قوم نوائط کا ایک مایہ ناز سپوت ۔۔۔ بانی انجمن ایف ،اے حسن: از: ایف، اے محمد الیاس جاکٹی ندوی

تاریخ نوائط ایک ورق (سنہرا باب)
پہلی صدی ہجری کے اوائل میں اشاعت اسلام کی غرض سے تشریف لانے والے ان عربی النسل مسلمانوں پر مشتمل بحیرہ عرب کے مشرقی ساحل پر آباد ایک چھوٹی سی بستی ،چند ہزار کی آبادی گنے چنے محلے، نہ صرف ہر محلہ میں ایک مدرسہ ،بلکہ کئی کئی مدرسے ،پورے شہر میں جملہ ۲۳ دینی مدارس ، درجنوں حافظ پورے گاؤں میں نہیں بلکہ ہر خاندان میں ،ہر بچی حافظ قرآن ،ہر خاتون برقعہ پوش ،مسجدیںآباد،ہر شخص نہ صرف نمازی بلکہ تہجد گذار ، مسلمان دیندار،ثقافت عربی ،تہذیب اسلامی ،اس کا چشم دید گواہ مشہور عالمی سیاح ابن بطوطہ اور اس کا تذکرہ اس کے سفر نامہ میں ۔
دوسرا ورق(سیاہ دور)
زمانہ انیسویں صدی عیسوی کے اواخر کا :تعلیم سے دوری ،جہالت کا دور دورہ،ہزاروں کی آبادی لیکن ان میں پڑھے لکھوں کی تعداد اتنی کم کہ انگلیوں پر گنی جاسکے،عورتوں کے لئے تعلیم اورحروف شناسی شجرہ ممنوعہ،مقامی و سرکاری کنڑی زبان میں لکھی گئی سرکاری دستاویزات پڑھنے کے لئے عوام غیر مسلموں کے محتاج ،ا نگریزی میں بیرون سے آنے والے ٹیلگرام سمجھنے کے لئے تعلیم یافتہ لوگو ں کی تلاش ،بدعات و خرافات کا یہ عالم کہ شیطان کو بھی رشک آئے ،قبر پرستی ،عرس ،نذر و نیاز اور تعزیہ ومنتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ،جس شہر کے ایک ایک محلہ میں کل تک ۶/۵ مدارس کا وجود تھااب پورے گاؤں میں بھی ایک مدرسہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا،صرف دو تین مکاتب وہ بھی صرف قرآن ناظرہ کے لئے ،گھروں میں قرآن کے بجائے مولود ناموں کی تلاوت اور یہ سب نتیجہ دینی ودنیاوی تعلیم سے دوری و جہالت کا ۔
تیسرا ورق(امید کی کرن)
زمانہ بیسویں صدی عیسوی کے اوائل کا:ملت کی عمومی زبوں حالی خصوصا اپنی شاندار ماضی کی حامل عربی النسل اور اسلامی الثقافۃ قوم کی دینی و تعلیمی پسماندگی کے لئے فکر مندی کے ایک نئے رجحان کا آغاز ،حوصلہ مند دینداروں کی اس کے لئے پیہم عملی کوششیں اور مخلصانہ جدوجہد بلکہ اس کے لئے انجمن ستارہ حسنات اور مجلس اصلاح وترقی وغیرہ کے نام سے عملی تجربات اور نئی نسل میں اپنے بزرگوں کی سرپرستی میں اپنی سنہری تاریخ کی تجدید کا عزم۔
چوتھاورق(شاندار ماضی کی تجدید)
۲/اگست ۱۹۱۹ ء کا زمانہ ا یم ایم صدیق کا مکان ،تاریخ قوم نوائط کے دھارے کو دین و علم کی طرف دوبارہ موڑنے کا خداوندی فیصلہ اور اس کے لئے قوم کے چنیدہ و مخلص لوگوں کا اجتماع و باہم مشورہ بلکہ عزم و فیصلہ ،اس میں ملت کے ایک قابل سپوت اور لائق فرزند فخر نوائط کا وہ تاریخی خطاب جس نے یہاں موجود شرکاء کو اس بات کا فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیا کہ اپنے پچھلے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ ہی کے بھروسہ پر انجمن حامی مسلمین کے نام سے بھٹکل میں اسی وقت ایک ایسے ادارہ کی داغ بیل ڈالی جائے جہاں بیک وقت دینی ودنیاوی تعلیم کا نظم ہو ،بالفاظ دیگر جہالت کے خلاف میدان جہاد میں قدم رکھنے کا اعلان۔
وہ تقریر جس نے قوم نوائط کو ایک نئی سوچ دی (اور انجمن وجود میں آگیا)
وہ دل کی آواز جو اپنے اندرطاقت پروراز رکھتی تھی اور جس نے قومی سوچ کو ایک نیا رخ دیا اگر چہ سیدھے سادے الفاظ پر مشتمل ایک نوخیز و نوعمر کی زبان سے تھی جو اگر چہ قومی معاملات میں ناتجربہ کار لیکن نگاہ مرد مومن کا حامل تھا سننے سے تعلق رکھتی ہے۔
’’ائے لوگو : ہمیں جہالت اور بے عملی کے خلاف جھاد کے لئے کمر بستہ ہونا چاہئے تاکہ بھٹکل کی سر زمین پھر سے علوم و معارف سے معمور ہوجائے،اگر ہم نے اس وقت یہ فیصلہ نہیں کیا تو آئندہ خدا ہی ہمارا محافظ و نگہبان ہے ،ہمارے بزرگوں نے تعلیم سے جو لاپرواہی برتی آج ہم اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں ،ہماری اس غفلت کو ہماری آنے والی نسلیں کبھی معاف نہیں کریگی ،ہم ہر طرح کی بدعات و رسومات میں گھرے ہوئے ہیں ،پیران بے طریقت باہرسے آکر ہمارے رہے سہے ایمانی سرمایہ کو گم کرتے جارہے ہیں اور ہمارے ایمان و یقین پر کھلے بندوں ڈاکے ڈال رہے ہیں ،دین کے نام پر بہت سی ایسی باتیں جن کا دین اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہمارے اندر سرایت کر گئی ہیں ،دینی تعلیم جو کبھی ہمارا سرمایہ امتیاز تھا افسوس کہ آج ہم اس سے محروم ہو تے جارہے ہیں،اگر اس وقت جب کہ پورے ہندوستان میں مسلمان تعلیمی میدان میں آگے بڑھ رہے ہیں ہماری یہی حالت رہی تو ہماری آفتاب جیسی اسلامی شان کو گھن لگ جائے گا ،ہمارے لئے سوچنے کا وقت گذر گیا اب عزم و خلوص کے ساتھ عمل کی طرف قدم بڑھانے کا وقت ہے ،ہمارے قدم اتنے مضبوط ہو ں کہ ناموافق ہوائیں مخالف قوتیں اور رخنہ اندازوں کی رکاوٹیں ہمارے قدموں میں کسی طرح کی لغزش وجنبش نہ لاسکے‘‘۔
جرأت ہے نمو کی فضا تنگ نہیں ہے ائے مرد خدا ملک خدا تنگ نہیں ہے
وہ خطیب بے مثال و مفکر قو م ایف اے حسن یہ خطاب اپنی قوم کے کسی عالم دین یا کسی ادارہ میں اپنی طویل خدمات کے بعد غیر معمولی تجربہ رکھنے والے عمر رسیدہ قائد قوم کا نہیں بلکہ اس اکیس سالہ نوجوان ،زیادہ صحیح الفاظ میں اس نو عمر کاہے جس کی عمر بظاہر کھیل کود میں مست رہنے اوردن بھر بازاروں کے چکر لگا کر رات میں اس حالت میں گھر واپس آنے کی ہے کہ ایک طرف والدین کو شکایت ہو تو دوسری طرف محلہ والوں کواذیت ،خاندان فقیہ احمد ا جاکٹی کے اس مایہ ناز ،دبلے پتلے،سانولے رنگ کے ،خو برو و خوبصورت اور اس سے بڑھ کر خوب سیر ت، اس نو عمرو نو خیز کو بچپن ہی سے اس کے محلہ والوں نے ہمیشہ کسی فکر میں مگن دیکھا کچھ سوچتے رہنا ،ساتھیوں سے الگ رہ کر کسی دھن میں مست رہنا ہی اس کا خالی اوقات میں معمول تھا ،لیکن اس کی یہ کڑھن و سوچ اپنے شاندار ذاتی مستقبل کی تعمیر حسین خوابوں کی تکمیل اور اپنے گھر و خاندان کی ترقی کے لئے نہیں تھی بلکہ اپنی قوم کو ایک بار پھر جہالت کے اندھیروں سے نکال کر علم کی روشنی میں لانے ،ان کو بدعات و خرافات ،تعزیہ کی رسموں ،عرس و منتوں اور شادی و غمی کی غیر اسلامی رسومات سے نکال کر توحید خالص پر دوبارہ لانے اور اپنے عرب اجداد کی طرح دین حق کے علمبردار بن کر سرخروئی وعزت کی تاریخ میں واپس لانے کی تھی اور اس کا یہ یقین کامل تھا کہ ان سب برائیوں کی جڑ دینی و دنیاوی تعلیم سے دوری و جہالت ہے ،ان سب کا خاتمہ بھی ایک بار تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے ہی میں ہے ۔ حاجی عبد القادر صدیقی کا یہ لا ڈلا بھانجہ اور یم یم صدیق کا یہ پھوپی زاد بھا ئی و بہنوی حسن ابوبکر جو ۱۸۹۸ ء کی سن پیدائش کے ساتھ ابھی صرف اپنی عمر کے اکیسویں سال میں داخل ہوا تھا بچپن ہی سے سنجیدگی و متانت میں ممتاز رہا ،یہ اس قوم کا پہلا فرزند تھا جس نے شمالی ہندوستان میں علی گڑھ جیسے ہزاروں کلو میڑ کے فاصلہ پر واقع مرکز علم سے خوشہ چینی کی اور خاندانی اعتبار سے بھی قوم کا سب سے پہلے ایف اے بننے کا اعزاز حاصل کیا ،اس کے خاندان کے سرپرستوں نے بچپن ہی سے اس کی گر تی صحت کے پیش نظر اس کے ماموں یم یم صدیق کے والد کی سر پرستی میں کورگ میں اس نے میٹر یکو لیشن کی تکمیل کے بعد اس کو وطن ہی میں روکے رکھنا چاہا لیکن علم کا پیاسہ اور مطالعہ کا شوقین اور اس عمر میں بھی سینکڑوں غیردرسی کتابوں کا اپنے پاس ذخیرہ رکھنے والا یہ نو عمر کہاں ماننے والا تھا ،بیماری کے باوجود اس نے وہاں جاکر اعلی نمبرات سے کامیاب ہو کر ثابت کیا کہ سچی طلب و جستجو میں ہزاروں میل کی مسافت اور گرتی صحت بھی آڑ ے نہیں آتی ،اس کے ماموں حاجی عبدالقادر صدیقی نے اس دوران اپنی صاحبزادی سے ان کی شادی بھی کرادی۔ اس نوعمر انجمن کے بانی نے انجمن کی بنیادی اپنے مادر علمی علی گڑھ تحریک ہی کے طرز پر رکھی ،اس وقت ملکی سطح کی سر سید احمد کی مسلم ایجوکیشنل کا نفرنس میں وہ بذات خود اگر چہ شریک نہیں ہو سکے لیکن اس کے منصوبوں کو سب سے دور رہنے کے باجود سب سے پہلے عملی جامہ پہنانے والا وہی علی گڑھ کا اولین فرزند تھا ،متواضع و خلیق ،بلا کے ذہین اس سپوت قوم کے لئے یہ کم اعزاز کی بات نہیں تھی کہ اس کے تخیل سے وجود میں آنے والی انجمن کی باضابطہ اولین میٹنگ میں تجربہ کا رعمر رسیدہ چوٹی کے قائدین و سربراہان قوم کی موجودگی کے باوجود اس کی صدارت کے لئے تمام شرکا ء کا اصرار اسی کے لئے رہا ،اس طرح اس کو اپنی قوم کے کسی بڑے ادارے کے سب سے کم عمر بانی کے ساتھ ساتھ پہلے منتخب صدر بننے کا بھی اعزاز حاصل ہوا ،لیکن یہ تقدیر الہی کافیصلہ تھا کہ جس درخت کے بیج اس نے بوئے تھے اس کو وہ ثمر آور کیا دیکھتا ،اس کی آبیاری کی بھی اس کو مہلت نہیں ملی ،ٹی بی کے جان لیوا مرض نے اس پر حملہ کیا جس کے علاج کے لئے اس وقت کے مہنگے ترین بمبئی کے اسپتال میں بھی اس کو داخل کیا گیالیکن ۲۰/اکتوبر ۱۹۲۰ء کو صرف بائیس سال کی عمر میں قوم نوائط کو اپنے اس قابل فخر سپوت کے سانحہ کا سامنا کرنا پڑا اور وہ اپنے پیچھے دو سالہ بیوہ کو چھوڑ کر (جس کی وفات ابھی چند سال قبل ہوئی ) بغیر کسی مادی جانشین کے انجمن کے آنے والے ہزاروں روحانی جانشینوں کی پیشن گوئی کے ساتھ اپنے مالک حقیقی سے جا ملا ،اس پیغام کے ساتھ کہ میں نے انجمن کو صرف عصری تعلیم کے حصول کے لئے قائم نہیں کیا ہے ،اگر یہی مقصد ہوتا تو اس وقت قائم سرکاری اداروں میں اپنے نونہالوں کو داخل کرانے کی ترغیب دینا میرے لئے کا فی تھا ،میراتخیل انجمن کے قیام کے ذریعہ خالص اسلامی بنیادوں پر دینی تشخص اور شعائر دین کے احترام اور بنیادی دینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم سے اپنے نونہالان قوم کو آراستہ کرنا ہے تاکہ وہ دنیا کے تمام میدانوں میں ہم عصر اقوام کا مقابلہ کر کے اپنے ملک میں بھی برادران وطن کے شانہ بشانہ باعزت زندگی گذار سکیں ،خدا کرے کہ انجمن کے منتظمین کے لئے اس کے بانی کا یہ پیغام مشعل راہ کا کام دے ،خدا پوری قوم کی طرف سے اس کو جزائے خیر عطا کرے ،اس کے درجات بلند کرے اور قوم کو اس کا نعم البدل عطا کرے ۔ ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہوں جسے