مُحرّم کے شروع ہونے میں ابھی دومہینے سے زائد کی مدت باقی ہے۔ لیکن مُحرّم کی تیاریاں ابھی سے شروع ہوگئی ہیں۔ محرّم کے آتے ہی گویا ایک جش عید کی سی کیفیت پیدا ہوجائے گی، ہر طرف سے باجے کی آوازیں آنے لگیں گی، خوش گلوئی سوز خوانی کے پردے میں ظاہر ہونے لگے گی۔ مرثیہ خوانی کی محفلیں دھوم دھام سے آراستہ ہونے لگیں گے، ایک ایک گھر روشنی سے جگمگانے لگے گا، تعزیہ وعَلَم ، تابوت وبراق کا موسم، پورے شدومد کے ساتھ شروع ہوجاے گا، لذیذ حلوہ پکنے لگے گا، شہادت نامے پڑھے جائیں گے، فیرینی کے پیالوں کے حصے ملیں گے، کھچڑے کی دیگیں چڑھیں گی، سینے ماتم زنی کے لئے وقف ہوں گے، تعزیوں کے جلوس کی ترتیب پر خون خرابے ہوں گے،پیپل کے درختوں کی شاخیں نہ کٹنے پر بلوے ہوں گے، مسجدیں ویران، امام باڑے آباد ہوں گے، اور ستاروں کی چھاؤں میں منتیں اور مُرادیں اس آزادی وبیباکی کے ساتھ پوری کی جائیں گی، کہ خود حیا وغیر ت اپنی آنکھیں بند کرلے گی۔
یہ سب کچھ کہاں ہوگا ؟ ہندوستان کے مسلمانوں کے گھرانوں میں، کلمۂ توحید پڑھنے والوں میں، قرآن کو خدا کاسچا اور آخری ہدایت نامہ ماننے والوں میں، رسولِؐ عربی کی امت میں شہید کربلاؑ کی عظمت کرنے والوں میں۔ ان کے تعلیم یافتہ مشاہیر یہ دیکھیں گے کہ ان کے بھائی جہالت کی ان رسموں میں مبتلا ہیں، اور اصلاح کی کوشش کرنا اپنے مرتبہ سے فروتر خیال کریں گے۔ ان کے علمائے دین یہ دیکھیں گے، کہ کاغذ اور تیلیوں کے عظیم الشان مزارات کی پرستش ہورہی ہے، اور اس ڈر سے خاموش رہیں گے ، کہ لوگ کہیں ’’وہابی‘‘ نہ کہنے لگیں۔ ان کے مرشدین طریقت یہ دیکھیں گے ، کہ ہر طرف سے غیر اللہ کی پکار اور بندگی ہورہی ہے ، لیکن اپنے مرتبہ کو قائم رکھنے کے لئے زبان ہلانا نامناسب سمجھیں گے۔ ان کے اخبارات قوم کے وقت وسرمایہ کی بربادی کا نظارہ کریں گے، لیکن عوام کی مخالفت مول لینا خلاف مصلحت خیال کرکے چُپکے رہیں گے۔
دوسری قوموں سے غرض نہیں، مسلمانوں کے بھی دوسرے گروہوں سے اس باب میں واسطہ نہیں، البتہ اُس بڑے گروہ کی ، جو اپنے تئیں اہل سنت کہتاہے، خدمت میں عرض ہے، کہ آیا یہ صورت حال اس کے لئے حد سے زیادہ شرمناک، اور انتہا سے زیادہ افسوسناک نہیں؟ اس بڑے گروہ کے چھوٹے اور بڑے ، عامی اور عالم، سب سے سوال ہے، کہ آیا اس کے عقائد کے لحاظ سے یہ رواجی مُحرّم، کسی طرح بھی جائز ہے؟ اس کی تائید میں شرعی یا عقلی کوئی بھی دلیل پیش کی جاسکتی ہے؟ اس کی بدعتوں کا کوئی بھی پہلوئے جواز ہے؟ اس کی اخلاقی مضرتیں کیا بالکل واضح وصریح نہیں؟ اس کی شرعی قباحتوں میں کچھ شک ہوسکتاہے؟ اس کے مالی واقتصادی بربادی ہونے میں کسی کو کلام ہے؟ کیا شہید دشت کربلا علیہ السلام کی یادگار منانے کا یہی طریقہ ہوسکتاہے؟ کیا یہ مروجہ طریقہ اُس حق پرست بندہ کی کھلی ہوئی توہین نہیں؟ کیا اسلام میں ان مراسم شرک وبدعت کی کوئی گنجائش نکل سکتی ہے؟ کیا شریعت نے اس اسراف کو کہیں جائز رکھاہے؟ کیا احادیث نبویؐ سے مجالسِ ماتم کی کچھ بھی اجازت نکلتی ہے؟ کیا خود امام حسین علیہ السلام نے کہیں اس طریقہ کو مستحسن یا جائز بھی بتایاہے؟ اگر ان سب سوالات کا جواب نفی میں ہے، تو کیا آپ کا یہ فرض نہیں، کہ جہاں تک آپ کے امکان میں ہو، آپ اپنے بھائیوں کو ان گمراہیوں میں پڑنے سے بچائیں؟