سفر حجاز۔۔۔(۳۷)۔۔۔رخصتی۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

02:03PM Fri 23 Jul, 2021

 مدرستہ صولتیہ کا نام اور مجمل تذکرہ اوپر کئی بار آچکا ہے۔تمام ہندوستان میں پہلے سے مشہور ہے، مجمل تذکرہ نے دلوں میں اشتیاق بڑھادیا ہوگا، تفصیل کی نہ ان صفحات میں گنجائش نہ یہ اس کا محل لیکن یہ کہہ دینے اور آپ کے سن لینے میں کوئی حرج نہیں کہ سرزمین عرب پر ہندوستانیوں کے قائم کئے ہوئے مدارس میں سب سے زیادہ پرانی اور مشہور درسگاہ یہی ہے، مولانا رحمتہ اللہ کیرانہ ضلع مظفر نگر کے باشندہ ہنگامہ ۱۸۵۷ء سے قبل ہندوستان کے ایک نامور مناظر عالم تھے۔مشہور دشمن اسلام پادری فنڈر کو انہی نے میدان مناظرہ میں شکست دی تھی، سرکار برطانیہ کی نگاہ میں معتوب و مشکوک قرار پائے، ہجرت کرکے مکہ معظمہ چلے آئے اور یہیں کلکتہ کی فیاض و عالی ہمت خاتون صولت النساء بیگم کی مالی امداد سے ۱۲۹۱ء میں اس دینی مدرسہ کی بنیاد ڈالی اور اس   وقت سے ابتک  خدا کے فضل سے یہ مدرسہ بخوبی چل رہا ہے، زمانہ کے انقلابات بھی  قابل  دید ہوتے ہیں، سلطان عبدالعزیز خاں اور سلطان عبدالحمید خاں کے زمانہ میں مولانا کی بڑی قدر و تکریم ہوتی رہی، موجودہ حکومت حجاز کارکنان مدرسہ کے ساتھ شاید ان ۔"غلطیوں"۔ کا کفارہ کررہی ہے، لیکن مدرسہ اب بھی ماشاءاللہ اچھی حالت میں ہے، غالباﹰ بارہ سو سالانہ کی اعانت سرکار نظام اور سرکار بھوپال دونوں سے ہوتی رہتی ہے۔اٹھارہ سو سالانہ نواب صاحب چھتاری کے ہاں مقرر ہیں، اور متفرق چندے ہیں مدرسہ کی عمارتیں خاصی وسیع و عالیشان ہیں لاکھ سوا لاکھ سے کیا کم لاگت میں تعمیر ہوئی ہوں گی، سنا ہے کہ ۲۵ ہزار کی رقم سرکار آصفیہ سے یکمشت ادا ہوئی تھی، طلبہ میں حجازی، نجدی، ہندی، جاوی، مراقشی سب ہی قومیں شامل ہیں گو افسوس ہے کہ حجازیوں کی تعداد بہت کم ہے۔تعلیم شروع میں طلبہ کی مادری زبان میں ہوتی ہے۔استاد بھی مختلف قوموں کے ہیں دار المطالعہ میں اس وقت ہمدرد جاتا تھا، سچ۔ (اور اس کے بعد صدق) ۔جارہا ہے۔اور بھی ہندوستان کے مختلف پرچے بحیثیت مجموعی ہندوستانیوں کا ایک اچھا خاصا مرکز ہے ۔

ناظم مدرسہ مولانا محمد سعید صاحب کیروانوی اس وقت رخصت پر اپنے وطن میں ہیں قائم مقام مولوی محمد سلیم صاحب کے حسن  و اخلاق کا تذکرہ بار بار آچکا ہے ، مدرسہ باوجود اپنے موجودہ ذرائع آمدنی کے اہل خیر کی امداد کی ضرورت سے بےنیاز نہیں۔

خیر البلاد میں ہندیوں ہی کا ایک دوسرا قابل ذکر مدرسہ، مدرسہ فخریہ عثمانیہ ہے، یہ مدرسہ تاجدار دولت آصفیہ میر عثمان علی خاں بہادر آصف جاہ کے اسم گرامی کے ساتھ منسوب ہے اور حرم سے بالکل متصل بلکہ کہنا چاہیئے کہ حرم شریف کے اندر ہی باب ابراہیم کے بالاخانہ کی چھت پر اس کے کمرے واقع ہیں۔ان کمروں میں اگر نماز پڑھی جائے تو گویا حرم شریف ہی کی نماز سمجھی جاتی ہے، طلبہ میں ہندی، حجازی، جاوی سب کے بچے شامل ہیں، دوسو روپیہ ماہوار سرکار نظام سے اور سوا سو روپیہ ماہوار غالباﹰ دربار بھوپال سے امداد ملتی رہتی ہے کچھ متفرق چندوں سے ملتا رہتا ہے۔موسم حج میں مکان مدرسہ کرایہ پر اٹھادیا جاتا یے، اور چونکہ حاجیوں کے لیے بہترین موقعہ پر واقع ہے اس لیے کرایہ خاصہ معقول وصول ہوجاتا ہے۔۴۱ھ، ۴۲ھ میں دو دو ہزار سے اوپر کی رقمیں حاصل ہوئیں مجموعی آمدنی اوسطاً ۷، ۸ ہزار سالانہ کی رہتی ہے۔

مصارف بھی ۶، ۷ ہزار سے کم نہیں ہوتے، ۴۳ ھ میں آمدنی بہت ہی کم ہوئی تھی، مالی حالت قابل اطمینان نہیں، اہل خیر کی توجہ و التفات کی ضرورت ہے۔مدرسہ کے مہتمم قاری محمد اسحاق صاحب مدرسہ کی رپورٹ ہمدرد پریس دہلی میں چھپواتے تھے ان کے نام سے واقفیت اس ذریعہ سے ہوئی۔پھر ایک بار غالباً ۴۷   ھ میں حیدرآباد میں سرسری ملاقات بھی ہوئی تھی بڑے مستعد کارگزار، صاحب ہمت اور خدمت گزار شخص ہیں، مدرسہ کی ترقی کے لیے بڑے بڑے منصوبے رکھتے ہیں۔لیکن بیچارے بے زری اور تہدستی سے معذور ہیں مدرسہ کی عمارت اپنی ذاتی نہیں، کرایہ کے مکان میں ہے اور مصارف کی سب سے بڑی مدیہی کرایہ عمارت ہے ایک ایک سال میں بارہ بارہ تیرہ تیرہ سو روپیہ کرایہ دینا پڑتا ہے۔ہندوستان کے جو اہل کرم مدد کرنا چاہیں وہ حاجی عبدالغفار صاحب کوٹھی علی جان صاحب مرحوم، چاندنی چوک دہلی یا حاجی عبداللہ بھائی رحیم صاحب، ناگ دیوی اسٹریٹ بمبئی کے ذریعہ سے روپیہ مدرسے کے نام بھیج سکتے ہیں۔

مکہ میں ان دونوں کے علاوہ اور بھی مدرسے ہیں لیکن ان تک پہونچنے کا نہ وقت ملا، نہ ان کے باب میں کوئی مفصل واقفیت حاصل ہوئی، مکہ محض عبادت گاہ نہیں، اچھا خاصا وسیع متمدن شہر ہے، مدرسے اسپتال، موٹریں سائیکلیں، بجلی کی روشنی، پنکھے، برف، پریس، ہوٹل، غرض سارے لوازم تمدن موجود، عبادات سے اگر قطع نظر کرکے محض تمدنی حیثیت سے نگاہ دوڑائی جائے تو یہ معلوم ہی نہ ہوگا کہ حجاز کا کوئی شہر ہے بس یہ معلوم ہوگا کہ لکھنؤ یا کانپور یا آگرہ میں بیٹھے ہوئے ہیں، بہت وسیع بازار جس میں اعلیٰ سے اعلیٰ ولایتی کپڑا ہر قسم کا موجود بہتر سے بہتر کھانے کی دوکانیں، اور ہوٹل، تلاش کی جائے تو ہر مذاق کا کھانا مل سکتا ہے، مٹھایاں پھل اور میوے بہ افراط تار گھر ہے، ٹیلیفون ہے اور غالباﹰ لاسلکی کا بھی اسٹیشن موجود ہے، علاج ترکوں کے زمانہ سے عموماً ڈاکٹری ہونے لگا ہے، تاہم یونانی طبیبوں کی بھی کمی نہیں اور دہلی کے دواخانوں سے آئی ہوئی یونانی دوائیں بھی اچھی، اور قابل اطمینان مل جاتی ہیں، دہلی، اودھ، پنجاب، دکن، بمبئی، گجرات غرض ہندوستان کے ہر صوبہ اور ہر گوشہ کے باشندے اچھی خاصی تعداد میں آباد، اور ہندوستان کی یاد کو تازہ رکھے ہوئے ہیں حکومت وقت کی عنایت قدرۃً گروہ اہل حدیث پر زائد ہے، اور جس کا اس گروہ سے کچھ بھی تعلق ہے وہ فی الجملہ صاحب رسوخ و اثر ہے، مصری اخبارات و رسائل کے علاوہ ہندوستان سے اردو کے پرچے بھی اچھی خاصی تعداد میں جابجا آتے رہتے ہیں۔ایک ہفتہ وار اخبار اُم القریٰ کے نام سے نکلتا ہے، ہر جمعہ کو شائع ہوتا ہے، دفتر حرم شریف سے قریب ہے، ولیعہد کے محل کی پشت پر واقع ہے سچ سے تبادلہ ہے وقت ہوتا تو اندر جاکر مدیر سے ملاقات کی جاتی، اور دفتر کے حالات کا مشاہدہ ہوتا، باہر سے تو دفتر کی عمارت خاصی شاندار معلوم ہوتی ہے پرچہ کی حیثیت نیم سرکاری بلکہ کہنا چاہیئے کہ سرکاری ہی ہے، بڑی تفطیع کے چار صفحے ہوتے ہیں، ہر صفحہ میں پانچ کالم، حجاز میں سالانہ چندہ ۳ ریال ہے اور باہر کے لیے ۶ ریال ہے (ایک ریال سعودی انگریزی سکہ میں ۱۸ آنے کا ہوتا ہے یا کچھ زائد) جو لوگ حج و حجاز کے متعلق سرکاری اطلاعات سے باخبر رہنا چاہتے ہیں، ان کے لیے اس کا مطالعہ ضروری ہے۔

حاجیوں کو عموماً حج سے فراغت کے ساتھ ہی مکہ سے روانگی کی جلدی پڑجاتی ہے۔کچھ مدینہ جانا چاہتے ہیں۔اور کچھ وطن واپس ہونا، ٹھہرنے والے بہت ہی کم ہوتے ہیں۔بعض بزرگوں کے ارشادات بھی اسی قسم کے ہیں کہ حج کے بعد ہی روانہ ہوجانا چاہیئے زیادہ قیام نہ کرنا چاہیئے، حضور ﷺ نے صحابہ سے بھی بعد حج صرف تین دن کے لیے قیام فرمایا تھا، ہم لوگوں کو واپسی کی عجلت تھی اور پروگرام یہ تھا کہ جدہ سے پہلے ہی جہاز پر روانہ ہوجائیں گے، منشی احسان اللہ خاں صاحب نے کہہ رکھا تھا کہ پہلے جہاز پر جگہ ملنے کی ذمہ داری صرف اسی صورت میں کی جاسکتی ہے کہ جلد سے جلد یعنی ۱۳/ کو جدہ آجاؤ۔منیٰ سے ہم لوگ ۱۲/کی شام کو مکہ واپس آگئے تھے اور خیال یہ کئے ہوئے تھے کہ ۱۳/ ہی کو کسی وقت جدہ پہونچ جائیں گے، موٹر کا دو ڈھائی گھنٹہ کا راستہ ہے۔بات ہی کیا ہے جس وقت چاہیں گے چل کھڑے ہوں گے۔۔۔۔تجربہ سے معلوم ہوا کہ یہ محض حسن ظن تھا واپسی اتنی آسان ہرگز نہیں جتنی ہم لوگ سمجھے ہوئے تھے پہلی بات تو یہ معلوم ہوئی کہ واپسی کے لیے سواریاں اس وقت مل سکتی ہیں جب پہلے منشور سلطانی

جاری ہولے، بغیر فرمان شاہی جاری ہوئے کسی سواری کا ملنا خلاف قانون ہے اور فرمان کے لیے یہ لازمی نہیں کہ اس کا اجرا۱۳ کو ہوجائے، اخیر خدا خدا کرکے ۱۴/ کو فرمان جاری ہوا، اور اس کے بعد اب معلم صاحب کے شتر غمزوں سے ایک بار پھر سابقہ شروع ہوا۔

مدینہ سے روانگی کے وقت سواری کے دستیاب ہونے میں جو جو زحمتیں پیش آتی تھیں، ان کا تذکرہ اپنے مقام پر آچکا  ہے، خیال یہ تھا کہ مکہ پایہ تخت سلطانی ہے، یہاں کے انتظامات بہت بہتر ہونگے اور ہر طرح نظم و باقاعدگی ہوگی تحریر سے معلوم ہوا کہ اس زمین کا بھی آسمان وہی ہے۔الحرمین کمپنی جس کی لاریوں پر جدہ سے مدینہ گئے تھے اور مدینہ سے مکہ پہونچے تھے اس کا معاہدہ ختم ہوچکا تھا اب نئی سواری کا انتظام کرنا تھا۔اور یہ یاد رہے کہ سواری کا انتظام معلم ہی کی معرفت ہوسکتا ہے۔براہ راست کوئی حاجی اپنی سواری کا انتظام نہیں کرسکتا، کرنا چاہے تو سواری والا سیدھے منھ بات بھی نہ کرے گا۔بلاوساطت معلم سواری کا انتظام قانون حکومت کا جرم ہے۔ایک تاجر عبدالحمید کتبی ہندی ہیں، ان کے نام بمبئی سے چلتے وقت سیٹھ عمر بھائی چاند بھائی نے تعارف نامہ لکھ دیا تھا، ان کی لاریاں چلتی ہیں، ان سے درخواست کی اور بار بار کی پہلے تو بہت اخلاق سے ملے لیکن یہ خاص غرض جب پیش کی گئی تو پہلے کچھ گول سے جوابات دیئے اور کئی مرتبہ کی دوڑ دھوپ کے بعد بالآخر انکار فرمادیا، ایک تعارف نامہ دہلی کے مشہورحاجی علی جان والوں کی کوٹھی کے شیخ عبدالوہاب صاحب کے نام بھی تھا۔۱۴/کی صبح کو ان سے ملاقات کی، امداد کا وعدہ فرمایا اپنے بعض بزرگوں عزیزوں کے نام چٹھیاں لکھ دیں، ان میں سے ایک بزرگ نے جن کا نام غالباﹰ عبید اللہ صاحب تھا سواری دینے کا پورا وعدہ بھی کرلیا تھا ان کے در دولت پر خدا معلوم کتنے بار حاضری دینی پڑی، اور بالآخر یہ معلوم ہوا کہ وعدہ اور ایفائے وعدہ کے درمیان عدم تطابق صرف ہندوستان ہی کے لیے مخصوص نہیں بلکہ بیت اللہ کے جوار میں بھی یہ بہ آسانی ممکن ہے۔بہرحال سارے دن کی بے نتیجہ تگ ودو کے بعد ۱۴/ کا دن بھی ختم ہوگیا، اور سواری کے بہم پہونچنے کی کوئی صورت نہ نکلی، داروغہ حبیب اللہ بیچارے نے اخلاص مندی کے ساتھ بہت کچھ مدد کرنا چاہی لیکن معلم صاحب کی ترکیبوں کے سامنے وہ بےبس تھے۔

زائد سامان اونٹوں پر لدکر ۱۴/ کی شب میں جدہ روانہ ہوچکا تھا، اب ہم لوگ تھے اور سعی واپسی وطن، صبح و شام کے اوقات اور دوپہر اور سہ پہر کے گھنٹے اسی کام کے لیے وقف تھے کہ ادھر ادھر سواری کی تلاش میں دوڑا جائے، اور ہر در سے محروم و مایوس واپس آیا جائے، کیسی نمازیں اور کہاں کے طواف، ایک سودا تھا کہ سر پر ایک چکر تھا کہ پیروں پر سوار تھا، ۱۵/ کو جمعہ کا دن تھا صبح کے اوقات تو انھیں سرگردانیوں کی نذر ہوگئے، دوپہر کو جب نماز جمعہ کے لیے حرم شریف کے اندر پہونچے ہیں تو جگہ مطلق نہیں، آج حرم شریف ماشاءاللہ نمازیوں سے کھچاکھچ بھرا ہوا ہے رکوع و سجود کا ذکر نہیں، کھڑے ہونے تک کی گنجائش نہیں، مجبوراً حرم شریف کے اندر کی جماعت کا خیال ترک کرکے باب ابراہیم کے بالاخانہ پر مدرسہ فخریہ عثمانیہ کے جو کمرے ہیں ان میں چڑھ گئے اور قاری اسحاق صاحب مہتمم مدرسہ کے لطف و کرم سے کسی نہ کسی طرح یہاں جگہ مل گئی فاصلہ اس قدر تھا اور باہر سڑکوں پر شور و ہنگامہ اتنا کہ تکبیر کی آواز تک نہيں سنائی دیتی تھی، الٹے سیدھے جس طرح بن پڑا کسی طرح نماز ادا ہوگئی۔سہ پہر کو مدرسہ کا سالانہ جلسہ تھا، اس تقریب سے یہاں بعد عصر پھر آنا ہوا اور اس وقت ہر طرف سے عاجز و مجبور ہوکر یہیں اس مضمون کا تار قاری اسحاق صاحب کی وساطت سے منشی احسان اللہ صاحب انگریزی وائس کانسل جدہ کے نام دینا پڑا۔

"۱۳/سے برابر سواری کی تلاش ہے معلم کے کبھی نہ پورے ہونے والے وعدے ابتک یہاں روکے ہوئے ہیں"۔ خدا کی شان کہ جو "قسی القلب" اللہ سے "نڈر" تھا وہ "احسان اللہ" سے ڈر کر فوراﹰ سواری کا انتظام کرلایا اور آدھ گھنٹہ کے اندر معلم نے خود آکر یہ خبر دی کہ لاری کا انتظام ہوگیا اور اب ہم لوگ جب چاہیں روانہ ہوسکتے ہیں۔

رخصتی کا طواف طواف الوداع کہلاتا ہے۔ملک الملوک کے دربار کا یہ آخری سلام ہوتا ہے، طواف الصدور اور طواف الافاضہ اسی کے نام ہیں۔ یہ طواف وطن واپس جانے والوں پر حنفی مذہب میں واجب ہے البتہ عورتیں اپنے  خاص زمانہ میں اس وجوب سے مستثنیٰ ہیں۔یہ طواف اسی طرح ہوگا جس طرح اور سب طواف ہوتے ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ اس میں رمل نہیں، باقی سات چکر کاٹنا مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز پڑھنا، زمزم پینا، حجر اسود کو بوسہ دینا اور موقع ملے تو ملتزم سے لپٹنا یہ سب چیزیں اسی طرح بدستور، رخصت کے وقت کی بعض دعائیں جو حرم شریف کے دروازہ سے باہر نکلتے وقت پڑھی جاتی ہیں، کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں معلم اس وقت پڑھادیتے ہیں، بہتر یہ ہے کہ کعبہ سے جب روانہ ہونے لگے تو الٹے پاؤں در حرم تک آئے، حج کی مقبوليت کی، اور دوبارہ حاضری کی بار بار دعا کرے اور کعبہ سے جدائی پر آنکھیں روئیں یا نہ روئیں لیکن کم از کم دل ضرور روتا ہو، اور حرم شریف سے باہر آکر مساکین کو کچھ صدقہ بھی دے دے عصر اور مغرب کے درمیان ہم لوگوں کا سامان بندھ کر تیار ہوگیا۔مغرب کی نماز حرم میں پڑھی اور بعد نماز طواف وداع کے مراتب سے فارغ ہوئے مغرب پڑھے ہوئے کوئی پون گھنٹہ گزرا ہوگا کہ ہم لوگوں کے قدم حدود حرم شریف سے باہر آگئے یہ وقت بھی عجیب ہوتا ہے کوئی ہشاش بشاش کوئی غمگین و افسردہ کسی کا دل امیدوں اور امنگوں سے لبریز اور کسی کا قلب غم و حسرت کے بار سے دبا ہوا۔کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ اب دوبارہ آنکھوں کو یہ دربار کا ہے کو دیکھنا نصیب ہوگا، کسی کو یہ یقین کہ پھر آئیں گے، اور بار بار آئیں گے اور سو بار اگر وداع و رخصت کی تلخیاں جھیلیں گے تو ہزار بار حضوری اور وصال کی لذتیں اور حلاوتیں بھی حاصل کرینگے کوئی مغموم کہ کعبہ چھوٹ رہا ہے، کوئی مسرور کہ کعبہ ساتھ چل رہا ہے! ۔۔۔۔۔اپنی اپنی نسبت اور اپنا اپنا ظرف، کس کو خبر کہ دلوں کے مالک کی نظر میں کس کی نذر مقبول اور کس کا تحفہ قابل قبول!۔