اردو اداروں پر اردو مافیاؤں کی یلغار

Bhatkallys

Published in - Other

12:08PM Tue 7 Jun, 2016
ابو ذر فاطمی سائنس اور تکنیک کے دورِ ارتقا میں اردو زبان جس برے دور سے گز ر رہی ہے ایسا وقت تو شاید اس وقت بھی نہیں آیا ہوگا جب اتحاد و یکجہتی، گنگا جمنی تہذیب اور پیار محبت کے لیے ہر دل عزیز و شیریں زبان کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کی زبان قرار دے دیا گیا تھا۔ آج یہ زبان بھلے ہی اپنی شناخت کا رونا رو رہی ہو، بھلے ہی اسے کاروبار کے لیے ناکارہ سمجھ لیا گیا ہو لیکن آج اس زبان کو تاراج کرنے والے اس کے فروغ و ارتقا کے نام پر مالا مال ہوتے جا رہے ہیں ۔ وہی لوگ جو اردو کو روزی روٹی سے جوڑنے کی گلا پھاڑ پھاڑ کر وکالت کرتے رہے ہیں، آج اس زبان کو بے حال کرکے اربوں کھربوں کے مالک ہوتے جا رہے ہیں۔ آج اردو زبان چند ایسے ٹھیکیداروں کے شکنجے میں جکڑی ہوئی کس مسا رہی ہے ۔جن کو نہ تو اس کے بقا و ارتقا سے کوئی لینا دینا ہے اور نہ ہی اس کی ترویج و اشاعت سے مطلب واسطہ۔ حیرت کیجیے یا ماتم! اب تو اردو کے خود مختار اداروں پر چوروں کا نہیں ڈاکوؤں اور مافیا کا قبضہ ہو چلا ہے۔ بندوقوں کے بوتے پر اداروں پر قبضہ ہو رہا ہے اور بعض اداروں میں کھلی لوٹ مار ہو رہی ہے۔ تعجب تو اس پر ہے کہ نہ تو اس کے خلاف کوئی آواز بلند ہو رہی ہے اور نہ کسی اخبار میں اتنی ہمت ہے کہ کسی غنڈے، بدمعاش ،ڈاکو لٹیرے اوردشمن کے خلاف احتجاجی تحریریں شائع کرنے کی بھی کوشش کر سکے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اگر احتجاج ہو بھی رہا ہے تو وہ حبّ علی کی نیت سے نہیں بلکہ بغض معاویہ کے طور پر ہو رہا ہے کہ فلاں اردو ادارے کا سر براہ بدعنوان ہے اس نے کروڑوں کا گھوٹالہ کر لیا یا فلاں ادارے میں غیر تدریسی شخصیت غلبہ پا گئی ہے اسے برطرف کیا جائے۔ اس احتجاج کا مقصد اداروں کے سربراہوں کو بلیک میل کرنا یا ان سے اپنے مفادات کی تکمیل کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ہے۔ خاص بات یہ بھی ہے کہ اس طرح کے احتجاج کرنے والوں میں وہی لوگ پیش پیش ہوتے ہیں جن کے دامن پر ہزاروں خون کے دھبّے لگے ہوں۔ گذشتہ دنوں دہلی سے شائع ہونے والے دو اخباروں سے معلوم ہوا کہ مرکزی حکومت کے زیر انتظام اردو کے فروغ میں مصروف ایک ادارے کے سربراہ کے خلاف دوسرے اردو کے ادارے کے ذمہ دار آستین چڑھا چکے ہیں اور انہوں نے حلف لے لیا ہے کہ جب تک سرکاری ادارے کے سربراہ کو پوری طرح برہنہ کرکے ’ جشن ذلیل و خوار ی‘ نہیں منا لیں گے تب تک سکون کی سانس نہیں لیں گے۔ جن صاحب نے یہ گفتاری بہادری دکھائی ہے ان کے بارے میں یوں تو بہت ساری باتیں مشہور ہیں مثلاً یہ کہ وہ ایک بڑے غنڈے اور بد معاشوں کے گینگ کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے ایک ایسے ادارے پر آتشیں ہتھیاروں کے زور پر قبضہ کیا تھا جو ان لوگوں کے لیے نہایت سود مند ہے جن کی مستقل تعلیم نہیں ہو سکی۔ اس ادارے کو چند مخلص لوگوں نے قائم کیا تھا۔ رات دن محنت کرکے اس ادارے کو اردو کی تدریس کا سب سے بڑا مرکز بنایا تھا۔ خوشامد کرکر کے لوگوں کو اردو کے فروغ کی تحریک میں شامل کیا تھا اور اپنے گاڑھے پسینے کی کمائی کے علاوہ عوام سے پائی پائی کی بھیک مانگی تھی۔ جب ان کے خون پسینے سے ادارہ طاقت ور بن گیا تو مفاد پرستوں نے اس کو چھین لیا اب یہ ادارہ کھل کر لوٹ مار کر رہا ہے۔ وہ عمارت جو اردو کے فروغ کی خاطر تعمیر کی گئی اس کے دل پر ہتھوڑے برسا کر انگریزی اسکول قائم کر دیا گیا ہے۔ طلبا سے لاکھوں روپے اینٹھے گئے ، کروڑوں کی فرضی ڈگریاں بیچی گئیں، مراکز قائم کرنے کے نام پر وہ دھاندلی مچائی گئی کہ اردو کے دشمن بھی کانوں پر ہاتھ رکھنے لگے ۔دولت اور طاقت کی بنیاد پر اردو کے مخلصین پر ایسی دہشت طاری کی گئی کہ ان کی زبانیں گنگ ہو کر رہ گئیں۔ آج یہ مخلصین گوشۂ گمنامی میں بیٹھے ادارہ مذکور بالفاظ دیگر لوٹ مار کے مرکز پر خون کے آنسو بہا رہے ہیں اور لٹیروں، گھوٹالہ بازوں اور اردو فروشوں کے وارے نیارے ہو رہے ہیں۔ اس ادارے کے مالک و مختار کو آج دوسرے اداروں میں بد عنوانی نظر آ رہی ہے۔ اور وہ اس ادارے کو نیست و نابود کرنے پر تلے ہوئے ہیں جس کی خدمات اپنی شفافیت کی ایک تاریخ رکھتی ہیں۔ آس جناب جس ادارے پر قابض ہیں وہاں تو صرف بدعنوانی کا ہی بول بالا ہے۔ ذائقہ بدلنے کے لیے ایک فلمی صنعت کار، ایک کیمیاوی سائنس کے استاد اور چند ایسے لوگوں کو ساتھ ملا لیا ہے جو نہ تو ادارے کی کارگزاریوں سے واقف ہیں اور نہ یہ جانتے ہیں کہ اردو کی ترویج میں مذکورہ ادارے کی کیا اہمیت ہے۔وہ تو صرف ہوائی جہاز کے سفر ، شاندار ہوٹل میں قیام اور ایک نام سے پچاسوں بار ملنے والے ایوارڈ سے خوش ہو جاتے ہیں۔ خیر آنجناب کا سرکاری ادارے والے صاحب سے کہانی یہ ہے کہ انہوں نے گذشتہ دنوں سرکاری ادارے کے سربراہ کی خوب چمچا گیری کی تھی۔ اخبارات میں جم کر مضامین لکھے، پریس کانفرنسیں سجائیں، اپنی تازہ و تنو مند تصویروں کے ساتھ اخبارات میں خوب جگہ گھیری ۔ بعد میں وہ سرکاری ادارے میں گئے اور ایک انگریزی رسالہ پکڑاکر مطالبہ کیا کہ اس رسالے کی تھوک خریداری کی جائے۔ سربراہ نے انگریزی زبان کی اشاعت پر امدادی رقم دینے سے ہاتھ اٹھا لیے بس اسی پر ان کو اس حد تک غصہ آ گیا کہ یہ صاحب دس بارہ لوگوں کا ’کثیرہجوم‘ لے کر دھرنے پر بیٹھ گئے ۔ اور جس ڈائرکٹر کو پہلے اردو کا اولین و آخرین قرار دے چکے تھے ،اب اس کو منہ بھر بھر کر گالیاں دینی شروع کر دیں۔ انہوں نے گذشتہ ’ ممدوح‘ کو دلال، ٹھگ، بدعنوان، لٹیرا، عیاش اور نہ جانے کیا کیا کہہ ڈالا۔ سنا ہے کہ انہوں نے اپنے لوگوں کو سربراہ کے پاس بھی بھیجا اور دبی زبان میں ان سے دھمکی بھی دلوائی کہ’’ ابھی وقت ہے سنبھل جاؤ ورنہ۔۔۔۔۔۔‘‘ لیکن ہذا بھی موم کے نہ تھے، اپنی جگہ قائم رہے اور بلیک میل کرنے کا یہ ڈراما ٹائیں ٹائیس فش ہو گیا۔قارئین اندازہ کر سکتے ہیں کہ جب اردو کے ایسے ایسے پیش رو، امام، جھنڈا بردار اور بہی خواہ ہوں گے تو یہ زبان کتنی مدت تک اپنی زندگی کو برقراررکھ سکے گی؟۔ یہ تو ایک معمولی سی مثال ہے۔اردو زبان کے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش ہو رہی ہے اوراس کی تیاری بہت پہلے کر لی گئی تھی۔ جس دن اردو کو مذہبی بنیاد پر دیس نکالا دے دیا گیا اسی دوران ایک گروہ ایسا بھی پیدا کر دیا گیا تھا جو ملک کی نسلوں کو یہ باور کرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑے کہ یہ زبان ایک خاص مذہب کے ماننے والوں کی ہے۔ لوگ اس سازش کو آج تک نہیں سمجھ سکے۔ آج بھی ایک گروہ ایسا ہے جو چیخ چیخ کر کہتا پھرتا ہے کہ اردو مدارس کے سبب زندہ ہے حالانکہ تمام جنوبی ہند میں ایک بھی ایسا مدرسہ نہیں ہے جہاں اردو کو بحیثیت زبان پڑھایا جاتا ہو۔ تمام مدارس کا ذریعۂ تعلیم عربی اور فارسی ہے ۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ مدارس کے طلبہ عربی فارسی اردو پڑھتے پڑھتے اردو ضرور سیکھ جاتے ہیں۔ ایک سچائی یہ بھی ہے کہ کیونکہ اردو کی جڑیں عربی و فارسی میں ہیں، اس لیے مدارس کے فارغین کی اردو بھی کافی بہتر ہو جاتی ہے۔ مدارس کے سبب اردو کی زندگی کے دعوے سے ایک بڑا نقصان یہ بھی ہو رہا ہے کہ شر پسند عناصر آسانی سے یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوتے جارہے ہیں کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے، یہ تعصب سکھاتی ہے۔ اس میں عربی فارسی سے اضافت جائز ہے لیکن ہندی اس کے لیے شجر ممنوعہ ہے۔ ایک اور طبقہ ہے جو اردو کی کھلی ٹھیکیداری کر رہا ہے یہ جامعات میں درس و تدریس سے وابستہ افراد کا گروہ ہے۔ یونیورسٹیوں کے شعبۂ اردو سے بھی ایسے پی ایچ ڈی ہولڈر نکل کر آ رہے ہیں جن کا نہ تو املا ہی درست ہو سکا اور نہ ان کو اردو کی الف سے ہی کوئی واقفیت ہو سکی ہے۔ اس پر تفصیل سے گفتگو کی ضرورت ہے۔ آئندہ مضامین میں ہم اردو کے خود مختار، آزاد، نجی اور سرکاری اداروں کی کار گزاریوں کا جائزہ لیں گے اور بتائیں گے کہ اردو کی تدریس اور لیاقتی اسناد کی تقسیم میں کیا کیا کالے دھندے ہو رہے ہیں۔