سچی باتیں ۔ منکرین حق کی ذہنیت ۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys

Published in - Other

01:57PM Sun 22 Apr, 2018

          یَعْلَمُوْنَ ظَاہِراً مِنْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَھُمْ عَنِ الْآخِرَۃِ ھُمْ غٰفِلُوْنَ  ہ  اَوَلَمْ یَتَفَکَّرُوْا فِیٓ اَنْفُسِھِمْ مَّا خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّی وَاِنَّ کَثِیْراً مِّنَ النَّاسِ بِلِقَاءِی رَبِّھِمْ لَکٰفِرُوْنَ  ہ  اَوَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عٰقِبَۃُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھَمْ کَانُوْٓااَشَدَّ مِنْھُمْ قُوَّۃً وَاَثَارُوْا الْاَرْضَ وَعَمَرُوْھَآ اَکْثَرَ مِمَّا عَمَرُوْھَا وَجَآءَ تْھُمْ رُسُلُھُمْ بِا لْبَیِّنٰتِ فَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَظْلِمَھُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ۔ (روم۔آیہ۔۷۔۸۔۹)

          یہ لوگ صرف دنیوی زندگی کی ظاہری حالت کو جانتے ہیں  اور آخرت سے بالکل بے خبر ہیں  کیا انھوں  نے اپنے اندر غور نہیں  کیا اللہ نے تو آسمانوں  کو اور زمین کو اور جو کچھ بھی ان کے درمیان ہے ان سب کو کسی حکمت ہی سے اور ایک میعاد معین ہی کے لئے  پیدا کیاہے اور بہت سے لوگ اپنے رب سے ملنے ہی کے منکر ہیں  کیا یہ لوگ زمین میں  چلے پھرے نہیں  کہ دیکھتے بھالتے کہ جو منکرین ان سے پہلے گزرے ہیں  ان کا کیا انجام ہواہے وہ ان سے قوت میں  بھی بڑھے ہوئے تھے اور انھوں  نے زمین کو بھی(ان سے بڑھ کر) بویا جوتا تھا اور جتنا انھوں  نے زمین کو آباد کر رکھا ہے  اس سے زیادہ انھوں  نے آباد کر رکھا تھا اور ان کے پاس بھی ان کے پیمبر کھلے ہوئے دلائل لے کر آتے تھے سو اللہ تو ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا بلکہ وہ خود اپنے اوپر ظلم کررہے تھے۔

          منکرینِ حق کی اصلی سائیکا لوجی بیان ہو رہی ہے ذہنیت بے نقاب ہورہی ہے کہ انھیں  اپنے علم اور معلومات پر غرّہ ہے سواس کی بساط ہی کیا ہے! ان کے سامنے علوم اور سارے فنون کی کائنات بس یہی حِسّی اور مادی دنیا اور اس کے احوال توہیں  بہت بڑا اور بے حدوسیع عالم جو اس کے بعد آنے والا ہے وہ جس طرح ان کی ظاہری آنکھوں  سے اوجھل ہے اسی طرح اس کی طرف سے یہ اپنے دل کی آنکھیں  بھی بند کئے ہوئے ہیں! یہ ذراغورو فکر سے کام لیتے تو انھیں  نظر آجاتا کہ یہ تو یہ، یہ زمین و آسمان اور جتنی بھی مخلوق ہے سب کی خلقت کسی مقصد ہی سے ہوئی ہے(اس لئے بے مقصد اور غیر ذمہ دار کوئی بھی ہستی نہیں) اور سب کی زندگی ایک وقتِ مقرر تک ہی کے لئے رکھی گئی ہے اس لئے فنا و موت تو لازمہ حیات ہے اور یہ سبق کسی طرح بھولنے والا نہیں  مگر یہ لوگ ایسے احمق اور نافہم ہیں  کہ اسی مرکزی اور بنیادی حقیقت سے غافل ہیں! اور ذرا یہ لوگ گھروں  سے باہر نکل نکل دیکھتے کہ پُرانے منکروں  کا کیا انجام ہوا؟ ہلاکت و بربادی سے کس طرح اپنے تئیں  بچا سکے؟ انھیں  اپنے تئیں  تہذیب و تمدن، قوت و شوکت پر ناز ہے؟ پُرانی قوموں  کی تہذیب وتمدن کی تاریخ کا پتہ لگائیں، بہت سے امور میں  تو ان کی قوت و شوکت  ان سے کہیں  بڑھی ہوئی تھی، علیٰ ہذا آراستگی و نفاست شائستگی و نزاکت کی بہت سی فردوں  میں  بھی وہ ان سے کہیں  آگے تھے لیکن تکذیب وانکار حق کا نتیجہ کیا ہوا؟ ایسے غارت ہوئے کہ آج پتہ اور نشان تک باقی نہ رہا، ظالم سب کچھ سن سنا کر بھی اپنی عاقبت اور انجام کو بھلارہے اور اپنے ہاتھوں  اپنے کو مصیبتوں  میں  ڈالے رہے۔

          نقشہ ساڑھے تیرہ،چودہ سو سال قبل کے منکرین کاہے لیکن آج بھی کس قدر صحیح اور حرف بہ حرف صحیح ہے! خلاصہ ساری سر کشی اور تمرّد، نافرمانی اور کفر شعاری کا کیا ارشاد ہوا؟ صرف ایک شے یعنی سامان دنیوی میں  پڑھ کر یادِ آخرت سے غفلت! اگر صرف یہ یاد رہے اگر اپنی موت اور انجام یاد رہ جائے تو بس پھر سارے بگڑے ہوئے کام بن سکتے ہیں  اور ساری گمراہیوں  کی تاریکی دور ہو سکتی ہے لیکن آج ہم نے بھی انھیں  بے بصروں  کی تقلید میں  سب سے زیادہ بھلا کس چیز کو رکھا ہے، سب سے زیادہ پسِ پشت کس شے کو ڈال رکھا ہے؟ اسی یاد میں  آخرت کو اسی خیال موت کو آج طرح طرح کی کمیٹیاں  بنیں  گی قسم قسم کی کانفرنسیں  قائم ہوں  گی قوم کی فلاح و ترقی کے لیے کالج تیار ہوں  گے اسکول کھلیں  گے، کفایت شعاری کے طریقے بتائے جائیں  گے، اشاعتِ تعلیم پر لکچر ہوں  گے اور طریقِ نمائندگی و انتخاب پر تو جھگڑ جھگڑ کر ایک دوسرے کی بوٹیاں  نوچ لی جائیں  گی، لیکن جو چیز قلم اور زبان پر اشارۃً بھی نہ آئے گی وہ یہی یاد آخرت اور خیالِ موت ہے۔