چراغ آخر شب۔ حفیظ نعمانی۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری ۔ بھٹکل

Bhatkallys

Published in - Other

06:15PM Sun 8 Dec, 2019

حفیظ نعمانی کی رحلت کے ساتھ اردو صحافت کا ایک زرین عہد ختم ہوگیا ، مرحوم صحافت کے زرین دور کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے تقسیم ہند کے بعد کے پر آشوب دور میں مسلمانوں کی رہنمائی کی اور ان کی ہمت بندھائی، اس کے لئے انہوں نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں، اس نسل کے صحافت کے عظیم میناروں میں مولانا محمد مسلم ، مولانا عثمان فارقلیط، مفتی رضا انصاری فرنگی محلی، جمیل مہدی مرحوم کے نام یاد آرہے ہیں، سنہ ۱۹۶۰ اور ۱۹۷۰ کی دہائی میں ندائے ملت کے ذریعہ آپ نے ملت کی رہنمائی کی ، یہ دور ہندومسلم فسادات کی آندھی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردارکے خاتمہ اور مسلم مجلس مشاورت کے لئے جہاں یاد رکھا جائے گا، وہیں حفیظ صاحب کے زیر ادارت ہفتہ وار ندائے ملت اور حفیظ صاحب کے زیر ادارت دوسرے اخبارات کا کردار بھی بھلایا نہیں جائے گا۔

روزنام صحافت ہمارے جن عظیم صحافیوں کی صلاحیتوں کو جس طرح کھا گئی، اور ان کی تحریروں کو زندگی نہ دے سکی ان میں حفیظ صاحب بھی شامل ہیں ۔ اس کا اندازہ مرحوم کے خاکوں کے ایک مختصر مجموعے بجھتے دیوں کی قطار سے لگا یا جاسکتا ہے، مرحوم کے تحریر کردہ خاکوں کی یہ مختصر کتاب یاد دلاتی رہے گی کہ روزانہ صحافت کی چکی میں پس کر ایک عظیم ادیب کے شاہکار یا تو ماضی کے دھندلکے میں چھپ گئے۔ یا پھرعالم وجود ہی میں ظاہر نہ ہوسکے۔

زندگی کے آخری دنوں میں حفیظ صاحب کی صحافت کی جولانی لوٹ آئی تھی،

جوانی کی بے خوفی اور بے باکی اور مصلحتوں  سے بے نیازی اپنے جلوے دکھا رہی تھی، کوئی شک نہیں کہ انہوں نے بڑی دلسوزی سے ایک پس ماندہ امت کو جگانے کی کوشش کی ، ان کی آخری دنوں کی باتیں ایک بجھتے چراغ کی آخری لو کے مانند تھیں، جو پوری توانائی کے ساتھ اٹھتی ہیں اور پھرہمیشہ کے لئے سرد پڑ جاتی ہے، حفیظ مرحوم معیاری اردو صحافت کے میدان میں ایک بہترین رہنما رہیں گے، آپ کی زندگی آںے والی صحافیوں کے نسلوں کے لئے مشعل راہ بنی رہے گی ، آپ کی یادیں مدتوں کولوں میں زندہ رہیں گی، صحافت کے عظیم کارواں کے آخری مسافر کو ہمارا سلام۔ اللھم اغفرلہ وارحمہ۔