روہنگیا مسلمانوں کی مظلومیت کب ختم ہوگی؟ ۔۔۔۔۔از:سہیل انجم

دل دہلا دینے والا ایک اور منظر
پہلا منظر: تین سالہ شامی رفیوجی ایلان کردی کی تصویر جب ترکی کے ساحل پر پائی گئی تو پوری دنیا لرز اٹھی تھی۔ ایلان نے اپنے والدین کے ساتھ شام کو خیرباد کہا تھا۔ اس کا پورا خاندان دوسرے بہت سے لوگوں کے ساتھ ایک کشتی میں سوار ہوکر ترکی جاکر پناہ گزیں ہونا چاہتا تھا۔ کشتی سمندر میں غرق ہو گئی اور ایلان کی لاش تیرتے تیرتے ساحل سمندر پر آلگی۔ وہ ساحل پر منہ کے بل پڑا ہوا تھا۔ وہ ایک فوجی کے ہاتھ لگا۔ جب ایک فوٹوگرافر نے اس کی تصویر کھینچی تو پوری دنیا میں جیسے ہنگامہ برپا ہو گیا۔
دوسرا منظر: یہ پانچ سالہ عمران دقنیش ہے۔ یہ بھی شامی باشندہ ہے۔ بم دھماکے کے بعد ایک تباہ شدہ عمارت کے ملبے کے ڈھیر سے اسے نکالا گیا ہے۔ ایک ایمبولینس کی زعفرانی رنگ کی کرسی پر مبہوت سا بیٹھا ہوا ہے۔ اس کا چہرہ خون آلود ہے۔ جسم پر جگہ جگہ زخموں کے نشان ہیں۔ ملبے اور گرد و غبار نے اس کی صورت بدل کر رکھ دی ہے۔ اس کی آنکھیں ویران سی ہیں اور اس کے چہرے سے وحشت برس رہی ہے۔ یہ خوفزدہ ہے۔ لیکن اس میں بولنے کی تاب نہیں۔ بال بکھرے ہوئے ہیں۔ دونوں ہاتھ گھٹنوں پر ہیں۔ خاموش ہے، لیکن اس کی آنکھیں وحشت و بربریت کی پوری داستان سنا رہی ہیں۔ اس تصویر نے بھی دنیا بھر میں لرزہ طاری کر دیا تھا۔
تیسرا منظر: یہ محمد شوہایت ہے۔ اس کی عمر سولہ ماہ ہے۔ یہ بھی دریا کا لقمہ بن گیا۔ اسے بھی ایک ساحل پر پایا گیا ہے۔ یہ بھی کردی کی مانند منہ کے بل پڑا ہوا ہے۔ کردی اور اس میں بہت مماثلت ہے۔ اس کی بھی کشتی غرقاب ہو گئی اور یہ ڈوب گیا۔ اس کی بھی لاش تیرتے تیرتے ساحل سے آلگی ہے۔ البتہ یہ شامی نہیں بلکہ روہنگیا مسلمان ہے۔ یہ سب سے کم عمر بچہ ہے جو اس طرح دلدوز انداز میں مارا گیا ہے۔ کردی کی لاش ترکی کے ساحل پر پائی گئی تھی تو شوہایت کی لاش بنگلہ دیش میں دریائے نیفا کے ساحل پر ملی ہے۔ بے یار و مددگار پڑی یہ لاش بھی وہی کہانی سنا رہی ہے جو ایلان کردی کی لاش نے سنائی تھی۔ لیکن شوہایت اس لحاظ سے بدقسمت ہے کہ اس کی موت پر اس طرح انسانیت کی آنکھیں اشکبار نہیں ہوئیں جیسے کہ کردی کے معاملے میں ہوئی تھیں۔
دلدوز مناظر کا یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہے گا اور اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ دنیا کا ضمیر بیدار نہیں ہوگا، انسانیت اپنے جامے میں نہیں آئے گی اور وحشت و بربریت کا کھیل بند نہیں ہوگا۔ اول الذکر دونوں مناظر اپنوں کے ظلم و استبداد کے گواہ ہیں تو تیسرا منظر ایک امن پسند کہے جانے والے مذہب کے پیروو ¿ں کی لامذہبیت اور ایک ملک کی فوج کی بربریت کا ثبوت ہے۔ شام میں مسلمان ہی مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں۔ اپنے ہی اپنوں کی لاشوں کے انبار لگا رہے ہیں۔ لیکن برما یا میانمار میں ایک تو بودھ مت کے لوگ انسانیت سوز مظالم میں شامل ہیں اور دوسرے وہاں کی فوج ظلم و بربریت کی تاریخِ خو چکاں رقم کر رہی ہے۔ محمد شوہایت کے والد جواں سال ظفر عالم بنگلہ دیش پہنچ گئے ہیں۔ انھوں نے دنیا کے ضمیر کو آواز لگاتے ہوئے کہا کہ اب تو روہنگیا مسلمانوں کی مظلومیت کا خاتمہ ہونا چاہیے، اب تو انھیں بخش دیا جانا چاہیے۔ انھوں نے سی این این کے ایک نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے گاو ¿ں میں ہیلی کاپٹروں سے ہمارے اوپر گولیاں برسائی گئیں۔ میانمار کے فوجیوں نے بھی ہمیں اپنی بندوقوں کا نشانہ بنایا۔ میرے دادا اور دادی زندہ جل کر ختم ہو گئے۔ فوج نے ہمارے پورے گاو ¿ں کو جلا کر خاکستر کر دیا اب وہاں کچھ بھی نہیں بچا۔انھوں نے کہا کہ ’جب میں نے اپنے بچے کی لاش کی تصویر دیکھی تو میں نے سوچا کہ اب میرا زندہ رہنا بیکار ہے۔ کاش اس کی جگہ میں مر گیا ہوتا۔ دنیا کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اب میانمار کی حکومت کو بزور طاقت روکا جائے۔ اگر اسے نہیں روکا گیا اور مظالم کا یہ سلسلہ جاری رہا تو وہ تمام روہنگیا مسلمانوں کو ختم کر دیں گے‘۔ برما یا میانمار کے ہزاروں روہنگیا مسلمان اپنے وطن کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔ فوج اور بودھ مت کے لوگوں کے مظالم کی خبریں اکثر و بیشتر آتی رہتی ہیں۔ گاو ¿ں کے گاو ¿ں جلا دینا، عورتوں اور لڑکیوں کی عصمتیں تار تار کرنا اور گولیوں سے لوگوں کو بھون دینا معمول کی بات ہو گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر اگر چہ بہت زیادہ بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کہ پتہ نہیں کس ملک کی تصویر کو کس ملک کی تصویر بتا دی جائے، لیکن اس کے باوجود روہنگیا مسلمانوں کی مظلومیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ۲۱۰۲ میں صوبہ اراکان یا راخین میں نسلی تشدد کا آغاز ہوا تھا۔ اس وقت سے لے کر اب تک لاتعداد مسلمان اپنا وطن چھوڑ چکے ہیں۔ لاکھوں افراد پناہ گزیں کیمپوں میں بدحالی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ سب سے زیادہ بنگلہ دیش میں ہیں۔ ہندوستان کے مختلف شہروں میں بھی بشمول دہلی پناہ گزیں ہیں۔ لیکن نہ تو بنگلہ دیش میں انھیں انسانی سہولتیں حاصل ہیں اور نہ ہی ہندوستان میں۔ ہندوستانی حکومت کا ان کے ساتھ رویہ بہت غیر ہمدردانہ ہے۔ جہاں وہ پاکستان سے آنے والے ہندو پناہ گزینوں کے لیے اپنی پلکیں بچھا دیتی ہے وہیں ان برمی مسلمانوں کے لیے اس کے دل میں ذرا بھی جگہ نہیں۔ پاکستانی اور بنگلہ دیشی ہندووں کو یہاں بہت سی سہولتیں دی جا رہی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ آدھار کارڈ، راشن کارڈ اور دوسری دستاویزات حاصل کر سکتے ہیں۔ انھیں روزگار بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔ لیکن روہنگیا مسلمانوں کے لیے اس قسم کے تمام دروازے بند ہیں۔ ہاں اس میں تھوڑی بہت کوتاہی روہنگیا مسلمانوں کی بھی ہے۔ انھیں دہلی میں واقع اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں سے متعلق دفتر سے رجوع کرنا چاہیے۔ لیکن چونکہ وہ ناخواندہ اور انتہائی غریب ہیں اس لیے ان کو کچھ معلومات نہیں۔ وہ وہاں تک جا نہیں سکتے۔ ہندوستان کی ان مسلم تنظیموں کو جو کہ ان کی مظلومیت کا رونا روتی رہتی ہیں، اس سلسلے میں کوشش کرنی چاہیے اور انھیں اقوام متحدہ کے دفتر سے سہولتیں بہم پہنچانے میں ان کی مدد کرنی چاہیے۔
میانمار میں پہلے فوجی حکومت تھی۔ اس کی ڈکٹیٹرشپ تھی۔ لیکن اب نوبیل امن انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی سربراہی میں جمہوری حکومت ہے۔ البتہ سیکورٹی کے معاملات فوج کے ہاتھوں میں ہیں۔ آنگ سان سوچی کا رویہ اس معاملے میں انتہائی افسوسناک ہے۔ انھوں نے ابھی تک اس بارے میں کچھ نہیں کیا ہے۔ وہ نوبیل امن انعام یافتہ ہیں، انھیں اپنے اس انعام کی لاج رکھتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کرنا چاہیے او ران کی مشکلات کو دور کرنے میں اپنا رول ادا کرنا چاہیے۔ لیکن انھوں نے بھی عملاً وہی سب کچھ مان لیا ہے جو وہاں کی فوج کہتی اور کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ برما میں بہت سے مسائل ہیں اور یہ مسئلہ ان میں سے ایک ہے۔ وہاں کی حکومت ان مسلمانوں کو اپنا نہیں مانتی۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ بنگلہ دیشی ہیں اور غیر قانونی تارکین وطن ہیں۔ اگر یہ بات مان بھی لی جائے تب بھی کیا تارکین وطن کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے۔ بہت سے تارکین وطن یوروپ میں پناہ گزیں ہیں۔ ان کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے وہی ان مسلمانوں کے ساتھ بھی کیا جانا چاہیے۔ انسانی حقوق کے علمبرداروں نے اس صورت حال پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مظالم کا یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ انھوں نے حکومت کے رویے پر اظہار مایوسی بھی کیا ہے۔ برمی حکومت انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے انکار کرتی ہے۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے سابق سکریٹری جنرل کوفی عنان کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا گیا تھا اس نے بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات کی نفی کی ہے۔ جبکہ پوری دنیا کا میڈیا روہنگیا مسلمانوں کی مظلومیت کی خبروں سے بھرا پڑا ہے۔ اقوام متحدہ کی نمائندہ زینب ہاوا بنگورو نے عصمت دری اور جنسی تشدد کے واقعات پر اپنی فکرمندی ظاہر کی ہے۔ انسانی حقوق کے سرگرم عالمی ادارے ہیومن رائٹس واچ نے بھی برمی حکومت کے رویے کی مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کا سلسلہ بند ہو اور انھیں تمام تر شہری سہولتیں فراہم کی جائیں۔ کیا برما کی حکومت اپنے رویے سے باز آئے گی اور کیا انسانیت کا ضمیر بیدار ہوگا۔