اُردو صرف زبان نہیں ایک تہذیب بھی ہے

Bhatkallys

Published in - Other

03:19PM Sat 11 Feb, 2017
روزنامہ ’’ ممبئی اردو نیوز‘‘ کا تازہ کالم۔۔۔۔۔شب و روز از: ندیم صدیقی اوپرسرخی میں جو جملہ ہے اسے ہم برسوں سے سُن رہے ہیں ہمارے سینئر ہی نہیں ہمارے ساتھی بھی اس جملے کو دُہراتے ہیں مگر اس کی عملی تجسیم ہم جیسوں کو کم کم ہی نظر آتی ہے۔  گزشتہ بدھ کو ہمارے کرم فرما شکیل صبرحدی کی بیٹی کا عقد تھا موصوف نے اپنی اس خوشی میں کئی اہلِ ادب کو بھی مدعو کیا جس سے ان کی ادب و ادیب دوستی مترشح تھی۔ شادی سے ایک دن قبل جو رسم ہوتی ہے اس میں انہوں ایک پرتکلف عشائیے میں اپنے چند شاعر دوستوں کو بھی یاد کیا اور اس نشست میں’عصر حاضر کے مشاعرے ‘گفتگو کا موضوع بنے۔ لوگ اپنے اپنے طور پر اظہار ِ رائے کر رہے تھے۔ بات یہ بھی چھڑی کہ شاعروں کو مجمع کے ذوق کوملحوظ رکھتے ہوئے،شعر سنانے چاہئیں۔ دوستوں نے اس پر بھی اپنی رائے دی۔ اکثر احباب مجمع کے ذوق کے حامی تھے۔ کسی کا یہ جملہ بھی سنا گیا کہ بھائی ان مشاعروں ہی سے میرا گھر بھی چلتا ہے۔ جو غلط تو نہیں تھا مگر ۔۔۔!۔۔۔۔ ہمارا یہ عالم تھا کہ ہم سب کی سُن رہے تھے اور ساتھ ہی ذہن ِ ندیم میں یادوں کا ٹیلی ویژن بھی چل رہا تھا: ایک واقعہ: جگر مرادآبادی اپنے زمانے کے مشاعروں کے ہیرو تھے ہیرو ۔۔۔ روایت ہے کہ ان کے خرابے کا زمانہ تھا وہ ایک مشاعرے گاہ میں داخل ہوئے تو ان کاحال یہ تھا کہ ان کاایک قدم یہاں پڑ رہا ہے تو دوسرا کہیں اور۔۔۔ مگرقدرت نے اس حالت میں بھی اُن کا اقبال بلند کر رکھا تھا۔ مجال تھی کہ کوئی ایک آدمی بھی پھبتی کسے بلکہ سب اُ ن کی طرف اسی نظر احترام سے دیکھ رہے تھے جس کے وہ مستحق تھے۔ جب وہ پڑھنے کیلئے کھڑے ہوئے تو کلام اور اندازِ پیش کش میں وہ کہیں لڑکھڑائے نہیں بلکہ ان کی فکری اور طبعی متانت اپنے شباب پر تھی۔۔۔۔ دوسرا ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ اپنے زمانے کے مشاعروں کے مشہور ترین کردار بلکہ ان کی مقبولیت یوں سمجھیے جیسے آج شاہ رخ خان کی شہرت ہے۔ وہ تھے دلؔ لکھنوی ہماری آنکھوں میں اُن کی شبیہ آج بھی گھوم رہی ہے۔ وجیہہ شکل صورت، اس پر شیروانی اور چوڑی دار پاجامہ۔ جب وہ مشاعروں میں مائک پر اپنے غزل سناتے تھے تو ہزاروں کا مجمع ہوتا تھا اور انکی غزل کا سحِر۔۔۔!۔۔۔ کون تھا جو اُس جادو کا شکار نہ ہوتا ہو۔ ممبئی میں ریگل سنیما اور میوزیم کے سامنے (سرکاؤس جی جہانگیر)ہال میں اُردو کامشاعرہ ہو رہا ہے( یہ واقعہ کوئی۴۵ برس اُدھر کا ہے ۔) ایک تو بھنڈی بازار اور مدنپورے سے اتنی دور مشاعرے کا ہونا ہی آج تعجب خیز ہے مگر یہ واقعہ ہے۔ راوی اُس ہال کی دوسری بالکنی میں(جی! اس ہال میں دو بالکنی تھیں) بیٹھا مشاعرہ سُن رہا تھا۔ وہ منظر نہیں بھولتا کہ جب دلؔ لکھنوی اپنی غزل سنا کر مائیک سے لوٹ رہے تھے تو ہال اور دونوں بالکنی میں بیٹھے ہوئے تمام سامعین کھڑے ہوکر ان سے دوسری غزل کی فرمائش کر رہے تھے، مجمع کے فرطِ شوق کا نتیجہ یہ نکلا کہ دل(لکھنوی) کو مائیک پر لوٹنا پڑا اور انہوں نے دوسری بار بھی دوغزلیں سنائیں اور لوگ تھے کہ داد و دہش کے ڈونگرے برسا رہے تھے۔ دوسرا واقعہ بھی یہاں تذکرے کا متقاضی ہے کہ ایک مشاعرے میں دل لکھنوی اس قدر کامیاب ہوئے کہ ان کے بعد جگر(مرادآبادی) کو پڑھنا تھا مگر مجمع کی اکثریت تھی کہ ۔۔دِل دِل۔۔ کا نعرہ لگار ہی تھی۔ مجمع اور اسٹیج پر بیٹھے سنجیدہ افراد کو مجمعٔ عام کا یہ رویہ ناگوار گزرا مگر سب خموش تھے کہ دل (لکھنوی)جو مائیک سے اپنی نشست پر لوٹ چکے تھے اور ہر طرف سے دِل دِل کی آوازیں سُن رہے تھے۔ مائیک پر آئے اور مجمع کو بہ انداز سرزنش مخاطب کیا کہ حضرات آپ کی دل نوازی سَر آنکھوں پر مگر آپ کا یہ عمل خود میرے لئے بھی دل آزار ہے ۔ حضرتِ جگر میرے لئے اس درجہ محترم ہیں کہ آپ کے اس نعرے کو جگر صاحب ہی کی توہین نہیں میں اپنی بھی ذِلت محسوس کر رہاہوں جگر صاحب کی وہ شخصیت ہےکہ جن کی جوتیاں سیدھی کر کے آپ کا دِل،۔۔۔ دل لکھنوی بنا ہے۔ میں حضرت ِجگر سے درخواست کرتا ہوںکہ وہ تشریف لائیں اور اپنے کلام بلاغت نظام سے ہم سب کو نوازیں۔ مختصر یہ کہ دِل ؔلکھنوی کی سرزنش اثر انداز ہوئی اور جب جگرؔ صاحب مائیک پر جلوہ افروز ہوئے تو لگ رہا تھا کہ پورا مجمع ان کے استقبال کےلئے کھڑا ہوگیا ہے۔ اب جگر صاحب تھے اور مجمع کا ہر خاص و عام ان کے اشعار پر سَر دُھن رہا تھا۔ ا س واقعے میں کئی چیزیں ہیں کہ اُس زمانے کے لوگوں میں بھی ا س طرح کے مذاق کے افراد تھے جو کلام سے زیادہ ترنم یا انداز ِپیش کش پر مرتے تھے مگر جس طرح دل لکھنوی کی سرزنش نے لوگوں کو متوجہ کیا وہ بھی ایک عمل ہے کہ جس سے یہ پتہ چلا کہ اس زمانے کا شاعر جو عوام میں مقبول ترین تھا مگر اپنے بزرگوں کے احترام اور ان کے مرتبے سے لاپروا یا بےنیاز نہیں تھا اگر ایسا نہ ہوتا تو شایددل لکھنوی کا اِس وقت ذکر بھی نہ ہوتا۔  مجمع کا مذاق ہر زمانے میں اکثر عامیانہ رہا ہے مگر ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو عام مذاق کو’ اپنے حق‘ میں کرنے کا ہنر جانتے ہیں مگر اس کے باوجود ہر شاعر یا ہر فنکار عوام کے ذوق کی خاطر اپنی سطح سے نیچے اتر آئے یا لوگ اس کی توقع کریں کہ وہ عوام کے مزاج اور اُن کی توقعات پر پورا اُترے یہ امر بھی خلافِ ادب ہے، ادب کی روح کے منافی ہے۔ شعرو ادب کوئی بازار کی شے نہیں کہ جو گاہک کی طلب ہو وہ ہم پیش کریں۔  یہ امرشاعر و ادیب کے منصب اور ان کے وقار کے خلاف ہے۔ شاعرو ادیب بھی اپنے معاشرے اور اپنے زمانےکا حکیم و طبیب ہوتا ہے۔ اُسے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ معاشرے کو اپنے افکار و اظہار سے کتنا قوی بنا سکتا ہے۔  شعرو ادب اپنے معاشرے کا اپنے زمانے کا حسن بھی ہوتا ہے۔ کسی بھی طبیبِ حاذق کا یہ وطیرہ نہیں ہوتا کہ مریض جو چاہے اسے وہ دے بلکہ مریض کا مرض جو تقاضا کرتا ہے طبیب وہی اسے دیتا ہے۔ یہ اور بات کہ ہر طبیب کا طریقۂ علاج اپنا ہوتا ہے۔ اس پر گرفت یا تبصرہ کرنے کا کسی کو حق نہیں ۔  مگر کیا کِیا جائے کہ یہ زمانہ پوراکے پورا اِک بازار بنا ہوا ہے ہر شے کو ہم نے اس بازار میں لا کر رکھ دِیا ہے۔ اِنتہا تو یہ ہے کہ ہمارے تقدسات سے وابستہ ہر شے ہی نہیں فکر و عمل سب کے سب قابلِ فروخت بنا دِیے گئے ہیں۔ کل کی طرح اب کوئی آواز نہیں لگاتا کہ ۔۔۔ امرود لے لوامرود، مونگ پھلی لے لومونگ پھلی۔۔۔ اب تو برانڈ بنانا پڑتا ہے اور جس کا برانڈ بن گیا وہ بازار کی ضرورت بن گیا اور جب بازار کی وہ ضرورت بن گیا تو اسے بظاہر عزت و وقاربھی ملا اس کا گھر ہی نہیں چلا بلکہ اس نے گھر پر گھر بنا لئے۔ اس دور کے مشاعروں میں چاہے عمران پرتاپ گڑھی ہوں یا کوئی اور جو اپنا معاوضہ لے رہے ہیں اس کا عشر عشیر بھی ہمارے گزشتہ شعرا کے حصے میں نہیں آیا۔ مگر اُنھیں جو وقار و عزت ملی وہ مثالی ہے اور تاریخ کا حصہ بنی ہوئی ہے۔ دوسری بلکہ ایک بنیادی بات یہ بھی ہے کہ شعر و ادب کا کام زبان و تہذیب کی ترقی بھی ہے اگر بازار کے اس طریق سے ہم نے سمجھوتہ کیا تو ہم اپنا حال تو روشن کر لیں گے مگر تاریخ ہم سے منہ پھیر لے گی اور ہاں کاغذ کا ڈھیر ضرور لگ سکتا ہے مگر یاد رہے کہ دِیمک اس کاغذی ڈھیر کی داد دینے کیلئے کل بھی ہمارے ہاں تھی اورآنے والے کل میں بھی رہے گی ( یہاں دوستوں کو شکیب جلالی کا یہ شعر بھی یاد دِلا دوں: عَالَم میں جس کی دُھوم تھی اُس شاہکار پر÷ دِیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ )اور رہی مجمع کی داد ۔۔۔تو سڑک پر دوا بیچنے والے بھی اسےحاصل کر لیتے ہیں اسکے علاوہ یہ بھی یاد رہے کہ کچھ ایسا بھی ہوتا ہے جو کاغذ پر نہ بھی ہو مگر زندہ رہ جاتا ہے۔  خداکرے اس’’ کچھ‘‘ کی طر ف ہمارے قلم کار اور فنکار متوجہ ہوجائیں مگر بازار۔۔۔۔!!