قلم کے ایک رفیق قدوس قادری بھی گئے : حفیظ نعمانی

Bhatkallys

Published in - Other

12:27PM Fri 9 Oct, 2015

حفیظ نعمانی

ایک زمانہ ہوگیاجب عبدالقدوس قادری سے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ بہت اچھی علمی صلاحیت کے آدمی تھے صرف وطن ہی بدایوں نہیں تھا بلکہ پروفیسر آل احمد سرورؔ جیسی عظیم شخصیت سے رشتہ داری بھی تھی۔ یہ میرے مزاج کی ایک بڑی خرابی ہے کہ قریب سے قریب دوستوں کے مکمل حالات جاننے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ قدوس صاحب نے میرے ساتھ کم از کم 12 برس کام کیا ہوگا لیکن اتنے عرصہ کی رفاقت کے بعد بھی نہیں معلوم کہ ان کے والد کیا تھے؟ ان کے کتنے بھائی تھے اور کہاں ہیں؟ یہ تو معلوم ہے کہ انہوں نے ہمارے ہی ایک دوست مولوی گنج کے ایک مشہور تاجر یوسف بھائی کی بہن زہرہ بی بی سے شادی کرلی تھی لیکن یہ معلوم کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی کہ آپ بدایوں کے قادری خاندان کے فرد اور بھائی یوسف لکھنؤ کے ایک تاجر جن کا نہ صحافت سے تعلق نہ ادب سے اُن کے ساتھ کس نے رشتہ کرادیا؟ قدوس صاحب کے اندر بہت صلاحیت تھی وہ بہت اچھی انگریزی بہت اچھی ہندی اور سب سے اچھی اردو جانتے تھے ڈگری کے اعتبار سے وہ بی ایڈ تھے لیکن کبھی ان سے معلوم نہیں کیا کہ کہیں اسکول کے ماسٹر اور پھر پرنسپل بننے کے بجائے چھوٹے چھوٹے اخبارات میں معمولی مشاہرہ کے اوپر کیوں جان کھپا رہے ہو؟ خدا جانے کیوں اُن کے اندر احساس کمتری اتنا تھا کہ چھوٹے سے چھوٹا آدمی اگر اُن کے سامنے بڑا بننا چاہے تو وہ آسانی سے بن جاتا تھا۔ انہوں نے لکھنؤ کے کئی اخباروں میں کام کیا۔ وہ اپنی علمی صلاحیتوں کی وجہ سے ایڈیٹر بن گئے تھے لیکن ان کے احساس کمتری نے انہیں اتنا دبا دیا تھا کہ وہ اخبار کے ایسے جاہل مالکوں کے احترام میں بھی کھڑے ہوجاتے تھے جیسے وہ کوئی قابل احترام اور عظیم ہستی ہیں۔ قدوس صاحب نے پورے دس برس میرے ساتھ ’ان دنوں‘ میں کام کیا پھر جدید عمل میں بھی وہ ساتھ رہے اور انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا لیکن ہر جگہ اُن کی ناقدری ہوئی اور اخبار کے مالکوں نے انہیں وہ مقام نہیں دیا جس کے وہ مستحق تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اولاد کی نعمت سے محروم رکھا تھا جس کی بناء پر انہوں نے بڑی مشقت بھری زندگی گذاری۔ ان کی شریک زندگی زہرہ قادری اگر اُن کی زندگی میں نہ آگئی ہوتیں تو شاید برسوں پہلے وہ نہ جانے کہاں چلے گئے ہوتے؟ زہرہ ایک عرصہ تک خود بھی مختلف اسکولوں میں پڑھاتی رہیں اور ان کی وجہ سے ہی مولوی گنج لکھنؤ ان کے لئے بدایوں بن گیا۔ خدا گواہ ہے کہ میں نے ان کے اس احساس کو ختم کرنے کی بہت کوشش کی لکھنؤ کے صحافی اور ادبی حلقوں میں ہر کوئی ان کی قدر بھی کرتا تھا ور ان سے محبت بھی انجمن ترقی اردو جسے حیات اللہ انصاری نے غصب کرلیا تھا اسی انجمن کو مرکزی انجمن نے چودھری شرف الدین صاحب کے سپرد کرکے زندہ کیا اور چودھری صاحب نے قدوس قادری کو نائب صدر بنایا اور میڈیا انچارج اس کے جنرل سکریٹری اور خازن محمود الظفر رحمانی اور شوق امروہوی قدوس صاحب سے بہت محبت کرتے تھے قدوس قادری صاحب نے یوسف بھائی کی مدد اور زہرہ بی بی کی سمجھداری سے راجہ جی پورم میں ایک مکان بھی خرید لیا تھا۔ وہ کئی برس سے مسٹر اکھلیش داس کے اخبار قومی خبروں میں کام کررہے تھے مگر وہاں بھی معاون ایڈیٹر تھے لیکن شاید یہ اُن کی زندگی کا پہلا اخبار تھا جہاں تنخواہ کے لئے انہیں اپنے ضمیر کو مجروح کرنا پڑا اور ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو اُن کے اکاؤنٹ میں ان کی تنخواہ آجاتی تھی۔ لیکن وہ شہر کے مغرب میں تھے اور ان کا دفتر مشرق میں جس کا فاصلہ بھی دس کلومیٹر سے زیادہ تھا اور سواری بھی کئی جگہ بدلنا پڑتی تھی۔ اور اس کا نتیجہ تھا کہ ان کی ٹانگ کا فریکچر ہوا لیکن وہ ہماری طرح گھر تک محدود نہیں رہے بلکہ ٹھیک ہوکر پھر آنے جانے لگے۔ قدوس صاحب کے اندر محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی بس اُن کے احساس کمتری اور ضرورت سے زیادہ انکساری نے اس جگہ پہونچنے سے روک دیا جہاں وہ پہونچ سکتے تھے انہوں نے اخباروں میں اداریے بھی لکھے ادبی مضامین بھی لکھے کتابوں پر تبصرے بھی کئے اور پڑھنے والوں نے انہیں قابل تعریف بھی سمجھا لیکن سب کچھ انکساری کی نذر ہوگیا۔ وہ بہت بھولے انتہائی شریف اور برسہا برس مظلوم رہے۔ یہ اتفاق ہے کہ انہوں نے بی ایس این ایل والا ٹیلیفون کٹوا دیا اور مجھے موبائل نمبر کبھی نہیں دیا۔ صرف دو دن پہلے میں نے قومی خبروں کے دفتر میں فون کرکے بات کرنا چاہی تو معلوم ہوا کہ ان کی طبیعت خراب ہے یہ بھی نہیں معلوم ہوسکا کہ وہ کب سے بیمار تھے اور حیرت اس پر ہے کہ وہ زہرہ جنہیں ہمارے تعلق کے ہر موڈ کی خبر تھی انہوں نے یہ زحمت بھی نہیں کی کہ وہ اطلاع کردیں اور ایک مشترک دوست نے ان کے جو موبائل کے دو نمبر دیئے ان سے انتہائی کوشش کے باوجود بات نہیں ہوسکی۔ پاک پروردگار مغفرت فرمائے وہ بہت پیارے اور معصوم آدمی تھے انشاء اللہ دعا میں بھی کروں گا اور دوستوں سے بھی درخواست ہے کہ وہ بھی دعا کریں۔ 7 تاریخ کو عصر کے وقت ان کا انتقال ہوا اور مسنون طریقہ سے عشاء کے بعد سپّا قبرستان میں ان کی تدفین ہوگئی۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔