قوم مسلم کا خونِ شہیداں۔۔گؤ رکھشا،ہجومی قتل،شدھی تحریک اور سوامی شردھانند (تیسری قسط) ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ 

Bhatkallys

Published in - Other

03:52PM Mon 7 Jan, 2019
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........  ’قومِ مسلم کا خون شہیداں.....‘مضمون کی سابقہ قسط پڑھنے کے بعد گوا سے ہمارے ایک کرم فرما نے ہم سے کہا کہ فرقہ وارانہ فسادات کا جب ذکر چلا ہے تو سوامی شردھا نندکے قتل کے بعد ہونے والے فسادات اوراس کے پس منظر میں مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی معرکۃ الآراء تصنیف ’الجہاد فی الاسلام‘ کے تعلق سے کچھ ذکر آنا چاہیے تھا۔ میں نے سابقہ قسط کو 1927-28کے عرصے تک لاکر ختم کیاتھا۔ اس لئے ہمارے کرم فرما کی بروقت نشاندہی کے بعد اس ضمن میں مزید مطالعہ اور تحقیق کرنا ضروری ہوگیا ۔ کیونکہ 1926میں ہی ایک مسلمان کے ہاتھوں کٹر پنتھی آریہ سماجی، ہندوتوا وادی نظریات کے حامل اور شدھی تحریک کے روح رواں سوامی شردھا نندکا قتل ہواتھا۔ لہٰذاجب اس موضوع پرمیں نے مزید تحقیق و مطالعہ کیاتو گؤ رکھشا اور گؤ کشی کے نام پر قتل کے بارے میں بھی کچھ نئی معلومات مل گئیں۔ اس لئے اب مضمون کی اس قسط میں فسادات کے اگلے سلسلے کی تفصیلات کے بجائے پہلے سوامی شردھانند اورگؤ رکھشاکی تحریک سے متعلق بات کریں گے۔کیونکہ عام طور پر ہم سمجھتے ہیں کہ گؤ رکھشا کے نام پر آج جو جارحانہ اور قاتلانہ طرز اور ہجوم کے ہاتھوں قتلmob linchingکی روش چل پڑی ہے وہ حال کے دنوں کی ہے۔ جبکہ حقیقت کچھ اور ہی ہے۔

آج پھر برسات میں گنجِ شہیداں پر چلیں آسماں روئے گا اور اپنی غزل گائیں گے ہم

مغلیہ دور میں گؤ کشی مخالف ماحول : گزشتہ قسط میں 1927-28کے فسادات کی اجمالی تفصیل کے ساتھ میں نے لکھا تھا کہ اُس سال پہلی مرتبہ فسادات میں گؤ کشی بھی ایک سبب بن کر ابھرا ہے۔ مگر مزید تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ گؤ رکھشا کی تحریک اصلاً انگریزوں کے ہندوستان میں داخلے سے پہلے مغلوں کے زمانے میں ہی شروع ہوگئی تھی۔ مذاہب واقوام عالم کا ایک ولندیزی Dutchمحقق ومصنف Peter van der Veerاپنی کتاب گؤ رکھشا کی تحریک کے سلسلے میں لکھتا ہے کہ :’’...گؤ رکھشا کی سیاسی اہمیت انگریزوں سے پہلے ہی نمایاں ہوگئی تھی۔ اکبر نے گؤ کشی پر پابندی لگارکھی تھی۔ مغلوں کی حکومت ختم ہونے کے بعد برصغیر کے جن علاقوں میں ہندوؤں اور سکھوں کی حکومت تھی وہاں پر گؤ کشی کے جرم پر سزائے موت مقرر تھی۔جیسے کہ گوالیار کے سندھیا اور پنجاب کے سکھ دور میں گائے ذبح کرنے والے کو پھانسی پر چڑھا دیا جاتا تھا۔پھربریگیڈیئر جنرل ہینری لارینس نے جب پنجاب کو برٹش حکومت میں ضم کرلیا تو اس نے 1847 میں گؤ کشی پر پابندی لگادی، تاکہ اسے عام سکھوں کی حمایت حاصل رہے۔ 1714 ؁ء میں ماب لنچنگ کا پہلا کیس : یوں تو کہا جاتا ہے کہ گائے کے تحفظ کی تحریک اور اس کی وجہ سے فسادات کا سلسلہ 19 ویں صدی میں شروع ہوگیا تھا۔مگر اٹھارویں صدی عیسوی یعنی 1714 ؁ۂونے والے گجرات فساد کی بنیادی وجہ بھی گؤ کشی سے متعلق تھی۔کہاجاتا ہے کہ ایک ہندو نے ہولی کے موقع پر مسلمانوں کے گھر وں کے سامنے شرارتاً ’ہولی کا اَلاؤ‘ جلانے کی کوشش کی۔مسلمانوں نے اس پر اعتراض کیا۔بات بڑھ گئی تو کسی مسلمان نے ہندو کے گھر کے سامنے گائے ذبح کر ڈالی۔ یہ خبر جب عام ہوئی تو ہندوؤں کا ہجوم جمع ہوگیااور مسلمانوں کو گھیر کران پر شدید حملہ کیا۔ پھرہجوم نے مسلم قصائی کے بیٹے کو پکڑ لیااور اسے جان سے مارڈالا۔ مسلسل کچھ دنوں تک چلنے والے اس ’گجرات ہولی ‘ کے فساد میں بہت سے ہندو اور مسلمان مارے گئے تھے۔دکانیں اورگھر بار جلائے گئے جس سے مالی نقصان بھی بہت ہوا۔ لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ گؤ رکھشا کے نام پر ہجومی قتل mob linchingکا پہلا واقعہ اٹھارویں صدی میں یعنی آج سے تین سو سال قبل ہی پیش آ چکا تھا۔ (بحوالہ:Mushirul Hasan; Asim Roy (2005). Living Together Separately: Cultural India in History and Politics) گؤ رکھشا تحریک اورپنجاب: نامدھاری سکھوں کے ’کُوکا‘ (Kookas)نامی اصلاحی طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے 1871 ؁ میں لدھیانہ اورامرتسر میں مسلمان قصائیوں کو قتل کرنا شروع کیا۔جنوب مشرقی ایشیاء معاملات کے ماہر اور کیلی فورنیا یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر تھامس میٹکاف اور باربرا میٹکاف کے الفاظ میں:’’ اصل میں سکھوں نے 1860سے گائے کے تحفظ اوراس کی فلاح و بہبودکے لئے تحریک چلارکھی تھی اور مسلسل احتجاجی مظاہرے کیا کرتے تھے۔ جس نے آگے چل کر ہندوؤں کی اصلاحی تحریک کا روپ دھار لیا۔‘‘ پھر 1882 ؁ء میں پنجاب میں ہی ملک کی پہلی ’گؤ رکھشنی سبھا‘ Gaurakshini sabha (تحفظ گائے سوسائٹی) قائم کی گئی۔ گائے کا تحفظ اور مسلم دشمنی: گؤ رکھشا کی تحریک کا سب سے مضر اور منفی پہلو یہ تھا کہ اس کے پس منظر میں ’مسلم مخالف‘ جذبات کو فروغ ملنے لگا۔ بلکہ مسلم دشمنی کے جذبات اس تحریک کا لوازمہ بن کر رہ گیا۔ یہ بات بھی ثابت ہے کہ گؤ رکھشا کے لئے عوامی حمایت حاصل کرنے کی غرض سے 1880سے 1890تک اشتعال انگیز کتابچے اور پمفلیٹس تقسیم کیے گئے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 1893میں’بقر عید ‘ پر گائے کی قربانی کے مسئلے کو لے کر بڑے پیمانے پر ہندوؤں او رمسلمانوں کے مابین فسادات ہوئے۔جس میں 100سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ پھر 1894میں اسی مسئلے پر دوبارہ فسادات ہوئے جس کی سنگینی کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ انگریزوں کے دور میں 1857 ؁ء کی بغاوت کے بعد سب سے زیادہ تباہ کن فسادات تھے۔ (بحوالہ: Mark Doyle کی کتاب Communal Violence in the British Empire: Disturbing the Pax. صفحہ 157-161) یعنی وہی بات ہوگئی کہ :

مت ہاتھ رکھ سلگتے کلیجے پر ہم نشیں یہ آگ دیکھنے میں بجھائی ہوئی سی ہے

مسلمانوں کی طرف سے مدافعت: غیر مسلموں کی طرف سے گؤ رکھشا کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا ایک دوسرا نتیجہ یہ بھی نکلا کہ مسلم نوجوانوں کی طرف سے بھی جوابی کتابچے اور پمفلیٹس تقسیم ہونے لگے ۔ گؤ کشی کے بعد رونما ہونے والے فسادات کی وجہ سے گرفتار مسلمانوں کو قید سے چھڑانے کے لئے مبینہ طور پر فنڈ اکٹھا کرنے کی بھی تحریک نوجوانو ں نے چلائی۔SOAS University of Londonکی تاریخ کی پروفیسر ڈاکٹر شبنم تیجانی (پیدائش یوگانڈا) اپنی کتاب ,1890-1950 Indian Secularism: A Social and Intellectual Historyمیں لکھتی ہیں کہ مسلمانوں کی طرف سے اس وقت جو کتابچے تقسیم کیے گئے اس میں اسلامی عبادات اور شعائر کو خطرہ لاحق ہونے کی بات کہی گئی تھی۔ مسلمانوں نے خطرہ بھانپ لیا تھا!: بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ ہندوگائے کے تحفظ کو اور مسلمان گائے کے ذبح کرنے کو مذہبی معاملہ ٹھہرارہے تھے ۔ اور دونوں ہی اسے اپنی مذہبی آزادی کا مسئلہ مان کر کسی قسم کی مصالحت کے لئے تیار نہیں تھے۔ ڈاکٹر شبنم تیجانی کے مطابق مسلمانوں کی طرف سے تقسیم ہونے والے پمفلیٹس میں کہا گیا تھاکہ:’’ ہندوؤں نے خواہ مخواہ مسلمانوں کے خلاف بغاوت شروع کر رکھی ہے۔اور ہمارے جان و مال اور عزت و آبروکے دشمن ہوگئے ہیں.... ہمیں قربانی کرنے سے روکا گیا ہے۔یہ ہندوؤں کی طرف سے ہمارے جائز معاملات میں مداخلت ہے۔ ‘‘ پھران کتابچوں میں قربانی پرپابندی کو مسئلے کا اختتام قرار نہ دیتے ہوئے اسے مزید مسائل کا آغاز کہا گیا تھا اور لکھا تھاکہ:’’ کل وہ لوگ (ہندو) ہمیں اذان دینے سے منع کریں گے ۔ پھر اس کے بعد وہ نماز پر ہی پابندی لگادیں گے۔‘‘ (بحوالہ مذکورہ بالا کتاب، صفحہ 4315049) اورمعاملہ اب انتہا کو پہنچ گیا ہے: معلوم ہوا کہ دراصل گائے کے تحفظ اور ذبیحہ پر پابندی کا مسئلہ تین صدیوں سے زیادہ عرصے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس مسئلے کے حوالے سے فرقہ وارانہ فسادات کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے ۔ مگر اس کی مکمل تفصیلات جس طرح آج کے حالات میں دستیاب ہیں ، ایسا ماضی کے باب میں نہیں ہے۔ ریسرچ کرنے والوں نے جتنا اس پر کام کیا ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے صرف اسی موضوع پر کئی اقساط لکھی جاسکتی ہیں۔ لیکن چونکہ اب تک کی تحریر سے ایک اجمالی خاکہ قارئین کے سامنے آ چکا ہے۔ اس پس منظر میں آج کے حالات کو دیکھنے سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ چنگاریاں کہا ں سے پھوٹی تھیں اور کیسے اب شعلوں میں بدل گئی ہیں۔یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ تقریباً تین صدی قبل مسلمانوں نے جس خطرے کو بھانپ لیا تھاوہ کوئی خام خیالی نہیں تھی یا خواہ مخواہ کی غلط فہمی نہیں تھی ، بلکہ انہیں’ آثارِ مصیبت کا احساس ‘ہوچکا تھا اورانہوں نے ’امروز کی شورش‘ میں ’ اندیشۂ فردا‘ کا اندازہ کرلیاتھا۔ او ر ان کا وہ احساس موجودہ نسل کے لئے ایک خوفناک سچائی بن کر سامنے کھڑا ہے۔

میں نے تاریخ کا اک ایک ورق دیکھ لیا کوئی بھی میری طرح درد کا مارا نہ ہوا

سوامی شردھا نندااور خلافت تحریک: میں نے سابقہ قسط میں فسادات کے سلسلے کا بیان 1927-28تک لاکر چھوڑ دیا تھا۔’گؤ رکھشا‘کے مسئلے کے بعد 1926 ؁ئمیں پیش آئے ہوئے سوامی شردھانند کے قتل پر بھی کچھ روشنی ڈالتے ہوئے آگے بڑھیں گے ۔سوامی شردھا نندا ایک کٹر آریہ سماجی لیڈر تھے۔ ابتدا میں وہ کانگریس کے پلیٹ فارم سے گاندھی جی کے ساتھ انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی میں شامل تھے۔ لیکن خلافت تحریک کے ساتھ گاندھی جی کی وابستگی انہیں ناپسند تھی۔ وہ اندر سے شدت پسند ہندوبلکہ ہندوتوا وادی سوچ کے حامل تھے۔ ایک موقع و ہ بھی تھا جب جامعہ مسجد دہلی کے مینار سے انہوں نے جنگ آزادی کے لئے آپسی اتحاد پرخطاب کیا تھااور خطاب کا آغاز’ ویدکے منتروں‘ سے کیاتھا۔ مگر ناگپور میں ان کی اور گاندھی جی کی موجودگی میں منعقدہ خلافت تحریک کے ایک جلسے میں قرآن کی جنگ و قتال پر ابھارنے والی آیتوں کی تلاوت سننے کے بعد انہوں نے گاندھی جی کے ساتھ برملا اختلاف کرتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ ہم لوگ آہنسا کی تحریک چلارہے ہیں اور یہ مسلمان قتل و غار ت گری کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ گاندھی جی نے ان کویہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کی تھی کہ مسلمانوں کا اشارہ انگریزوں کی طرف ہے۔ تو سوامی جی نے پلٹ کرکہا تھا ’بعد میں ہم لوگ ان کے نشانے پر ہوں گے۔‘ ’گھر واپسی تحریک‘ کی ابتدا: مذکورہ بالا جواب سے سمجھا جاسکتا ہے کہ سوامی شردھا نند کی سوچ کس دھارے پر تھی۔ آج کل مسلمانوں اور عیسائیوں کو’گھر واپسی‘کے نام پرتبدیلئ مذہب کے ذریعے ہندو ازم میں داخل کرنے کا جو سلسلہ ہمیں نظر آتا ہے اس کی شروعات ’شدھی ‘تحریک‘ (پاک کرنے کی مہم)کے نام سے آریہ سماج نامی تنظیم نے 1900 ؁ء میں کی تھی جس کے بانی سوامی دیانند سرسو تی تھے۔ اس کے بعد سوامی شردھا نندنے اس ’شدھی تحریک‘ یا آج کل کی اصطلاح میں ’گھر واپسی‘ کا سلسلہ شمالی ہندوستان خاص کر کے راجپوتانہ اور پنجاب میں بڑے پیمانے پر چلایا۔1923 ؁ء میں سوامی شردھانند نے ’بھارتیہ ہندو شدھی مہاسبھا‘قائم کی۔اور دھیرے دھیرے یہ تحریک پورے ملک میں پھیل گئی۔وہ عیسائیوں کے علاوہ مسلمانوں کی بھی ’شدھی‘ یا ’گھر واپسی‘ کروارہے تھے مسلمانوں میں اشتعال: جب ’ملکان راجپوتوں‘ کو بڑے پیمانے پر مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیاگیاتو مسلمانوں اور ہندوؤں کے بیچ پہلے سے چل رہا تصادم اور بڑھ گیا۔اس دوران سوامی شردھانند نے مارچ میں کراچی کی اصغری بیگم اور اس کے بچوں کو دہلی میں کھلے عام ہندو مذہب میں داخل کرتے ہوئے ’شانتی دیوی‘ بنادیا۔ وہ اپنے شوہر کی مرضی کے خلاف خفیہ طور پر گھر چھوڑ کر آئی تھی جس کی وجہ سے اس کو اور اس کے بچوں کو آریہ سماج کے تحت چلائے جا رہے بیواؤں کے آشرم میں پناہ دی گئی۔اس سے مسلم طبقہ پوری طرح ہِل گیا۔ فطری طور پر عام مسلمانوں میں سوامی شردھا نند کے خلاف غصہ اور اشتعال بڑھتا گیا۔ حالانکہ بعد میں اصغری بیگم کے شوہر نے سوامی اوران کے بعض ساتھیوں پر اپنی بیوی اور بچوں کو اغوا کرنے کا مقدمہ دائر کیاتھا، لیکن عدالت میں وہ سب بری ہوگئے۔ اور انجام قتل کی صورت میں نکلا: ’رنگیلا رسول ‘ جیسی گستاخانہ اور ہتک آمیز کتاب کی اشاعت اورمسلمانوں کو دھڑلّے سے ہندو بنانے کی تحریک کے پس منظر میں مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے میں پنپنے والے اضطراب اور غم و غصے کا اختتام بالآخر سوامی شردھا نند کے قتل پر ہوا جسے عبدالراشد نامی ایک مسلمان نے انجام دیا تھا۔ وہ 23 دسمبر1926 کا دن تھا جب سوامی شردھا نند نمونیا کے مرض کی وجہ سے گھر کے اندر آرام کررہے تھے۔سوامی شردھا نندسے ملاقات کے بہانے عبدالرشید ان میں گھر داخل ہوا اور بستر پر لیٹے ہوئے سوامی کے سینے میں پستول سے گولیاں داغ دیں۔عبدالرشید کوبعد میں عدالت سے موت کی سزادی گئی۔ اسلامی فلسفۂ جہاد پر حملے: سوامی شردھا نند کے قتل کے فوری بعد کسی بڑے فساد کا تو کوئی ریکارڈ نہیں ملتا ہے۔لیکن جیسا کہ میں نے سابقہ قسط میں اشارہ کیا تھا کہ1926-27 ؁ء کے بعد سے مختلف بہانوں سے فرقہ وارانہ فسادات کی تعداد بڑھتی گئی۔اور یہ سلسلہ اگلے برسوں میں شدت اختیار کرتا گیا۔ (جس کی تفصیلات ان شاء اللہ آئندہ بیان ہونگی) سوامی شردھانند کے قتل کے بعدغیر مسلم عوام کے اندر مسلمانوں کے خلاف نفرت، دشمنی اور ہندوتووادی سوچ کو نئی بلندیاں ملنے کی باتیں سامنے آتی ہیں۔ اس کے لئے ہندو شدت پسندوں نے اسلام کے فلسفۂ جہاد کو ہی نشانہ بنایااور قرآن کی تعلیمات کو بدامنی اورقتل و غارت گری کا اصل سبب بتانے کی مہم ملک میں تیز سے تیز تر کر دی۔اب موجودہ زمانے میں ہندوتواوادیوں نے اسلام کے خلاف جو ہنگامہ کھڑا کررکھا ہے ، اس کی جڑیں اُسی دور میں پیوست ملتی ہیں۔ یہ ہمارے ملک میں گزشتہ دو تین صدیوں سے الاپا جانے والا پرانا راگ ہے ، مگرفرق بس اتنا ہے کہ اس کی لَے میں اب بلا کی شدت پید اہوگئی ہے۔یعنی اگر علامہ اقبالؔ کے الفاظ میں کہیں تو: ؂

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا اِمروز چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بو لہبی

(مولانا محمد علیؒ کی پکار.... مولانامودودیؒ کا جرأت مندانہ اقدام... فسادات کا سلسلہ... جاری ہے...اگلی قسط ملاحظہ کریں)

haneefshabab@gmail.com (ضروری وضاحت: اس مضمون میں درج کسی بھی بات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)