اقلیتی طلبہ کے لئے اسکالرشپ۔۔والدین درخواست دینے سے پہلے ضرور سوچیں ! ۔۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
گرمی کی چھٹیاں ختم ہونے کے بعد عصری اسکول دوبارہ کھل گئے ہیں۔ بچوں کی کتابیں ، اسٹیشنری اور یونیفارم کی خریداری کے سلسلے میں اسکولوں اور بازاروں میں بڑی گھماگھمی چل رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور ہلچل بھی تیز ہورہی ہے اور وہ ہے سرکار کے اقلیتی محکمہ کی جانب سے فراہم کی جانے والی پری میٹرک اور پوسٹ میٹرک اسکالرشپ حاصل کرنے کے لئے دستاویزات تیار کرنے اور درخواستیں جمع کرنے کی کوشش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ بھاگ دوڑ کرنا۔اکثر سماجی خدمت گار قسم کے خیرخواہ اور کچھ اسکولوں کے اساتذہ اس تعلق سے والدین کو اس اسکالرشپ کے لئے درخواستیں داخل کرنے کی نہ صرف ترغیب دیتے ہیں ، بلکہ عملی طور پر ان کا تعاون بھی کرتے ہیں۔ لیکن ایک انتہائی اہم پہلو سے والدین کو آگاہ نہیں کیاجاتا اور والدین جانے انجانے میں جھوٹی تفصیلات داخل کرنے کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔
کیا ہے یہ اسکالر شپ؟: حکومت کی طرف سے سماج کے مختلف طبقات کو تعلیمی سہولتیں فراہم کرنے کی جو اسکیمیں ہیں اس میں درج فہرست ذات و قبائل (ایس ؍سی)ایس؍ ٹی) ،دیگر پسماندہ طبقات(اآدربیک ورڈ کلاس) اور اقلیتی(مائناریٹی)طلبہ کے لئے سالانہ اسکالرشپ کے تحت نقد رقم فراہم کرنے کی بھی اسکیمیں ہیں۔ اسی زمرے میں اقلیتی محکمہ کی جانب سے مسلم، کرسچین، جین، پارسی وغیرہ کو پری میٹرک اورپوسٹ میٹرک اسکالر شپ دی جاتی ہے ۔ جس کو حاصل کرنے کے لئے مسلم طلباء کو آمادہ کرنے کی مہم چلائی جاتی ہے۔ پری میٹرک اسکالرشپ پہلی جماعت سے دسویں جماعت تک اور پوسٹ میٹرک اسکالرشپ کالج کی اگلی تعلیم کے لئے ہوتی ہے۔
اس اسکالرشپ کا حقدار کون ہے؟: سرکاری قوانین کے اعتبار سے اس طرح کی اسکالرشپ کی درخواست دینے کے لئے طالب علم کا سالانہ امتحان میں کم ازکم50%مارکس لینا لازمی ہے(پہلی جماعت کے لئے یہ شرط لاگو نہیں ہوتی)دوسری شرط یہ ہے کہ طالب علم کرناٹکاکا باشندہ ہو۔ دوسری ریاستوں میں زیرتعلیم کرناٹکا کے باشندے بھی اس کے لئے درخواست دے سکتے ہیں۔لیکن کرناٹکا میں زیر تعلیم دوسری ریاستوں کے باشندے اس اسکالرشپ کے لئے اہل نہیں ہونگے۔فاصلاتی تعلیم کے تحت کرسپانڈنس کورس اور سرٹی فکیٹ کورسس کرنے والوں کے لئے بھی یہ اسکالرشپ نہیں دی جائے گی۔ اسکالرشپ کی رقم براہ راست طالب علم کے بینک کاؤنٹ میں جمع کی جاتی ہے۔
سب سے اہم ترین شرط: اس اسکالرشپ کے لئے درخواست دینے والے والدین کے لئے سب سے بڑی اور اہم ترین شرط سالانہ آمدنی کی حدہے اور اس پر والدین بالکل توجہ نہیں دیتے۔ پری میٹرک اسکالرشپ کی درخواست کے لئے والدین کی سالانہ آمدنی کی حد1لاکھ روپے اور پوسٹ میٹرک اسکالرشپ کے لئے یہ حد 2لاکھ روپے سالانہ ہے۔خیال رہے کہ یہاں تمام ذرائع سے طالب علم کے والدین یا سرپرست کی سالانہ ’آمدنی‘(income) یعنی کمائی کی حد لاگو کی جارہی ہے ، بچت یا (savings)کی حد نہیں پوچھی جارہی ہے۔
انکم سرٹفکیٹ: اس اہم ترین شرط کو پورا کرنے کے لئے مقامی تحصیلدار سے انکم سرٹفکیٹ بنوانی پڑتی ہے کہ والدین کی سالانہ آمدنی سرکار کی طرف سے مقررہ اس حد کے اندر کسی عدد پر منحصر ہے۔یادرہے کہ یہ اسکالر شپ محدود تعداد(small and limited)میں ہوتی ہے اس لئے تمام اقلیتی طبقات کے چند طلبہ کوہی دی جاتی ہے۔ اب چونکہ اسکالرشپ منظور کرنے کا طریقہ سرکاری طور پر یہ ہے کہ درخواست گزاروں میں’ خط غربت سے نچلے درجے‘ (بی پی ایل) والے جن طالب علموں کے والدین کی سالانہ آمدنی سب سے کم ہوگی، انہی کوترجیحی طورپر اسکالرشپ منظور کی جائے گی۔پری میٹرک اسکالرشپ میں پہلی تا ساتویں جماعت تک طالب علم کو سالانہ 1ہزار روپے ملتے ہیں اور آٹھویں جماعت سے دسویں جماعت تک 5ہزار یا اس سے کچھ زائد رقم سالانہ وظیفے کے طور پر ملتی ہے۔جبکہ کالج طلباء کے سالانہ 10ہزار روپے وظیفہ دیا جاتا ہے، جس میں کالج کی فیس 7ہزارروپے اوردیگر اخراجات (maintainance) کے بطوردس مہینوں کے لئے 300تا 500 روپے ماہانہ وظیفہ دیاجاتا ہے ۔
کم آمدنی والے سرٹفکیٹس: اسکالر شپ منظور کرنے کے اس سرکاری طریقہ کار کو ذہن میں رکھ کر انکم سرٹفکیٹ کم سے کم آمدنی درج کرکے بنایا جاتا ہے تاکہ طالب علم اسکالرشپ کا حقدار بن جائے۔اسکالرشپ کی درخواستیں داخل کرنے میں تعاون کرنے والے ایک سوشیل ورکر سے ملنے والی اطلاع کے مطابق آج کل اکثر و بیشتر سالانہ آمدنی 30تا 40ہزار روپے کے اندر محدود رکھی جاتی ہے۔جس کا مطلب یہ ہوا کہ طالب علم کے والدین کی تمام ذرائع سے ہونے والی ماہانہ آمدنی ڈھائی ہزارتا ساڑھے تین ہزار روپے ہوگئی !(کیا یہ بات حقیقت سے قریب ہوسکتی ہے؟!)کہاجاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ سالانہ 80تا 90ہزار روپے آمدنی کے سرٹی فکیٹ بھی بنوائے جاتے ہیں جس کا مطلب ماہانہ آمدنی سات یاآٹھ ہزارروپے تک محدود ہے(سچائی یہ ہے کہ بعض خاندانوں کے معاملے میں یہ بھی اصل سے بہت ہی کم دکھانے والی بات ہوتی ہے!) اور اس صورت میں اس طالب علم کے نام اسکالر شپ منظور ہونے کے امکانا ت معدوم ہوجاتے ہیں کیونکہ اس سے کم آمدنی والے سرٹفکیٹ پیش کرنے والوں کا نمبر لگ چکاہوتا ہے۔
جھوٹا حلف نامہ: میں اس بات کا چشم دید گواہ ہوں کہ آج سے دو سال پہلے تک انکم سرٹی فکیٹ کے ساتھ والدین کی طرف سے ایک حلف نامہ (affidavit)بھی داخل کرنا ضروری ہوا کرتا تھا۔ اور اس حلف نامے میں سالانہ آمدنی 1200روپے سے 12000تک کے درمیان درج کی جاتی تھی۔ چونکہ یہ حلف نامے اسکولوں کی سطح پر تیار کیے جاتے تھے اس لئے والدین حلف نامے کے مندرجات پڑھے بغیر ہی اس پر دستخط کردیتے تھے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کافی بڑی آمدنی کا ذریعہ مہیا کیے جانے کے باوجود محض چند سو یا ہزار روپوں کے لئے والدین کی جانب سے یہ جھوٹا حلف نامہ داخل کیا جاتا تھا۔خیر سے اب تحصیلدار کی طرف سے جاری کیا گیا انکم سرٹی فکیٹ ہی کافی ہوتا ہے۔ مگر یہ انکم سرٹی فکیٹس بھی حقیقی آمدنی کے بجائے اکثر و بیشتر فرضی طور پر کم آمدنی بتانے والے ہوتے ہیں۔
کیا یہ اخلاقی اور شرعی اعتبارسے صحیح ہے؟: سوچنے والی بات یہ ہے کہ جن والدین کو اللہ نے بے انتہا نوازا ہے۔ جن کی آمدنی کم ازکم تین چار لاکھ روپے یا اس سے زیادہ سالانہ ہوتی ہے۔جواپنے بچے کے لئے پرائیویٹ اسکولوں کی ٹیوشن فیس، ٹیمپو فیس اور دیگر لوازمات پر سالانہ فی کس چالیس سے پچاس ہزار روپے ادا کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔اللہ کی اس نوازش پر شکرگزاری کے بجائے چند سو یا ہزار روپے جیسی معمولی سی رقم کے لئے ان کا کفران نعمت کا مرتکب ہونا اخلاقی ا ور شرعی اعتبار سے کہاں تک درست ہوسکتا ہے۔مجھے یاد ہے کہ دو تین سال قبل میں نے ایک ہائی اسکول کی جماعتوں میں جب اس پہلو کی طرف اشارہ کیا اور طلبہ کو اس کی سنگینی طرف متوجہ کیا توالحمدللہ کئی طلبہ نے اسی وقت کلاس کے اندر اپنے حلف نامے (ایفیڈیوٹس) پھاڑکر پھینک دئے تھے ۔ دراصل اسکولوں کے ذمہ داران کو چاہیے کہ وہ والدین کو اس نکتے سے آگاہ کریں۔ اور اس طرح کی آمدنی سے ہونے والی نحوست کی طرف ان کی توجہ مبذول کروائیں۔اور حقیقی ضرورتمندوں کو ہی اس کی طرف راغب کرنے کی کوشش کریں۔
شاید کہ اتر جائے کسی دل میں مری بات!
(ضروری وضاحت: اس مضمون میں درج مواد مضمون نگار کی ذاتی رائے پر مشتمل ہے۔ اس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)