ٹی ایم سی دکانوں کا مسئلہ ......بھول کہاں ہوئی ؟!۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ 

Bhatkallys

Published in - Other

10:26AM Wed 24 Aug, 2016
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے.۔۔۔ (پہلی قسط) آج کل بھٹکل میں ٹاؤن میونسپالٹی کی طرف سے نیلام کی گئی دکانوں کو لے کر گرما گرم بحث چل رہی ہے۔سوشیل میڈیاپر مختلف زاویوں سے اس موضوع پر مضامین اور تبصروں کا سلسلہ چل پڑا ہے۔ اس میں زیادہ تر ایک طرف اس پہلو کو اجاگر کیا جارہا ہے کہ دکانوں کی اس نیلامی میں کوئی ملی بھگت اورسازش ہے ۔ دوسری طرف اسے مسلم نوجوانوں کی طرف سے دکانوں کو زیادہ سے زیادہ کرایے پر حاصل کرنے کے چکر میں اپنے برادرانِ وطن سے حق تلفی کرنے کا رجحان بتایا جارہا ہے۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ سماجی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بظاہر خدشہ لاحق ہوگیا ہے۔ فسطائی ذہنیت کے لئے بیٹھے بٹھائے ایک اور شوشہ ہاتھ لگ گیا ہے۔ کھلے عام سوشیل میڈیا پر شر پسند ایسے پیغامات پھیلا رہے ہیں کہ مسلمانوں نے غیرمسلم کاروباریوں کو بے دخل کرنے اور مارکیٹ سے ان کا صفایا کرنے کی سازش رچی ہے۔ مسئلہ کی نوعیت کیا ہے؟ : بھٹکل میونسپالٹی کی تقریباًدو سو دکانوں میں مسلم اور غیر مسلم دونوں کرایہ دار ہیں۔ ان میں سو سے زیادہ دکانوں میں جو کرایہ دار ہیں وہ گزشتہ تین چار دہائیوں سے اپنا روزگار جمائے ہوئے ہیں۔ ان دکانوں میں 60%سے زیادہ دکانیں برادران وطن کے پاس ہیں۔ البتہ ٹی ایم سی کے نئے کامپلیکس نوائط کالونی میں مسلم تاجر وں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔چونکہ تیس چالیس سال قبل ہمارے نوجوانوں میں مقامی سطح پر چھوٹا موٹا کاروبار کرنے کے بجائے خلیجی ممالک کی طرف پرواز کرجانے کا جنون سا سوار تھا، تو ظاہر ہے کہ یہاں پر آباد غیر مسلم برادران وطن ہی مقامی کاروبار میں ملوث رہے۔اس طرح ان دکانوں کومسلمانوں کے بجائے دیگر قوموں سے وابستہ لوگوں نے کرایہ پر حاصل کیا۔اور اب تک وہ اپنا کاروبار انہی دکانوں میں چلارہے ہیں۔ نوجوانوں کانیا رجحان : خلیجی ممالک سے لوٹنے والے اور وہاں کے غیر یقینی حالات سے دوچار نوجوانوں میں اب یہ نیا رجحان تیز ہوگیا کہ مقامی طور پر ہمیں کاروبار میں ملوث ہوجانا چاہیے اور دیکھتے ہی دیکھتے بھٹکل کے پرانے بازار کی شکل و صورت ہی بدل گئی۔ میونسپالٹی کی دکانوں میں چونکہ پہلے سے ہی موجود کرایہ دار اپنا کاروبار چلارہے تھے، تو پرائیویٹ دکانوں کی مانگ بڑ ھ گئی۔ پرانی چھوٹی چھوٹی دکانوں کو توڑ کر نئے اور کافی جدید انداز کے کامپلیکس بنائے جانے لگے۔ خوبصورت آرائش ، اعلیٰ قسم کے فرنیچراور شاندار شو کیس اور بڑی سرمایہ کاری کے ساتھ نوجوان کاروباریوں کی دکانیں شہر کی رونق بڑھانے لگیں۔ساتھ ہی غیر مسلموں کی دکانوں میں بھی اضافہ ہوتا رہا مگر اب کی بار مسلم کاروباریوں کا پلہ بھاری ہونے لگا۔ اور شہر کا کاروباری نقشہ ہی بدل گیا۔ کرایے میں حد درجہ اضافہ : دکانوں کی بڑھتی ہوئی مانگ کے ساتھ دکان مالکوں کے کان کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے بھی پچھلے کچھ عرصے سے ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے کم کرایہ اداکرنے والے پرانے کرایہ داروں کو ہٹانے اور نئے ڈپازٹ اور زیادہ کرایے پر نئے کاروباریوں کو موقع دینے کا منصوبہ بنا لیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جہاں نئی دکانوں کا کرایہ دو ہزار اور تین ہزار روپے تھا وہاں سے پرانے کرایہ دار کو ہٹانے کے لئے کاروباری مہم کاری Entrepreneurshipکے شوقین نئے نوجوانوں نے پندرہ سے تیس ہزار تک کرایہ اور تین سے پانچ لاکھ روپوں تک ڈپازٹ کا آفردینے لگے۔ اس طرح دکان مالکوں کے لئے تو "بلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا "والی مثال صادق آگئی ۔ نیشنل ہائی وے کی توسیع : جلتی پر تیل کا کام تو نیشنل ہائی وے کی توسیع کے منصوبے نے کیا۔ ہائی وے کے اطراف کی دکانیں لینڈ اکویزیشن کے تحت کٹ جانے کے خوف سے پرانے شہر کی دکانوں کی اہمیت مزید بڑھ گئی۔ جس کا فائدہ بھی یقینی طور پر دکان مالکوں نے اٹھایا۔ مجبوراً کئی ایک پرانے کاروباریوں کو یا تو حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرنا پڑا یا پھر دکانیں چھوڑ دینا پڑا۔اس طرح جو لوگ مدت سے یہاں وطن میں بیٹھ کر چھوٹے موٹے کاروبارسے اپنے خاندان کی کفالت کررہے تھے وہ خلیج سے آنے والی تیز ہوا کے جھونکوں کے سامنے ٹکنے کے قابل نہیں رہے۔سابقہ کاروباری جو لگے بندھے انداز میں روزی روٹی چلانے کی حد تک رہ گئے تھے ان کے پاس نئے، پرجوش اور حوصلہ مند نوجوانوں کی راہ سے ہٹنے اور کنارے لگ جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ غیر مسلم کم متاثر ہوئے : مگر کاروباری دنیا کا یہ منفی اثر غیر مسلم برادران وطن پر کم ہی ہوا۔ کیونکہ ان کی زیادہ تر دکانیں ان کی اپنی ملکیت اور اکثریت والے علاقے میں تھیں۔ یاپھر عام بازار میں تھیں ، تب بھی ان دکانوں کی ملکیت ہماری برادری کے پاس کم ہی تھی۔ہماری ملکیت والی ایسی جتنی بھی دکانیں تھیں جن کا کرایہ پچھلی کئی دہائیوں سے محض چند روپے تھا اور وہ لوگ نہ کرایہ بڑھارہے تھے اور نہ قبضہ چھوڑنے کے لئے تیارتھے ، وہ سب دھیرے دھیرے عدالتی فیصلوں کے ذریعے خالی کروائی جارہی تھیں ۔بالکل اسی انداز میں مسلم اداروں یا نجی ملکیت والی بعض دکانیں بھی عدالتی فیصلوں کے بعد خالی کروائی گئیں۔ لیکن اس طرح جن غیر مسلم کرایہ داروں سے دکانیں عدالتی فیصلے کے بعد چھوٹ گئیں، ان کے لئے کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا کیونکہ ان کے اپنے علاقوں میں نئی دکانیں اور نئے کامپلیکس بنتے جارہے تھے اور وہاں دکانیں صرف ان کی اپنی برادری والوں کو ہی کرایے پر مل رہی تھیں۔جبکہ ہمارے علاقوں میں جو کامپلیکس بن رہے تھے ان میں کم از کم دو چار دکانیں غیر مسلم بھائیوں کو بھی کرایے پر مل جاتی تھیں۔بدلتے حالات کے اس پہلو سے بھی فطری طور مسلم کاروباری نوجوان طبقے کا ذہن بری طرح متاثر ہوگیا۔اور وہ اس صورتحال سے نمٹنے کے نئے زاویوں پر غور کرنے لگا۔ (۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔ اگلی قسط ملاحظہ کریں) haneefshabab@gmail.com