تلفظ کا بگاڑ

Bhatkallys

Published in - Other

02:34PM Sat 6 Aug, 2016

خبر لیجیے زباں بگڑی

از: اطہر علی ہاشمی اردو میں املا سے بڑا مسئلہ تلفظ کا ہے۔ متعدد ٹی وی چینل کھُمبیوں کی طرح اگ آنے کے بعد یہ مسئلہ اور سنگین ہوگیا ہے۔ اینکرز اور خبریں پڑھنے والوں کی بات تو رہی ایک طرف، وہ جو ماہرین اور تجزیہ کار آتے ہیں اُن کا تلفظ بھی مغالطے میں ڈالنے والا ہوتا ہے۔ مغالطہ اس لیے کہ جو کچھ ٹی وی سے پیش کیا جاتا ہے نئی نسل اسی کو سند سمجھ لیتی ہے اور صحیح ہونے پر اصرار کرتی ہے۔ اب ان تجزیہ کاروں اور چینلی دانشوروں کی اصلاح تو ہو نہیں سکتی، یہ ممکن نہیں کہ گفتگو سے پہلے ان کے تلفظ کا امتحان لیا جائے۔ لیکن یہ تو ہوسکتا ہے کہ کوئی ماہرِ لسانیات پروگرام کے بعد غلط تلفظ کی اصلاح کردے۔ لیکن اس میں دانشوروں اور تجزیہ کاروں کے بگڑ بیٹھنے کا خدشہ ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ ہم اپنا تجزیہ پیش کررہے ہیں، اردو زبان کی کلاس نہیں لے رہے۔ بات تو صحیح ہے لیکن بھرم کھل جاتا ہے۔ ایک ٹی وی پروگرام میں عمران خان کے عزیز جناب حفیظ اﷲ نیازی کسی ’’مدبَر‘‘ کا ذکر کررہے تھے۔ انہوں نے ’ب‘ پر زبر لگا دیا۔ عربی میں زیر، زبر کے فرق سے معنی بدل جاتے ہیں۔ مدّبَر (عربی صفت مفعولی) کا مطلب ہے وہ دوا جس کی اصلاح اور درستی کی گئی ہو، اچھی طرح کیا ہوا، قابلیت سے انصرام کیا ہوا۔ جب کہ مدّبِر (ب کے نیچے زیر) کا مطلب ہے تدبیر کرنے والا، عقل مند، دانش مند، مشیر، صلاح کار، منتظم، وزیر، گورنر، ڈائرکٹر وغیرہ۔ اردو میں مدبر وزیر، گورنر اور ڈائرکٹر کے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا۔ یوں بھی جو گورنر بن جائے اُسے خواہ مخواہ مدبر تسلیم کرلیا جاتا ہے کہ اس کے پاس بہت سی تدبیریں ہوتی ہیں۔ ایک لفظ اور ہے جس کا املا تو یہی ہے لیکن تلفظ مختلف ہے، اور وہ ہے ’’مُدْبِر‘‘۔ واپس آنے یا جانے والا، جو پیٹھ پھیرے۔ وہ جسے اس کے نصیبے نے پیٹھ دکھائی ہو۔ بدنصیب، بدبخت، واثوں بخت۔ (واثوں یا واژگوں کا مطلب ہے اوندھا، الٹا، منحوس، نامبارک، برگشتہ)۔ ایک اینکر خوشنود علی خان اپنے پروگرام میں خزانہ کا ذکر کرتے ہوئے کہہ گئے خَزانہ، جسے آفتاب اقبال خِزانہ (خ کے نیچے زیر) کہتے ہیں۔ ممکن ہے یہ محترم ظفر اقبال نے تعلیم کیا ہو۔ خَزانہ عربی کا لفظ ہے اور معنی سب کو معلوم ہیں، ان کو بھی جن کے پاس نہیں ہے۔ خزانہ پانی کے ذخیرے اور گودام کو بھی کہتے ہیں۔ سعودی عرب میں پانی کے ٹینک کو ’’مویاخزان‘‘ کہتے ہیں۔ عندیہ کا تلفظ بھی عموماً غلط سننے میں آرہا ہے، خاص طور پر برقی ذرائع ابلاغ سے۔ عِندیہ میں ’ع‘ کے نیچے زیر ہے (کسرہ) جب کہ اسے زبر کے ساتھ عَندیہ کہا جارہا ہے۔ تلفظ ٹھیک کرنا کوئی بڑا لسانی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر عَندیہ کہا جا سکتا ہے تو عِندیہ کہنے میں کوئی دشواری نہیں ہے۔ غَلَطْ تو شاید کبھی ٹھیک نہ ہو جب تک برقی ذرائع ابلاغ پر غلْط کہا جاتا رہے۔ اخبار میں دو بھولے بسرے الفاظ پڑھنے کو ملے۔ ایک ’’تہہ بازاری‘‘ اور دوسرا ’’ٹھیکری پہرہ‘‘۔ ٹھیکری پہرہ تو پنجاب کے چھوٹے شہروں اور دیہات میں سننے میں آجاتا ہے لیکن بڑے شہروں والے شاید بھول گئے ہیں۔ تہ بازاری (نہ کہ تہہ) فارسی کا لفظ اور مونث ہے۔ یعنی وہ محصول جو اُن لوگوں سے لیا جاتا ہے جن کی دکانیں بازار میں نہیں ہوتیں بلکہ وہ سڑک کے کنارے بیٹھ کر سامان بیچتے ہیں۔ بازار کا محصول جو بازار میں چیزیں فروخت کرنے والوں سے لیا جاتا ہے۔ پنجاب کے ایک اخبار میں تہ بازاری پتھارے اور تجاوزات ہٹانے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ کراچی میں تو بلدیہ والے سڑک کنارے یا فٹ پاتھ پر سامان بیچنے والوں کا مال و متاع عملاً تہ کرکے گاڑی میں ڈال کر لے جاتے ہیں، واپسی کے معاملات بعد میں طے ہوتے رہتے ہیں۔ بلدیہ کے ملازمین یا پولیس اہلکار بھی بال بچوں والے ہیں۔ ٹھیکری پہرہ گاؤں دیہات میں پہرے کے لیے باری مقرر کرنے کو کہتے ہیں۔ اس کا ایک شخص ذمے دار بنادیا جاتا ہے جو پہرے دار مقرر کرتا ہے۔ اس میں جانبداری بھی ہوسکتی ہے جس پر جھگڑے کی خبر اخبار میں پڑھی تھی۔ ہمزہ کا استعمال بھی متنازع ہوتا جارہا ہے۔ لیے، دیے، کیے وغیرہ میں تو ہمزہ لگانے سے تلفظ ہی بدل جاتا ہے۔ ڈاکٹر رؤف پاریکھ ماہنامہ قومی زبان میں اس حوالے سے اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’گائے اور گاے (جانور) کے تلفظ میں تھوڑا سا فرق ہے۔ اسی لیے چاے بھی ہمزہ کے بغیر ہی درست ہے، اسے چائے نہیں لکھنا چاہیے۔ باباے اردو کو بابائے اردو لکھا دیکھ کر ہنسی بھی آتی ہے اور رونا بھی (یہ مذاق تو خود ماہنامہ قومی زبان میں دیکھا گیا)۔ ڈاکٹر غلام مصطفی خان مرحوم تو چاے اور گاے وغیرہ میں ہمزہ نہ لکھنے کے ضمن میں بہت احتیاط کرتے تھے‘‘۔ جہاں تک گائے کا تعلق ہے تو مولوی اسماعیل میرٹھی کی مشہور نظم میں گائے اپنے سینگوں سمیت موجود ہے۔