چند افسانے از خواجہ شفیع دہلوی
اردو مجلس مٹیا محل، دہلی
دہلی کے سحر طراز انشاء پرداز اہلِ زبان خواجہ شفیع سلمہٗ اب اس منزل سے گزر چکے ہیں کہ ان کی نئی کتاب کے تفصیلی تعارف کی ضرورت ہو۔ ان کا نام خود ہی ایک مکمل تعارف ہے۔ مضمون کے پاکیزہ، شستہ ولطیف ہونے کی ضمانت، زبان کی صحت، سلاست، شیرینی کی دستاویز۔
مجموعہ…جی میں آتا ہے اسے گلدستہ کے نام سے پکاریئے…اس میں دو نظمیں ہیں اور کوئی دس بارہ ہلکے پھلکے افسانے، پر بہار جیسے موسم گل دلاویز جیسے نغمہ بلبل۔ افسانوں کے پلاٹ کسی مسجد و خانقاہ کے نہیں۔ وہی بازاروں، ہوٹلوں، کالج کے لڑکوں اور بیسواؤں کے کوٹھوں کے۔ لیکن مجال کیا جو دامنِ خیال بھی معصیت سے آلودہ ہونے پائے اور طبیعت کی پاکیزگی پر کوئی داغ دھبہ فحش وابتذال کا پڑ جائے۔ خواجہ اپنے ہاتھوں سے خوب بھر بھر کر آپ کو پلائیں گے، گلاس پر گلاس چھلگائیں گے۔ بوتل پر بوتل لنڈھا ئیں گے، آخر میں آپ کی زبان سے نکلے گا تو یہ کہ سبحان اللہ! یہ تو عجب اسرار تھا۔ کلوار کی بھٹی کی جگہ جنت الفردوس میں پہنچ گئے۔ اور لیبل دیکھ کر جن شیشوں پر جانی واکر (ولایتی شراب کے ایک مشہور و قدیم کارخانے کا نام ہے) کے قدحوں کا گمان تھا، وہ شراب طہور کے جام نکلے۔ زبان خاص الخاص دہلی کی مستند اور ٹکسالی اور ادب کا مذاق رکھنے والوں کے حق میں ایک نعمت۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ کتاب عوام پسند طبقہ میں شامل ہونے کے قابل نہیں ۔ اچھی خاصی استعداد اور اردو کے نسبتاً بلند مذاق کے بغیر کتاب پڑھنے والے کوئی خاص بات شاید نہ محسوس کر سکیں۔
پرانے خدا از کرشن چندر ایم اے
212 صفحہ ، مکتبہ جامعہ نگر، دہلی
کرشن چندر، ترقی پسند ادیبوں اور افسانہ نگاروں میں ایک بہت اونچا مرتبہ رکھتے ہیں اورسمجھا جاتا ہے کہ متانتِ بیان، شرافتِ زبان کے لحاظ سے اپنی جماعت بھر میں بہت غنیمت ہیں لیکن گالیاں شاید ان کا تکیۂ کلام بن چکی ہیں۔ ’’سالہ‘‘ کہہ دینے میں تو انھیں کوئی باک ہی نہیں ہوتا اور کہیں کہیں تو فحش گالیاں تک ان کی تحریروں کا سرمایہ زینت بنی ہوئی ہیں اور جا بجا ’’چرکینیت‘‘ کا تعفن اور بھبکے تو شاید ترقی پسند کا جزو بھی بن چکے ہیں۔
وہ اپنے آپ کو غریبوں، مفلسوں، ناداروں کا ہمدرد و وکیل ظاہر کرتے ہیں لیکن اس ہمدردی کا یہ انوکھا طریقہ انھوں نے نکالا ہے کہ ہر بدنظمی، ہر حادثہ کی ذمہ داری خدا کے سر ڈال کر، شانِ باری تعالیٰ میں دریدہ دہنی کی وجہ جواز گڑھ لی جائے۔ کتاب کا عنوان پرانے خدا بھی خدا پرستوں کے لیے تکلیف دہ اور صبر آزما ہے۔ لیکن کتاب کے اندر تو وہ اس سے کہیں بڑھ کر کُھل کھیلے ہیں۔ چنانچہ ص: 162 پر گہر افشاں ہیں
’’ میرے اللہ اس سے بہتر مذاق تجھے کبھی نہ سوجھا ہوگا!‘‘
ظاہر ہے کہ الله سے مخاطب ہو کر یہ فقرہ کسی خداپرست کو تو سوجھ نہیں سکتا اور جو ایمان کی نعمت سے محروم ہے، وہ بیچارہ اللہ کا نام ہی کیوں لینے لگا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس فقرہ بازی کی کیا توجیہ و تاویل کی جائے بجز اس کے کہ فقره باز کو مقصود ہی خدا پرستوں کی دلآزاری ہو۔
رہی افسانوں کی زبان تو وہ دہلی یا لکھنؤ کی سی تو خیر کیا ہوتی، معمولی حد تک بھی صحیح نہیں اور صحیح زبان لکھنے کی تو کہنا چاہیے کہ ان حضرات نے قسم ہی کھا رکھی ہے۔ گویا زبان کا صحیح و بامحاورہ ہونا بھی ترقی پسندی کے منافی اور دلیل رجعت پسندی ہے
مقدمہ ایک دوسرے ترقی پند عزیز احمد کے قلم سے ہے جسے پڑھ کر اثر صرف یہ ہوتا ہے کہ کرشن چندر اپنی زبان کے بہترین افسانہ نویس ہیں۔ اس لیے کہ وہ فلاں فلاں فرنگی افسانہ نگاروں کے کامیاب ترین نقال ہیں! اس مقدمہ میں ایک جگہ اپنے مدوح کو منشی پریم چند کے قریب پہنچتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ لیکن خدا گواہ ہے کہ جو پریم چند غریب کو ان بدتمیزیوں کی ہوا بھی لگی ہو۔