لیبیا، شام اور یمن میں بڑے پیمانے پر خانہ جنگی ہو رہی ہے۔ مصر، جنوبی سوڈان اور ترکی میں بھی لاوا پک رہا ہے۔ یہ خانہ جنگیاں اور بگڑتے ہوئے حالات سعودی عرب، الجزائر، اردن، تیونس اور لبنان کے لیے بھی خطرات بن کر ابھر رہے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان اختلافات میں شدت آتی جارہی ہے۔ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان بھی نچلی سطح ہی پر سہی، تشدد پروان چڑھ رہا ہے۔ کویت، عمان، مراکش، قطر اور متحدہ عرب امارات نے اب تک تو کسی بھی طرح کا مسلح تصادم ٹالنے میں کامیابی حاصل کی ہے مگر وہ بھی مکمل طور پر مطمئن نہیں اور معاملات کو کنٹرول کرنے کی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں۔ تیرہویں صدی میں منگولوں کے حملوں کے بعد سے اب تک مشرق وسطیٰ کے حالات اتنے غیر مستحکم کبھی نہیں رہے۔ امریکا خواہ کتنے دعوے کرے کہ مشرق وسطیٰ میں اختلافات اپنی موت آپ مرجائیں گے، لوگوں کو ہوش آئے گا اور وہ پھر مل کر رہنے لگیں گے، حقیقت یہ ہے کہ ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ بیرونی مداخلت سے قطع نظر خطے کے حکمران ایسی پالیسیاں اختیار کر رہے ہیں جن کے نتیجے میں اختلافات کو مزید ہوا مل رہی ہے، مسلح تصادم مزید پروان چڑھ رہا ہے۔ عدم استحکام مستقل سا ہوکر رہ گیا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں خانہ جنگی اگر زور پکڑ لے تو عشروں تک چلتی رہتی ہے۔ اور ایک مشرق وسطیٰ پر کیا موقوف ہے، دنیا میں کہیں بھی خانہ جنگی جلد اور آسانی سے ختم نہیں ہوتی۔ کانگو کی خانہ جنگی بائیسویں، پیرو کی خانہ جنگی چھتیسویں اور افغانستان کی خانہ جنگی سینتیسویں سال میں داخل ہو رہی ہے۔ ایسے میں یہ سوچنا کسی بھی اعتبار سے غیر منطقی نہیں کہ مشرق وسطیٰ کی خانہ جنگیاں بھی اپنی موت آپ مریں گی یعنی بیرونی مداخلت کے ذریعے انہیں ختم نہیں کیا جاسکے گا۔ مشرق وسطیٰ کو اس وقت بیرونی مدد کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ نئے امریکی صدر کے لیے مشرق وسطیٰ میں چوائس کا مسئلہ کھڑا ہوگا۔ انہیں یا تو خطے میں امریکی اثر و نفوذ بڑھانا پڑے گا یا پھر بڑی حد تک وہاں سے نکلنا پڑے گا۔ سب کی نظریں امریکا پر جمی ہیں۔ سب کا یہ خیال ہے کہ مشرق وسطیٰ کی خانہ جنگیاں اسی وقت ختم ہوسکتی ہیں جب امریکا زیادہ کھل کر ایسا چاہے۔ امریکا کے لیے یہ فیصلے کی گھڑی ہے مگر فیصلہ ایسا آسان نہیں۔ اگر وہ اپنی ترجیحات کم کرکے مشرق وسطیٰ سے دور ہٹنے کی کوشش کرے گا تب بھی اس کے لیے خطرات بڑھتے جائیں گے۔ اسے خطے میں بہت سے مفادات سے دست بردار بھی ہونا پڑے گا۔ اور ساتھ ہی ساتھ دنیا کی واحد سپر پاور کی حیثیت سے اس کی ساکھ بھی داؤ پر لگے گی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں اپنی انوالومنٹ کم کرنے کے بجائے امریکا کو کردار بڑھانا ہوگا کیونکہ ایسا کرنا زیادہ آسان ہوگا۔ ٭ فرد، ریاست اور خانہ جنگی امریکا کے لیے مشرق وسطیٰ میں اپنا کردار وسیع کرنے سے قبل وہاں جاری خانہ جنگیوں کی اصل وجوہ اور نوعیت کو سمجھنا لازم ہے۔ ویسے تو موجودہ خانہ جنگیوں کو صدیوں پرانی نفرت یا پھر جدید دور میں اسلامی شخصیات اور شعائر کی توہین کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے، مگر اس سے کہیں بڑھ کر ہمیں عرب دنیا کے ریاستی نظام کو سمجھنا ہوگا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد عرب ممالک نے جو ریاستی نظام اپنایا وہی خرابیوں کی اصل جڑ ہے۔ ایک طرف تو روایتی بادشاہت کو گلے لگایا گیا اور دوسری طرف، پوری تیاری کے بغیر، مغرب کی نقل کرتے ہوئے ’’سیکولر ری پبلک‘‘ کا نظام اپنایا گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد خطے کی معیشت بنیادی طور پر تیل کی دولت پر انحصار پذیر رہی ہے۔ تیل کی دولت بے حساب ضرور آئی مگر اس نے حقیقی معاشی استحکام کی راہ ہموار نہ کی۔ کچھ کیے بغیر ملنے والی بے حساب دولت نے کام کرنے کا وہ جذبہ پیدا نہ کیا جو پیدا ہونا چاہیے تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دولت تو آئی مگر اس کے ساتھ معاشی سرگرمیوں نے تیزی سے فروغ نہ پایا۔ صنعتی سطح پر برائے نام ہی کچھ کیا جاسکا۔ دولت کو خرچ کرنے ہی کو معیشت سمجھ لیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ کام کرنے کی عادت کمزور پڑتی چلی گئی۔ سعودی عرب، کویت، قطر، بحرین اور متحدہ عرب امارات کا یہی مسئلہ ہے۔ معاشی سرگرمیوں میں توازن برائے نام دکھائی دیا ہے۔ عرب ریاستیں نوآبادیاتی دور اور سلطنت عثمانیہ کے کنٹرول سے نکل تو گئیں مگر ان کا اپنا صدیوں پرانا سماجی و ثقافتی نظام برقرار تھا، جس کے باعث ان کے لیے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق کام کرنا زیادہ آسان نہ رہا۔ جب تک تیل کی دولت کھل کر آرہی تھی تب تک تو کچھ بھی خراب نہ تھا۔ یہ سماجی و ثقافتی نظام کسی نہ کسی طور چلتا ہی رہا مگر جب دنیا بھر میں خام تیل کے نرخ گرنے لگے، معیشتیں ڈانوا ڈول ہونے لگیں تب عرب دنیا کے لیے بھی غیر معمولی مسائل پیدا ہوئے۔ معیشتوں کا انحصار صرف تیل کی آمدنی پر تھا اس لیے تیل کی عالمی منڈی کے غیر یقینی حالات عرب ریاستوں کے معیشتی ڈھانچے پر خطرناک حد تک اثر انداز ہونے لگے۔ عالمگیریت نے خطے میں عوام کی سوچ بھی تبدیل کردی۔ حکمرانوں سے مطالبہ کیا جانے لگا کہ وہ عوام کے مسائل زیادہ موثر انداز سے حل کریں۔ عرب دنیا اور ایران میں عوام نے اپنی اپنی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کے بنیادی مسائل اس طور حل کیے جائیں کہ زندگی آسان ہو۔ عوام کا یہ مطالبہ مجموعی طور پر نظر انداز کردیا گیا اور معاملات کو اسی طور چلنے دیا گیا جس طور وہ چلتے آئے تھے۔ جب عوام کو اپنے سوالوں کا جواب نہ ملا اور ان کے مسائل حل کرنے میں حکومتی نظام نے خاطر خواہ دلچسپی نہ لی تو انہوں نے معاملات کو درست کرنے کی ٹھانی۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے میں سعودی عرب اور مصر میں عوام کی سطح پر اشتعال اور اضطراب نے جنم لیا۔ اخوان المسلمون حکومتی طبقوں کے لیے ایک بڑی مخالف قوت بن کر ابھری۔ سعودی عرب میں بھی منحرف سامنے آنے لگے۔ یہ لوگ کسی نہ کسی سطح پر عوام کے نمائندے تھے اور ان کے مسائل کی بات کھل کر کرتے تھے، جس کے نتیجے میں حکومتی طبقوں کو خوف محسوس ہونے لگا۔ اخوان المسلمون اور دیگر سیاسی قوتوں نے عوام کے مسائل کی بات کرکے ان کے دلوں میں جگہ بنائی اور پھر حکومتوں کا تختہ الٹنے کی تیاریاں کرنے لگیں۔ مگر اس کے لیے لازم تھا کہ حکمراں طبقے کے غیر ملکی سرپرستوں کو پہلے رخصت کیا جائے۔ یوں امریکا مخالف لہر پیدا ہوئی۔ عوام میں کئی عشروں تک پنپتے ہوئے انتشار کے نتیجے میں جنوری ۲۰۱۱ء میں عرب دنیا میں انقلابی لہر پیدا ہوئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے مصر سمیت کئی ممالک کی حکومتیں گرگئیں۔ ابتدائی مرحلے میں ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ حکومتوں کے خاتمے سے معاملات کو درست کرنے میں غیر معمولی حد تک مدد ملے گی اور دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ درست ہوجائے گا، مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ انقلاب جس قدر طاقتور ہوتا ہے اسی قدر ناقابل گرفت بھی ہوتا ہے اور بالآخر اس کے نتیجے میں خرابیاں دوبارہ ابھرتی ہیں۔ عرب دنیا میں ابھرنے والے انقلاب کو بھی کنٹرول نہ کیا جاسکا اور آمروں نے نہایت چالاکی سے ایسے کسی بھی مقبول عوامی رہنما کو منظر پر رہنے نہ دیا جو پوری قوم کو متحد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ لیبیا، شام اور یمن میں عوامی بیداری کی لہر جاندار تھی مگر خانہ جنگی اُس سے زیادہ جاندار ہے۔ جن عرب اور افریقی ممالک میں عوامی بیداری کی لہر اٹھی تھی ان میں اب سیکیورٹی کا خلاء موجود ہے اور خانہ جنگی جاری ہے۔ اور اس خانہ جنگی کے خاتمے کے آثار نہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد عرب دنیا نے جو ریاستی نظام اپنایا وہ حقیقی مسئلہ تھا۔ اس مسئلے کی کوکھ ہی سے دوسرے بہت سے مسائل نے جنم لیا۔ عرب ریاستی نظام کی ناکامی سے خانہ جنگیاں پیدا ہوئی ہیں جو دوسرے حقیقی مسئلے کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ ان خانہ جنگیوں نے پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کیا ہے اور حقیقی ترقی کی راہ بری طرح روکی ہوئی ہے۔ عرب دنیا کی خانہ جنگیوں نے لاکھوں افراد کی جان لی ہے اور اس کے نتیجے میں دوسرے خطوں کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ خانہ جنگیوں کی ایک بری عادت یہ ہوتی ہے کہ یہ اپنے علاقے تک محدود نہیں رہتیں اور پڑوسی ریاستوں کو بھی لپیٹ میں لیتی ہیں۔ شام کی خانہ جنگی اس کی بہت واضح مثال ہے۔ لاکھوں پناہ گزین خطے کے دیگر ممالک میں سکونت اختیار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ کسی بھی ملک میں ابھرنے اور پنپنے والی خانہ جنگی بالآخر پڑوسی ممالک پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ خانہ جنگی کا ایک اور وتیرہ یہ بھی ہے کہ یہ اپنے پڑوسی ممالک پر اثر انداز ہونے کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی انہیں اپنے اندر جذب بھی کرلیتی ہے۔ کسی بھی خانہ جنگی کو پھیلنے سے روکنے کی کوششیں غیر معمولی توجہ اور احتیاط چاہتی ہیں۔ اگر ذرا سی اونچ نیچ ہوجائے تو معاملات ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔ سعودی عرب نے یمن میں اور ایران و روس نے عراق اور شام میں مداخلت کرکے اس کا خمیازہ بھگتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد عرب ریاستی نظام کی ناکامی اور پھر چار خانہ جنگیوں کا شروع ہوجانا گویا کافی نہ تھا۔ امریکا نے بھی خطے سے توجہ ہٹالی ہے۔ وہ اب یہاں اپنی ترجیحات کم کر رہا ہے۔ ایسا کرنے سے معاملات درست تو کیا ہونے تھے، مزید بگڑتے گئے ہیں۔ امریکا واحد سپر پاور ہے اور کئی خطوں میں اس کی موجودگی کو عدم استحکام کے ساتھ ساتھ استحکام کی ضمانت بھی سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں عرب دنیا کی خانہ جنگیوں سے امریکا کا دور ہٹنا معاملات کو مزید الجھانے کا باعث بن رہا ہے۔ سولہویں صدی میں سلطنت عثمانیہ کے حملوں کے بعد سے مشرق وسطیٰ بڑی طاقتوں کے اثرات سے محفوظ نہیں رہا۔ اس خطے میں کوئی نہ کوئی بڑی، بیرونی قوت موجود رہی ہے۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ بیرونی قوت یہاں تنازعات کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کرتی آئی ہے۔ اب اسے اچھا کہیے یا برا، عرب دنیا اپنے اندرونی معاملات کسی نہ کسی ثالث یعنی بڑی بیرونی قوت کے ذریعے ہی درست کرتی آئی ہے۔ امریکا نے عراق سے بوریا بستر لپیٹا تو وہاں نئی اور حقیقی خرابیوں نے جنم لیا۔ امریکا نے عراق پر حملہ کرکے وہاں سب کچھ درست کرنے کے نام پر صدام حسین کی حکومت ختم کی مگر جب معاملات بے قابو ہوگئے تو امریکی قیادت کو فکر لاحق ہوئی کہ یہ بھی کہیں خسارے کا سودا ہی ثابت نہ ہو۔ افغانستان کی طرح عراق میں بھی پھنسنے سے بچنے کے لیے امریکی قیادت نے وہاں سے نکل جانے ہی میں عافیت جانی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ کسی بھی ملک میں خانہ جنگی کی آگ بجھانے اور حقیقی امن قائم کرنے کے لیے لازم ہے کہ چند اندرونی اور بیرونی قوتیں امن کی ضمانت دیں۔ جب تک ایسا نہ کیا جائے تب تک امن قائم نہیں ہوتا مگر امریکا نے ایسا کرنے کی زحمت گوارا کیے بغیر وہاں سے نکل جانا بہتر جانا۔ اس کے نتیجے میں عراق خانہ جنگی کی آگ میں جلتا چلا آرہا ہے۔ وہاں امن فوج تعینات کرنے کے بجائے معاملات کو اندرونی کھلاڑیوں کے ہاتھ میں دے دیا گیا۔ بوسنیا ہرزیگووینا کی طرز پر کوئی انتظام کیے جانے کی صورت میں عراق بھی بہتر انداز سے اپنے معاملات کو درست کرنے کی پوزیشن میں آسکتا تھا۔ اس بات کو یقینی بنانے پر غیر معمولی توجہ دینا پڑتی ہے کہ خانہ جنگی کے بنیادی فریق دوبارہ تشدد کی طرف مائل نہ ہوں گے۔ خانہ جنگی رکوانے کے خلاف سازشیں بھی کی جاتی ہیں۔ ان سازشوں کو ناکام بنانا بھی لازم ہوتا ہے، تاکہ امن عمل بہتر انداز سے آگے بڑھتا رہے۔ عراق کے معاملے میں امریکا نے جو کچھ کیا وہ ایسا نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے۔ اس نے عراق پر حملہ کیا اور وہاں ایک جنگ چھیڑی مگر جب معاملات بگڑگئے تو وہاں سے نکل گیا۔ اس کے نتیجے میں خرابیوں کو پیدا ہونا تھا اور وہ ہوئیں۔ مشرق وسطیٰ سے امریکا کا قدرے لاتعلق ہو جانا خطے میں مزید عدم استحکام کا باعث بنا ہے۔ جب امریکا فعال تھا تب کئی چھوٹی اور کمزور ریاستوں کو یقین تھا کہ امریکا کی موجودگی میں کوئی بھی بڑا ملک چھوٹے ملک کے خلاف کچھ نہ کرے گا۔ جب امریکا نے مشرق وسطیٰ کے بارے میں اپنی پالیسی تبدیل کی اور وہاں کے معاملات سے لاتعلق رہنے کی روش پر گامزن ہونا شروع کیا تب معاملات بگڑتے چلے گئے۔ خطے کے چھوٹے ممالک اب بھی شدید عدم تحفظ کے احساس سے دوچار ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ ذرا سا بہتر موقع ملتے ہی کوئی بھی بڑا ملک ان کے تمام مفادات ہڑپ کر جائے گا۔ مشرق وسطیٰ سے امریکا کا قدرے لاتعلق ہوجانا خطے میں پرانی رقابتوں کو مزید پروان چڑھانے کا باعث بن رہا ہے۔ سعودی عرب اور ایران کا معاملہ بہت واضح ہے۔ جب تک امریکا اور اس کے یورپی اتحادی مشرق وسطیٰ میں غیر معمولی حد تک فعال تھے تب تک چھوٹی ریاستوں کو زیادہ فکر لاحق نہ تھی۔ انہیں یقین تھا کہ خطے کے کسی بھی بڑے ملک میں اگر توسیع پسند عزائم پیدا ہوئے تو امریکا اور اس کے یورپی اتحادی آگے بڑھ کر اس کی راہ روکیں گے۔ اب ایسا کچھ بھی نہیں۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاملات بگڑتے ہی جارہے ہیں۔ ان دو بڑی علاقائی طاقتوں کے درمیان رسّا کشی نے خطے کے تمام ہی چھوٹے ممالک کے لیے شدید نفسیاتی الجھن پیدا کردی ہے۔ معیشت پہلے ہی ڈانوا ڈول ہے۔ ایسے میں دو بڑی علاقائی طاقتوں کا یوں ایک دوسرے کے مقابل آجانا مزید خرابیوں کا باعث بن رہا ہے۔ سعودیوں کا شکوہ ہے کہ ایران نے یمن میں مداخلت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران نے یمن کی اقلیتی حوثی برادری کی براہ راست مدد کی ہے جس کے نتیجے میں خانہ جنگی نے شدت اختیار کی ہے۔ سعودی عرب نے یمن میں حوثی برادری کے خلاف براہ راست کارروائی کی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے معاملات کو بد سے بدتر کرنے میں امریکی پالیسی میں رونما ہونے والی تبدیلی نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ عراق میں مداخلت کرکے پہلے تو امریکا نے معاملات کو الجھایا مگر جب سب کچھ ہاتھ سے جاتا دکھائی دیا تو جان چھڑانے میں عافیت جانی۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب امریکا ایک طرف ہے اور مشرق وسطیٰ کا بحران دوسری طرف۔ امریکا چاہتا ہے کہ اب مشرق وسطیٰ سے کچھ دور رہے، الگ رہے۔ براک اوباما نے مشرق وسطیٰ کے معاملات کو درست کرنے میں برائے نام بھی دلچسپی نہیں لی۔ جب معاملات خراب ہوئے تو انہوں نے دور رہنے کی پالیسی اختیار کی۔ اس کے نتیجے میں بہت سی خرابیاں پیدا ہوئیں اور اب بھی ہو رہی ہیں۔ امریکا نے دور رہنے (disengagement) کی پالیسی اختیار کرکے معاملات کو درست کرنے کی تھوڑی بہت کوشش بھی نہیں کی۔ اگر نئے امریکی صدر مشرقِ وسطیٰ کے معاملات کو درست کرنے کی کوشش کرنے کے موڈ میں نہیں تو اس کے پاس پیچھے ہٹنے کے سوا کوئی آپشن نہ ہوگا۔ براک اوباما نے ۲۰۰۹ء میں مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ عرب ریاستی نظام کو نئی شکل دینے کے حوالے سے اقدامات کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مگر یہ محض زبانی جمع خرچ تھا۔ بعد میں انہوں نے ایسا کچھ بھی نہ کیا جو ان کی تقریر سے مطابقت رکھتا۔ وسائل مختص کرنا تو دور کی بات ہے، براک اوباما نے کسی بھی سطح پر ایسی کوئی بات نہیں کہی جو اس بات کی طرف اشارا کرتی ہو کہ وہ کسی نئے عرب ریاستی نظام کے حوالے سے سنجیدہ ہیں۔ اس وقت بھی اوباما ایسا کچھ نہیں کر رہے جو مشرق وسطیٰ کے حوالے سے ان کی پالیسیوں میں کسی بڑی تبدیلی کا اشارا دے رہا ہو۔ جنوری ۲۰۱۱ء میں جب عرب دنیا میں بیداری کی لہر دوڑی اور عوام نے فرسودہ ریاستی نظام کو اکھاڑ پھینکنے کی کوششیں شروع کیں تب بھی امریکا نے عملاً ایسا کچھ نہ کیا جو یہ ظاہر کرتا ہو کہ امریکا معاملات کو درست کرنا چاہتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کو طویل المیعاد سیاسی اور معاشی اصلاحات کی ضرورت ہے مگر امریکا اس حوالے سے ٹھوس بنیاد پر کچھ بھی کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پالیسی کے معاملات میں امریکا نے اب مشرق وسطیٰ کو بہت نیچے رکھ دیا ہے یا پھر بھول جانے کی تیاری میں ہے۔ واشنگٹن نے خانہ جنگیاں روکنے کے معاملے میں اب اپنی پالیسی اس قدر تبدیل کرلی ہے کہ کوئی بھی حقیقی تبدیلی رونما ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ چند ایک نمائشی اقدامات کے ذریعے امریکی حکومت یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کو خانہ جنگیوں سے پاک کرنا چاہتی ہے مگر درحقیقت وہ ایسا کچھ بھی نہیں کر رہی جو معاملات کو درستی کی راہ پر گامزن کرتے ہوں۔ داعش اور القاعدہ کے خلاف چند ایک کارروائیاں کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ امریکا مشرق وسطیٰ کو دہشت گردی سے پاک کرنا چاہتا ہے۔ دوسرے اقدام کے طور پر چند پناہ گزینوں کو قبول کرلیا جاتا ہے تاکہ دنیا کو یہ تاثر ملے کہ امریکا کو مشرق وسطیٰ میں پنپنے والے بحرانوں اور خانہ جنگیوں کا شدت سے احساس ہے۔ اس بات پر خاص توجہ دی جارہی ہے کہ امریکی سرزمین اب دہشت گردی سے مکمل طور پر محفوظ رہے اور نائن الیون کی طرز کا کوئی بھی سانحہ رونما نہ ہو۔ خانہ جنگی کا دائرہ وسعت اختیار کر رہا ہے۔ عراق کی خانہ جنگی نے شام کو لپیٹ میں لیا۔ شام اور عراق کی بگڑتی ہوئی صورت حال نے ترکی میں چھوٹے پیمانے کی خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ اب خلیج کا خطہ بھی خطرات سے دوچار ہے۔ خلیجی ریاستیں اس امر کے لیے کوشاں ہیں کہ ان کی سرزمین پر خانہ جنگی نہ ہو یا خانہ جنگی کے اثرات نہ پہنچیں۔ پناہ گزینوں کا سیلاب خلیج کے علاوہ یورپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ امریکا اور اس کے یورپی اتحادی خوفزدہ ہیں کیونکہ مشرق وسطیٰ میں جو بحران پنپ رہے ہیں وہ مغربی پالیسیوں ہی کی پیداوار ہیں۔ جب امریکا اور یورپ کے خلاف بیداری کی لہر شدت اختیار کرے گی تو مغرب میں بھی دہشت گردی کا دائرہ وسعت اختیار کرے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ بنیادی اسباب کو ختم کیے بغیر کسی بھی خانہ جنگی کو مکمل اور موثر طور پر ختم کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ یورپ خواہ کتنی بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کو قبول کرے، جب تک خانہ جنگی جاری رہے گی تب تک پناہ گزینوں کی بڑی تعداد یورپ اور دیگر خطوں کا رخ کرتی رہے گی۔ پناہ گزینوں کو قبول کرتے رہنا کسی بھی طور اس مسئلے کا موثر حل قرار نہیں پاسکتا۔ امریکا خواہ کتنی ہی تعداد میں دہشت گردوں کو قتل کرتا رہے، جب تک خانہ جنگی یا خانہ جنگیاں جاری رہیں گی تب تک متعلقہ ممالک کے نوجوان دہشت گردی پر مائل ہوتے رہیں گے اور مسائل وہیں کے وہیں رہیں گے۔ امریکا نے افغانستان میں القاعدہ کو غیر معمولی اور فیصلہ کن نقصان پہنچایا ہے مگر اس کے باوجود پندرہ برس میں سَلَفی جہاد ازم تیزی سے پروان چڑھتا گیا ہے۔ اس گروپ کی نئی شاخیں سامنے آتی رہی ہیں جن کے ہاتھوں ہزاروں نوجوانوں کی جہادیوں کے طور پر بھرتی ہوتی رہی ہے۔ یہ جہادی نوجوان اب متعدد ممالک میں فعال ہیں۔ داعش اس کی سب سے واضح مثال ہے۔ امریکا نے جہادی گروپوں کو بھرپور طور پر ختم کرنے میں ایک مرحلے پر کامیابی حاصل کرلی تھی۔ عراق پر حملے کے بعد وہاں استحکام پیدا ہوا تو جہادیوں کی کمر ٹوٹ گئی مگر جب شام میں خانہ جنگی چھڑی تو عراق میں بھی معاملات بگڑتے گئے اور وہاں داعش اور دیگر جہادی گروپ تیزی سے مضبوط ہوتے چلے گئے۔ عام خیال یہ ہے کہ خانہ جنگی وہی فریق مل کر ختم کرسکتے ہیں جو لڑ رہے ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خانہ جنگی عام طور پر ثالثی ہی کے ذریعے ختم کی جاسکتی ہے۔ فریقین کا کسی ایک نکتے پر از خود متفق ہونا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ ایسے میں ناگزیر ہوجاتا ہے کہ کوئی تیسرا فریق نمودار ہو اور اپنا کام کرے۔ وہ متحارب گروپوں کو مذاکرات کی میز پر لاتا ہے۔ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر معاملات طے کیے جاتے ہیں اور جب فریقین کسی نکتے پر متفق ہوتے ہیں تب امن کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ مذاکرات کا عمل کئی ماہ یا کئی برس بھی جاری رہ سکتا ہے۔ بہرحال، ثالثی کے ذریعے ہی معاملات طے پاتے ہیں اور خانہ جنگی اپنے انجام سے آشنا ہوتی ہے۔ خانہ جنگیوں کے ماہرین کہتے ہیں کہ ۱۹۴۵ء سے اب تک ۲۰ فیصد معاملات میں اور ۱۹۹۵ء سے اب تک ۴۰ فیصد معاملات میں خانہ جنگی اسی وقت ختم کرائی جاسکی جب بیرونی کھلاڑیوں یعنی ثالثوں نے اپنا کردار عمدگی سے ادا کیا۔ خانہ جنگی ختم کرانا کوئی آسان کام نہیں مگر ضروری نہیں کہ خانہ جنگی ختم کرانے والے ہر کردار کو وہی کچھ بھگتنا پڑے جو امریکا کو عراق کے معاملے میں بھگتنا پڑا۔ یا پھر یہ کہ یہ عمل ویسا ہی تباہ کن ثابت ہو جیسا عراق میں ثابت ہوا۔ خانہ جنگی ختم کرانے میں ثالث کا کردار ادا کرنے والی قوت کو تین بنیادی مقاصد حاصل کرنا ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے تو عسکری منظر نامہ تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ خانہ جنگی کے ہر فریق کو یہ احساس دلانا ناگزیر ہے کہ وہ تنہا فاتح ثابت ہونے کی پوزیشن میں نہیں۔ اور یہ خوف بھی ختم ہوجانا چاہیے کہ اگر کسی گروپ نے ہتھیار ڈال دیئے تو اس کے ارکان کو قتل کردیا جائے گا۔ دوسرے مرحلے میں اقتدار میں شرکت کا ایسا فارمولا طے کیا جانا چاہیے جس کی مدد سے خانہ جنگی کے تمام فریق نئی حکومت میں معقول حصہ پاسکیں۔ اور تیسرے مرحلے میں ایسے اداروں کا قائم کیا جانا ہے جو پہلے دو مقاصد کو یقینی بنائے رکھنے میں مرکزی کردار ادا کریں۔ اس معاملے میں اقوام متحدہ کے اس کردار کی مثال دی جاسکتی ہے جو اس نے ۹۵۔۱۹۹۴ء میں بوسنیا ہرزیگووینا میں اور امریکا نے ۱۰۔۲۰۰۷ء میں عراق میں اختیار کیا۔ بہت سی مثالوں سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ جب کوئی بیرونی قوت ثالث کی حیثیت سے اپنا کردار زیادہ دل جمعی سے ادا نہیں کرتی اور مطلوبہ وسائل صرف کرنے سے گریز کرتی ہے تب خانہ جنگی مزید شدت اختیار کرتی ہے، فریقین کے درمیان ایک دوسرے کے لیے عدم برداشت بڑھ جاتی ہے، وسائل پر قبضے کی دوڑ زیادہ تیز ہوجاتی ہے اور خون خرابہ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ ثالثی کا عمل شروع ہونے سے پہلے کے حالات پُرامن دکھائی دینے لگتے ہیں۔ امریکا اس معاملے میں ایک واضح مثال ہے۔ عراق، شام، لیبیا اور یمن کے معاملے میں اس نے جو اقدامات کیے وہ محض خرابیوں کو راہ دیتے آئے ہیں۔ جب تک امریکا دہشت گردی اور خانہ جنگی کو ختم کرنے کے لیے موزوں ترین طریقہ اختیار نہیں کرے گا، عراق اور شام کے معاملے میں اسے کامیابی نصیب نہیں ہوگی اور اس کے نتائج وہی برآمد ہوتے رہیں گے جو افغانستان میں برآمد ہوئے۔ امریکا نے القاعدہ کو افغانستان میں ختم کرنے کی کوشش کی تو وہ باہر نکل کر زیادہ پھیل گئی۔ افغانستان میں تو القاعدہ کو ختم کرنا ممکن ہوگیا مگر اس ایک گروپ کی کوکھ سے جنم لینے والے دوسرے بہت سے گروپ اب عراق، شام اور دیگر ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اگر امریکی سوچ تبدیل نہ ہوئی تو کل کو داعش کی کوکھ سے جنم لینے والے گروپ مزید کئی ممالک میں پھیلے ہوئے ہوں گے۔ مشرق وسطیٰ کو مستحکم کرنے کے لیے نئی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ اگر امریکا یہ سمجھتا ہے کہ اس خطے کو استحکام سے ہم کنار کرنا اس کی ذمہ داری ہے تو اسے سب سے پہلے خانہ جنگیوں کے اصل اسباب پر وار کرنا ہوگا۔ خانہ جنگیوں کی جڑیں ختم کیے بغیر انہیں صفحۂ ہستی سے مٹانا ممکن نہ ہوگا۔ اس کے لیے قوتِ ارادی اور وسائل دونوں ہی درکار ہیں۔ امریکی قیادت کو پہلے مرحلے میں کم از کم دس ہزار فوجی عراق اور تقریباً اتنے ہی فوجی شام بھیجنا ہوں گے۔ ان دونوں ممالک میں عسکری منظر نامہ تبدیل کرنا ناگزیر ہے۔ فریقین کو یہ احساس پوری شدت سے دلانا ہوگا کہ وہ تنہا پوری لڑائی جیتنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اگر امریکی سیاسی صورت حال شام یا عراق میں فوجی بھیجنے کی اجازت نہیں دیتی تو پھر مشیر، فضائی قوت، انٹیلی جنس شیئرنگ اور لاجسٹکس کے ذریعے وہاں معاملات کو کنٹرول کرنے کی کوشش ضروری کی جاسکتی ہے اور کی جانی چاہیے۔ بھرپور کامیابی کی ضمانت زیادہ یقین کے ساتھ نہیں دی جاسکتی مگر اس کے باوجود امریکا کو اس اقدام کی طرف تو آنا ہی پڑے گا۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو عراق اور شام میں باضابطہ، پروفیشنل فوج تیار کرنا پڑے گی جو جہادی گروپوں، ملیشیا اور انتہا پسندوں کو ختم کرے۔ اس مقصد میں کامیاب ہوچکنے کے بعد یہ باضابطہ فوج ملک کو باضابطہ ریاست کی شکل دینے اور سیاسی اداروں کو مستحکم کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔ عراق میں فوج موجود ہے مگر اس کا کردار خاصا محدود ہے۔ امریکا اس کردار کو وسعت دینے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ شام، لیبیا اور یمن میں باضابطہ فوج قائم کرنا پڑے گی تاکہ ملک دشمن اور حکومت مخالف عناصر کو کنٹرول کرنے میں خاطر خواہ مدد ملے۔ کسی بھی ممکنہ حریف کو شکست دینے، جنگ بندی کے معاہدوں کو نافذ رکھنے اور عوام کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ ان تینوں ممالک میں باضابطہ فوج ہو اور اسے امریکا کی حمایت بھی حاصل ہو۔ امریکا کو عراق، شام، لیبیا اور یمن میں حقیقی امن کے قیام کے لیے لازمی طور پر خانہ جنگیاں ختم کرانا ہوں گی۔ اور اس کے لیے لازم ہے کہ چاروں ممالک میں وسائل کی منصفانہ تقسیم عمل میں لائی جائے۔ عراق میں شیعوں اور سُنیوں کی اکثریت والے علاقوں میں وسائل کی منصفانہ تقسیم اور سیاسی افق پر انہیں برابر کا حصہ دینے کے حوالے سے سابق امریکی سفیر ریا کروکر نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ دوسرے مرحلے میں اعتدال پسند شیعہ اور سنی رہنماؤں کے حلقوں میں زیادہ سے زیادہ ترقیاتی کام کرانے پر توجہ دی جائے۔ اس صورت میں اعتدال پسند قوتیں مضبوط ہوں گی اور معاملات کو بہتر ڈھنگ سے کنٹرول کرنا قدرے آسان ہوسکے گا۔ امریکا کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ایک ایسی حکمتِ عملی اپنانے کا ہے جس کی مدد سے وہاں کی سُنی آبادی کے ذہن سے یہ خوف نکل جائے کہ اسے الگ تھلگ کردیا گیا ہے۔ اگر عراق کے سُنی حکومت اور امریکا کی مدد سے اپنا کردار ادا کرنے پر تیار ہوجائیں گی تو ان کی اکثریت والے علاقوں سے داعش کو ختم کرنے اور شیعہ عسکریت پسند گروپوں کا اثر و رسوخ مٹانے میں غیر معمولی حد تک کامیابی مل سکتی ہے۔ شام کا بحران ختم کرانے کے حوالے سے آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں جاری مذاکرات تھوڑا بہت مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں۔ سیاسی تصفیے کی طرف لے جانے میں ان مذاکرات کا کچھ نہ کچھ کردار ضرور ہوسکتا ہے مگر بہت زیادہ پرامید نہیں ہوا جاسکتا۔ سب سے پہلے تو اس خانہ جنگی کے تمام فریقوں کو اس بات کا قائل کرنا پڑے گا کہ وہ فاتح ہونے کی پوزیشن میں نہیں۔ شامی فوج اور اس کے خلاف صف آراء اپوزیشن گروپ (جنہیں مغرب کی حمایت حاصل ہے) یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ وہ جیت نہیں سکتے۔ ہر مخالف گروپ (داعش، جبہۃ النصرۃ اور الاحرار الشّام) یہ سمجھتا ہے کہ وہ تنہا فوج کو ہراکر ملک پر قابض ہوسکتا ہے۔ جب تک زمینی حقیقت تبدیل نہیں ہوگی، یعنی عسکریت پسندی کی راہ مسدود نہیں کی جاسکے گی تب تک مذاکرات کی میز پر کچھ بھی حاصل نہ کیا جاسکے گا۔ اگر میدان کارزار کی صورت حال تبدیل ہوجائے تو یورپ کے سفارت کاروں کو چاہیے کہ شامی بحران کے فریقین کو ایک ایسے فارمولے تک پہنچنے میں مدد دیں جس کی مدد سے وہ سیاسی و معاشی اعتبار سے مساوی اور قابل قبول انتظام کے حامل ہوں، یعنی کوئی بھی فریق سیاسی یا معاشی اعتبار سے زیادہ مضبوط نہ ہو اور دوسروں کا استحصال نہ کرسکے۔ ایسی کوئی بھی صورت حال پیدا نہیں ہونی چاہیے جیسے ماضی میں تھی کہ جب بہت چھوٹی اقلیت والے علوی فرقے کے لوگوں نے اقتدار پر قبضہ کرکے عشروں تک سُنی اکثریت کو کچل کر رکھا۔ (۔۔۔ جاری ہے!) (ترجمہ: محمد ابراہیم خان) “Fight or flight. America’s choice in the Middle East”. (“Foreign Affairs”. Mar-Apr. 2016)