سچی باتیں ۔۔۔ امام مظلوم کی زندگی کا خلاصہ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys

Published in - Other

06:47PM Thu 3 Sep, 2020

سچی باتیں ۔۔۔ امام مظلوم کی زندگی کا خلاصہ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

ماہِ محرم ختم ہوگیا، حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے حالات زندگی آپ مختلف طریقوں سے سُن چکے، واقعات کربلا آپ اچھی طرح پڑھ چکے، ان تمام معلومات، اس ساری واقفیت، کے بعد آپ ک عقل، آپ کے ضمیر، آپ کی دیانت کا کیا فیصلہ ہے، کہ دَور موجودہ میں امام مظلومؓ کے سچے دوستدار، شہید ؓکربلا سے دلی محبت رکھنے والے کون لوگ ہیں؟ آیا وہ لوگ جو اُن کے طریقہ پر چلنا چاہتے ہیں، جو اُن کے نمونۂ زندگی کو اپنے سامنے رکھے ہوئے ہیں، جو اُن کی مبارک زندگی کی روشنی میں اپنا ہر قدم اُٹھانا چاہتے ہیں؟ یا وہ لوگ، جو اُن کے بتائے ہوئے، راستہ کے برخلاف راستہ اختیار کئے ہوئے ہیں، جو بجائے اُن کے ، اُن کے دشمنوں کی روش پر چل رہے ہیں، اور جو واقعۂ کربلا جیسے اہم وبے نظیر حادثہ کو ایک کھیل یا سُوانگ سمجھے ہوئے ہیں؟

امام مظلوم کی زندگی کا خلاصہ کیاتھا؟ یہ کہ اُنھوں نے حق پر جان دے دی حق کے سامنے اپنی جان کو جان نہ سمجھا۔ فاسق حاکم کو جائز بادشاہ نہ تسلیم کیا۔ ظالم حکومت کے اقتدار کو گوارا نہ کیا۔ بغیر امتِ اسلامیہ کے انتخاب کے، محض وراثت کی بناپر، خلافت کو تسلیم کرلینے سے انکار کردیا۔ یزید اپنے تئیں مسلمان کہتاتھا، لیکن اُس کا طریقہ اسلامی نہ تھا، اس لئے اُس کے ہاتھ پر بیعت کرنا قبول نہ فرمایا۔ دنیوی حکومتوں کی بڑی سی بڑی طمع کی ذرا پروا نہ کی۔ مادی طاقتوں کی بڑی سے بڑی دھمکیوں سے ذرا نہ جھکے۔ شبِ شہادت عبادت ویادِ الٰہی میں بسر کی۔ عرب کے تپتے ہوئے صحرا میں پیاس کی انتہائی شدت برداشت کی۔ لیکن غیر خدائی حکومت کے آگے سر نہ جھکایا۔ اپنے بھائیوں، بھتیجوں، بھانجوں ،بیٹوں، دوستوں کو اپنے سامنے خاک وخون میں تڑپتے دیکھا، اور بے صبر نہ ہوئے۔ سگی بہن جب خون کی محبت سے بے قرار ہوجانے کو تھیں، تو اُنھیں تسلیم ورضا کی تلقین کی، اور اللہ پر بھروسہ رکھنے کی تعلیم دی۔ خلافت رسولؐ  کو نااہل کے قبضہ میں جانے سے روکنے کی انتہائی کوشش کرڈالی، اور اپنا مال، اولاد، جان سب کچھ اسی پر نثار کردیا۔

اب خود ذرا سوچ کے بتائیے، کہ خدا کے اس سچے اور برگزیدہ بندہ، اللہ کے اس نیک اور محبوب پوجنے والے کے سچے دوست اور مخلص پیروکون لوگ ہیں؟ آیا وہ لوگ ، جوآج بھی اپنی بساط بھر، اور اپنے ظرف کے مطابق، اسوۂ حُسینی کو شمع راہ بنائے ہوئے ہیں، حق کے لئے اپنی جان تک سے بے پرواہیں، ظالم حکومت کے مقابلہ میںکلمۂ حق کہنا اپنا فرض سمجھ رہے ہیں، ناجائز قانون کے آگے سرجھکانا حرام سمجھتے ہیں، غیر اسلامی طرزِ حکومت کے تسلیم کرنے سے انکار کررہے ہیں، غیر خدائی قوتوں سے مقابلہ کرنے میں کسی بڑے سے بڑے خطرہ کی پروا نہیں کرتے، مادّی سلطنتوں کے بڑے سے بڑے عہدوں اور منصبوں کی طمع سے اپنے قدم میں لغزش نہیں پیدا ہونے دیتے، اللہ کے دین، اوراُس کے رسولؐ کی خلافت کی حرمت برقرار رکھنے کے لئے اپنی ساری دنیا برباد کرچکے ہیں؟ آیا یہ لوگ حسین بن علی علیہ السلام کے سچے غلام ہیں، یا وہ جنھوں نے عشرۂ محرّم کو ایک تقریب شادی بنالیاہے۔ جو یوم عاشورہ کو ایک جشن مسرت قرار دے چکے ہیں، جو سال میں کئی ہفتے اپنا وقت ابرک، اور تتلیوں کے سازوسامان، حلوی اور ملیدہ کی تیاری، شربت اور گوٹے کی خاطر داریوں کی نذر کرتے ہیں، جو ڈھول اور تاشہ بجانا عبادت خیال کرتے ہیں۔ بُراق وعلم، تعزیہ وتابوت اُٹھانا داخلِ دین سمجھتے ہیں، جنھوں نے منہدی اُٹھانا کارِ ثواب سمجھ رکھاہے، اور جو نوحہ وماتم ، سینہ کوبی ومرثیہ خوانی، ہر طریق سے بے صبری کا اظہار شعارِ اسلام سمجھتے ہیں؟ کیا امامِ مظلوم نے اسی لئے اپنی زندگی قربان کردی تھی، کہ اُن کی یادگار اس شکل میں قائم کی جائے؟ کیا، نعوذ باللہ، واقعۂ کربلا بھی ایک قسم کا سُوانگ تھا، جو ہرسال منایاجائے؟

حشر کے میدان میں، حسینؓ کے جھنڈے کے نیچے کون لوگ ہوں گے؟ آیا ہو جن کی وردیاں سُرخ ہوں گی، جو خدا کی راہ میں شہید ہوچکے ہوں گے، اور جو اپنی کٹی ہوئی گردنوں کو اپنی ہتھیلیوں پر لئے حاضر ہوں گے؟ یا وہ جو محرّم میں سبز ٹوپیاں پہن لینا ضروری سمجھتے ہیں، جو شب شہادت کو بجائے اللہ کی عبادت کے اپنا سارا وقت روشنی اور سامان آرائش میں صرف کرتے رہتے ہیں، اور جو تعزیوں کے غول کے آگے پیچھے ہوتے اور راستہ میں پیپل کی شاخوں کے کٹنے پر بلوہ اور خوں ریزی کے لئے آمادہ رہتے ہیں؟

1925-08-21