کون ہے جو عشرت سے نجات دلائے

Bhatkallys

Published in - Other

02:09PM Sat 12 Mar, 2016
حفیظ نعمانی بارہ سال ہوگئے خون کے اُن دھبوں کو دھوتے دھوتے جو ایک 19 سال کی ناکتخدا عشرت جہاں کے جسم سے فوارہ کی طرح چھوٹا تھا اور جس نے گجرات کے وزیر اعلیٰ شری نریندر مودی، وزیر داخلہ امت شاہ اور پولیس کے ایک پالتو افسر ڈی جی ونجارہ کے کپڑوں کو سرخ کردیا تھا۔ اس وقت سب سے پہلی خبر آئی تھی کہ دہشت گردوں کی ایک ٹیم جس میں ایک لڑکی بھی تھی وزیر اعلیٰ کو قتل کرنے آرہی تھی۔ پولیس نے اسے روکا اور مڈبھیڑ میں وہ چاروں دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔ کسی نے اس خبر پر کوئی خاص توجہ اس وقت اس لئے نہیں دی تھی کہ ہر مہینہ دو مہینہ کے بعد گجرات سے ان ہی الفاظ میں یہ خبر آیا کرتی تھی کہ وزیر اعلیٰ کو مارنے آرہا تھا۔ یا آرہے تھے۔ پولیس نے انہیں مار گرایا۔ 2002 ء کے خونی طوفان اور مسلمانوں کی ٹاڈا اور پوٹا کی دفعات میں اندھا دھند گرفتاریاں اور ہر وہ ظلم جس پر انسانیت منھ ڈھانک کر روئے گجرات میں عام تھا۔ سیکڑوں مسلمانوں کے شہید ہوجانے اور سیکڑوں کی گرفتاری نے بھی وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ کو ایسا کٹہرے میں نہیں کھڑا کیا تھا جیسا ایک عشرت جہاں نام کی لڑکی نے کھڑا کردیا ہے۔ وزیر اعلیٰ اپنے ہتھکنڈوں سے وزیر اعظم کی کرسی تک بھی پہونچ گئے۔ وزیر داخلہ امت شاہ کئی مہینے جیل کی سوکھی روٹی اور کنکر ملی دال کھاکر ضمانت پر آنے کے بعد دنیا کی سب سے بڑی پارٹی بی جے پی کے صدر بھی ہوگئے۔ ڈی جی ونجارہ آٹھ برس جیل میں چکی چلاکر اپنے بھوتپورو بھگوان نریندر مودی کو گالیاں دیتے ہوئے باہر بھی آگئے لیکن عشرت کے خون کے دھبے نہ صاف ہونا تھے نہ ہوئے۔ کیونکہ سائنس دانوں نے ابھی ایسا صابن ایجاد نہیں کیا ہے جو خونِ ناحق کا داغ دھوسکے۔ 10 مارچ کی تاریخ اس اعتبار سے انتہائی اہم تھی کہ ایک تو شری شری روی کمار جی کا مسئلہ تھا کہ ان پر حکومت کی حمایت کے نشہ میں چور ہوکر جمنا ندی پر بغیر اجازت کے قبضہ کا الزام تھا اور ان پر پانچ کروڑ کا جرمانہ کیا گیا تھا وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ پروگرام شروع ہونے سے پہلے جرمانہ کی رقم ادا کردی جائے۔ یہ ثقافتی پروگرام وہ ہے جسے وزیر اعظم کی پوری حمایت حاصل ہے۔ شری شری جی نے کہہ دیا تھا کہ میں جرمانہ نہیں ادا کروں گا جیل جانا گوارہ کرلوں گا۔ یہ بات اس وقت ہورہی تھی جب دنیا کے 150 ملکوں کے شردھالو اور اپنے ملک کے عقیدتمند اپنے گھروں سے روانہ ہوچکے تھے اور 35 لاکھ مہمانوں کو جہاں آنا تھا وہاں ہزاروں ٹیوب اور رنگ برنگی لائٹوں نے اسے بقعۂ نور بنا رکھا تھا۔ اور بات یہ ہورہی تھی کہ شری شری روی شنکر جرمانہ دیں گے یا حکومت اپنے اختیار سے معاف کرادے گی یا وہ جیل بھیج دیئے جائیں گے؟؟؟ دوسرا اہم مسئلہ یہ تھا کہ ایک کنگ فشر ہوائی کمپنی کا مالک وجے مالیا ممبر پارلیمنٹ بینکوں کا 9 ہزار کروڑ روپئے لے کر ملک سے فرار ہوگیا تھا۔ اور راجیہ سبھا اور لوک سبھا کے اندر اور باہر اس مسئلہ پر تلواریں چل رہی تھیں کہ مودی سرکار نے اسے کیوں بھاگ جانے دیا؟ اور درجنوں بینکوں سے اسے اتنی رقم دلانے کی ذمہ داری کانگریس پر ہے یا مودی سرکار پر بھی ذمہ داری ہے؟ اتنے اہم معاملات کے ہوتے ہوئے اچانک وزیر داخلہ شری راج ناتھ سنگھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے عشرت جہاں کے دہشت گرد ہونے نہ ہونے کا مسئلہ چھیڑ دیا۔ انہوں نے بے وجہ کہا کہ میں ایوان کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہماری حکومت دہشت گردی کے نام پر سیاست نہیں کرے گی اور انہوں نے یہ کہنا بھی ضروری سمجھا کہ سابقہ حکومت نے دہشت گردی کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی تھی۔ اور اس وقت کے وزیر داخلہ نے بھگوا دہشت گردی کی بات کہی تھی۔ ہم جانتے ہیں کہ پورے آر ایس ایس پریوار پر بھگوا دہشت گردی کا لفظ بم بن کر گرا تھا۔ لیکن دہشت گردی کو مذہبی رنگ برسوں بی جے پی نے دیا تھا۔ ہر لیڈر کا کلمہ تھا کہ ہم مانتے ہیں کہ ہر مسلمان دہشت گرد نہیں ہوتا۔ لیکن ہر دہشت گرد مسلمان ہوتا ہے۔ اور یہ صرف اڈوانی جی نے ہی نہیں ہر بھگوا نیتا نے کہا تھا۔ وہ تو جب ہیمنت کرکرے نے بھگوا چادر ہٹاکر دکھایا کہ یہ دیکھئے بھگوا دہشت گردی زعفرانی چادروں میں چھپی اپنا کام کررہی ہے۔ اس وقت فوراً اڈوانی جی نے کالر لوٹ لیا تھا اور کہا تھا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ملک کے وزیر داخلہ یہ باتیں نہ جانتے ہوں تو انہیں محکمہ بدل لینا چاہئے۔ اب رہی بات عشرت کی کہ وہ لشکر طیبہ سے جڑی ہوئی تھی یا نہیں۔ ہمیں اس سے کیا اور کسی کو بھی اس سے کیا؟؟ یہ صرف مودی صاحب اور امت شاہ کے کپڑوں پر لگے خون کے دھبوں کا مسئلہ ہے جس کے لئے وزیر داخلہ نے بے موسم برسات کردی اور ایک ستیہ پال نام کے ممبر کو کھڑا کردیا جس نے کہہ دیا کہ میرا نام ستیہ ہے اور میں جھوٹ نہیں بولتا ہوں۔ لیکن وہ پولیس میں رہ چکے ہیں جو سچ بولنا جانتے ہی نہیں۔ یہ وعدہ معاف گواہ ہیڈلی کے بعد دوسرا مہرہ ہے لیکن یہ بھی بیکار ہے۔ کیونکہ ملک کے میڈیا نے جب جب لشکر طیبہ اور جیش محمد کے لڑکوں کو پریکٹس کرتے ہوئے دکھایا ہے تو دکھایا ہے کہ وہ رائفلوں سے کھلونوں کی طرح کھیلتے ہیں اور اتنی سخت مشقت کرتے ہیں جیسی ہمارے بلیک کمانڈوز کرتے ہیں۔ اور ان کا نشانہ ایسا ہوتا ہے کہ اگر وہ اُڑتی چڑیا کے داہنے پر کو نشانہ بنائیں یا بائیں کو۔ داہنی آنکھ کو نشانہ بنائیں یا بائیں آنکھ کو، تو نشانہ خطا نہیں ہوتا۔ پھر یہ کیسے چار جن میں تین لڑکے اور ایک لشکر کی تربیت یافتہ لڑکی تھی جو مرغیوں کی طرح مرگئے جبکہ وہ کار میں تھے اور جو سامنے سڑک پر کھڑے تھے جنہیں ایک آنکھ کا کانا بھی اگر مارنا چاہتا تو مار دیتا اور وہ سب سڑک پر پڑے زخمی کتوں کی طرح تڑپ رہے ہوتے؟ شری مودی اور امت شاہ نے اب تک کروڑوں روپیہ خرچ کردیا ہے اور بارہ برس میں وہ ثابت نہ کرسکے کہ عشرت مرحومہ کا تعلق لشکر سے تھا۔ اب وہ ان کاغذوں کی تلاش میں ہیں جو فائل میں نہیں ہیں۔ وہ یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ ان میں لکھا ہوگا کہ اس کا تعلق لشکر سے تھا۔ لیکن جو کاغذ نہیں ہے۔ اس میں یہ بھی لکھا ہوسکتا ہے کہ وہ پاک صاف تھی۔ جبکہ دو برس سے وہ فائل وزیر داخلہ کے پاس ہے وزیر داخلہ کے اس جملہ سے بلی تھیلے سے باہر آگئی کہ موقع پرست سیکولرازم کو ملک کبھی قبول نہیں کرسکتا۔ وزیر داخلہ نے بار بار کہا کہ عشرت جہاں کے ذریعہ کانگریس نے گجرات کے وزیر اعلیٰ کو پھنسانے کی زبردست سازش کی تھی۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ عشرت کو بھیجا بھی کانگریس نے تھا مارا بھی اس نے تھا۔ بس نام مودی کا لے لیا تھا؟ وزیر داخلہ نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم دہشت گردی سے کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ وہ شاید بھول گئے کہ وہ مسعود اظہر کو شاہانہ طریقہ سے قندھار پہونچاکر پہلے بھی سمجھوتہ کرچکے ہیں اور اب بھی اودھو ٹھاکرے اور راج ٹھاکرے کو گلے کا ہار بناکر سمجھوتہ کررہے ہیں۔ راج ٹھاکرے نے کل کہہ دیا کہ تھری وہیلر کے نئے پرمٹ جو مراٹھی مانس کو نہیں ملے ہیں انہیں روکو۔ ڈرائیور اور سواریوں کو اتارو اور گاڑی میں آگ لگادو۔ یہ ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا بھی ہے کہ مہاراشٹر مرہٹوں کا، ملک کو بانٹنا بھی ہے کہ غیرمراٹھی ان کے ملک میں نہ آئیں اور دہشت گردی بھی ہے کہ سڑک پر آگ لگادو۔ لیکن بھاجپائی وزیر اعلیٰ سے لے کر وزیر اعظم تک کسی کی ہمت نہیں ہے کہ انہیں کنہیا کمار کی طرح جیل میں ڈال دے کیونکہ وہ تو مودی کے پرانے رشتہ دار ہیں۔ ان پر تو نہرو، اندرا، راجیو اور منموہن سنگھ یا شردپوار بھی ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہ کرسکے۔ اور غیرضمانتی وارنٹ کے جواب میں ممبئی کے پولیس کمشنر سے نکمے لہجے میں راج ٹھاکرے نے کہا تھا کہ میرے دروازہ پر کوئی پولیس والا نہ آئے اور ستیہ پال جیسے کمشنر نے جی سر کہہ کر سلام کیا تھا۔ راج اپنی کار میں گئے دو وکیل پہلے سے کھڑے تھے ان کو ساتھ لیا 40 ہزار کے مچلکہ پر دستخط کئے اور پانچ منٹ میں واپس آگئے۔ اگر راج ناتھ سنگھ میں ہمت ہے تو راج ٹھاکرے کے ساتھ کنہیا کمار جیسا برتاؤ کرکے دکھائیں؟ اور اپنے وزیر اعلیٰ سے کہیں کہ اسے گرفتار کرو۔ اور یہ نہ کرسکیں تو شیخی بگھارنا چھوڑ دیں اور وہی کریں کہ اگر کسان بینک کا قرض نہ دے سکے تو وہ خودکشی کرلے۔ اور ہوائی جہازوں کا مالک اگر 9 ہزار کروڑ لے کر ملک سے بھاگنا چاہے تو سو دو سو کروڑ رشوت دے کر للت مودی کی طرح لندن میں جابسے اور زندگی بھر عیش کرتا رہے کہ خزانہ اس کے پاس ہے۔