ارباب فضل وکمال کا قافلہ۔۔۔تحریر:ڈاکٹر بدر الحسن قاسمی۔الکویت

Bhatkallys

Published in - Other

05:13PM Thu 17 Jan, 2019

گزشتہ چند ماہ کے واقعات وحوادث پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ارباب فضل وکمال کا قافلہ بڑی تیزی سے نظروں سے اوجھل ہوتا جارہا ہے اور ہر جانے والا اپنے بعد اپنے علمی دینی ودعوتی حلقے میں ایسا خلا چھوڑ کر جارہا ہے جس کا پر ہونا بظاہر اسباب ممکن نظر نہیں آتا جس سے تشویش کا پیدا ہونا طبعی ہے، شیخ الحدیث مولانا محمد یونس جونپوریؒ، مولانا محمد اسلم قاسمیؒ، مولانا محمد سالم قاسمیؒ کے بعد مولانا اسرار الحق قاسمیؒ، مولانا حسیب الرحمن قاسمیؒ (شیخ الحدیث دار العلوم حیدرآباد) کے بعد اب مولانا زبیر احمد قاسمیؒ (شیخ الحدیث دار العلوم سبیل السلام) پھر نامور ادیب وباوقار عالم مولانا سید واضح رشید ندوی کی وفات کے واقعات اس طرح پے درپے پیش آئے کہ بجا طور پر یہ اندیشہ پیدا ہونے لگا ہے کہ قرب قیامت کی علامتوں میں جو پیشینگوئی کی گئی ہے کہ:‘‘إن اللہ لا یقبض العلم انتزاعاً ینتزعہ من العباد ولکن یقبض بقبض العلماء حتی إذا لم یبق عالم اتخذ الناس رؤوساً جہالاً فسئلوا فافتوا بغیر علم فضلوا وأضلوا’’ (رواہ البخاری)۔(اللہ تعالی علم کو اس طرح نہیں اٹھائیں گے کہ اسے لوگوں کے سینوں سے نکال لیں لیکن علم کو علماء کے ختم ہونے کے ذریعہ اٹھایا جائے گایہاں تک کہ جب کوئی عالم نہیں رہ جائے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا رہنما بنا لیں گے ان سے سوال کریں گے اور وہ بغیر علم کے فتوی دیں گے خودبھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے)۔اندیشہ یہ ہوتا ہے کہ شاید امت کے لئے وہی آزمائش کا لمحہ تو شروع نہیں ہوگیا ہے اور بعض دینی جماعتوں کے سربراہوں اور دیگر دین کے نام پر دنیا كمانے والوں کے جاہلانه اور گمراہ کن بیانات سے اس اندیشہ کو اور تقویت ہوتی ہے،كه علماء کی جگہ جاہل لوگ لیتے جارہے ہیں۔اس لئے بڑے دینی وعلمی مراکز کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے کہ اچھے بابصیرت اور خوف وخشیت رکھنے والے علماء کی تیاری کی طرف زیادہ توجہ دی جائے اور دینی وجاہت کے حصول کے لئے نااہلوں کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے، دینی دعوت کے اصول میں حق کی تائید کا جذبہ کار فرما ہونا چاہئے، محض نسبت اور صاحب زادگی کی بنیاد پر نااہل طالع آزماؤں کے تصرف میں بڑے دینی ادارے نہ دیئے جائیں ورنہ وہی     ع    زاغوں کے تصرف میں عقابوں کا نشیمن چلا جائے گا اور اس کے نقصانات کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہےپچھلے چند ہفتوں میں جونامور علماء اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں ان میں بعض یہ ہیں:

۱۔ مولانا حسیب الرحمن قاسمیؒ گزشتہ تین دہائیوں سے دار العلوم حیدرآباد میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز  رہے وہ اپنی نوعیت کے منفرد عالم اور فن تدریس کے نامور شناور تھے۔میں نے ان سے اس زمانہ مين استفادہ کیا تھا جبکہ وہ جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر میں استاذ تھے اور میں اپنی عمر کے ابتدائی مرحلہ میں ‘‘قدوری’’، ‘‘شرح تہذیب’’ اور ابن حاجب کی ‘‘کافیہ’’ وغیرہ پڑھ رہا تھا اور مولانا مرحوم کے یہاں ‘‘کافیہ ’’ کا درس تھا، اور مولانا نیاز احمد رحمانی، غیاث الاسلام رحمانی فخر العالم دلاور پوری اور ضیاء اللہ ہزاری باغ وغیرہ میرے رفقائے درس تھے اور میری عمر ان سبھوں سے کم تھی۔ اب تو ان میں سے بھی کئی اللہ کوپیارےہوگئے ہیں۔مولانا کے طرز کی نقالی کا شوق بھی ہم لوگوں کو تھا جس کا مظاہرہ تکرار کے دوران  هوتا جب چند ساتھی باہم پڑھے ہوئے اسباق کا اعادہ کرتے یا امتحان کی تیاری کرتے ہوتے۔جامعہ رحمانی اس زمانہ میں حضرت امیر شریعت رابعؒ مولانا سید منت اللہ رحمانی کی قائدانہ اور مؤثر شخصیت کی وجہ سے بقعہ نور بنا ہوا تھا اور بڑے باکمال اور ماہر اساتذہ ہم لوگوں کی تعلیم وتربیت پر مامور تھے جن میں مولانا اکرام علی صاحب (سابق شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ ڈابھیل) مولانا فضل الرحمن قاسمی (سابق استاذ حدیث دار العلوم سبیل السلام) مولانا مفتی محمد یحییٰ (سابق مفتی امارت شرعیہ واستاذ حدیث دار العلوم حیدرآباد)۔مولانا سید ابو اختر صاحب مولانا شمس الحق صاحب  اور صاحب تذکرہ مولانا حسیب الرحمن صاحب یہ ایسے قابل اور لائق وفائق اساتذہ تھے جن کی مثال  ملک کے بڑے تعلیمی اداروں میں بھی بمشکل ہی مل سکتی ہے خاص طور پر مولانا اکرام علی صاحب  اور مولانل شمس الحق صاحب بڑے باکمال اساتذہ میں تھے اور مفتی محمد یحییٰ صاحب ملک کے نامور مفتیوں میں شمار کئے جاتے تھے پھر حضرت امیر شریعت ؒ نے ان اساتذہ کے لئے بڑا ہی پرسکون ماحول فراہم کررکھا تھا اور وقت کے مسائل پر اساتذہ کے ساتھ ان کی مجلسیں بڑی ہی عالمانہ مفید اور نتیجہ خیز ہوا کرتی تھیں۔پھر یہ سارے ہی اساتذہ بکھر گئے اور مولانا حسیب الرحمن صاحب اور مفتی یحییٰ صاحب نے حیدرآباد کو اپنا آشیانہ بنالیا مولانا فضل الرحمن قاسمي صاحب بھی یہیں رہے۔مولانا حسیب الرحمن صاحب نے مولانا عاقل حسامیؒ صاحب کے مدرسہ دار العلوم حیدرآباد میں ۳۱ سال گزار دیئے اور شیخ الحدیث کے منصب پر فائز رہے۔صحت کی خرابی کے بعد اپنے وطن بہار منتقل ہوگئے تھے اور وہیں ان کا وقت موعود آگیا اور طبعی عمر پوری کرکے وہیں اس دنیا سے رخصت ہوگئے، اللہ تعالی انہیں غریق رحمت کرے اور فردوس بریں میں جگہ دے آمین۔

۲۔ مولانا زبیر احمد قاسمی مولانا زبیر احمد قاسمی بھی تقریباً بیاسی (۸۲) سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے، اور ان کے جانے سے علماء دین کے حلقہ میں زبردست خلا پیدا ہوگیا ہے۔مولانا زبیر احمد قاسمی صاحب نامور عالم بلند پایہ فقیہ اور ہر علم وفن میں کمال رکھنے والے ایسے ماہر استاذ تھے کہ ان سے پڑھنے والے اور علمی استفادہ کرنے والے فخر محسوس کیا کرتے تھے۔انہوں نے طویل عرصہ تک اپنے علاقہ کے مدرسہ ‘‘اشرف العلوم کنہواں’’ کو ترقی دینے میں بھرپور حصہ لیا اور اسے پروان چڑھایا پھر جامعہ رحمانی مونگیر میں تدریس کے فرائض انجام دیئے اور اس کے بعد مولانا محمد رضوان القاسمیؒ کی گزارش پر وہ سبیل السلام حیدرآباد تشریف لے آئے اور شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوئے۔اس کے علاوہ اسلامک فقہ اکیڈمی کے رکن تاسیسی کی حیثیت سے بہت سے فقہی موضوعات پر اپنی گرانقدر تحقیقات سے بهي لوگوں کو بہرہ ور کیا اور ان کے فقہی مقالات ‘‘صفا’’ ، ‘‘بحث ونظر’’ اور اکیڈمی کے فقہی مجلات اور سمیناروں کی زینت بنتے رہے۔ان کے تدریس کا انداز جس قدر نرالا اور موثر تھا اسی طرح فقہی موضوعات پر قلم بھی بے حد روانی سے چلتا تھا اور اہل علم اس سے فیضیاب ہوتے تھے وه کسی مسئلہ پر گفتگو کے دوران اس کی تمام شقیں سامنے رکھتے اور اپنا نقطۂ نظر مرتب انداز پر پیش کرتے تھے۔ان کے لکھے ہوئے مقالات عام طور پر حشو وزوائد سے پاک اور نقاط متعین کرکے لکھنے کی وجہ سے بے حد واضح اور مدلل ہوا کرتے تھے جس پر انگلی اٹھانے یا اختلاف کرنے کی گنجائش بہت کم رہ جاتی تھی۔متعدد فقہی واصولی موضوعات پر ان کی تحقیقات اوپر ذکر کردہ مجلات میں دیکھي جاسکتي ہیں۔مولانا مرحوم کو قریب سے دیکھنے اور ان کے ساتھ بے تکلف مجلسوں میں بیٹھنے کا موقع اس وقت ملا جب وہ سبیل السلام میں شیخ الحدیث کی حیثیت سے موجود تھے اورکویت پر عراق کے فوجی حملہ کی وجہ سے میں کویت سے وابس آکر مدرسہ کے قریب ہی کرایہ کے ایک مکان میں مقیم تھا۔فقہ اکیڈمی کے سمیناروں اور انتظامی اجلاسوں میں بھی ان سے ملاقات اور خوش گوار ماحول میں گفتگو کا موقع ملتا رہا ہے۔ان کی تحریروں میں:• یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ• نوٹ کی شرعی حیثیت• قسطوں پر خریدوفروخت کے احکام• اور وقف کے استبدال وغیرہ کے مسائل۔خاص طور پر قابل ذکر ہیں  اور ان سے مولانا کی فقہی بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے اور مشکل مسائل کے تحلیل وتجزیہ اور ان کی ممکنہ شقوں پر گہرائی کے ساتھ نظر ڈالنے اور ان کے احکام متعین کرنے میں ان کی مہارت قابل داد وتحسین نظر آتی ہے۔چند سال پہلے شیخ الحدیث کے منصب كو چھوڑ کر وہ اپنے محبوب مدرسہ ‘‘اشرف العلوم’’ کی تعمیر وترقی کے لئے وطن لوٹ گئے تھے۔اور جب مدرسه کا سو سالہ اجلاس کامیابی کے ساتھ ہوگیا تو انہوں نے قلبی راحت اور ذہنی سکون محسوس کیا کسے خبر تھی كه ان کی عمر عزیز کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور وہ جلد ہی مالک حقیقی کی  آغوش رحمت میں جانے والے ہیں، اللہ تعالی فردوس بریں میں جگہ دے اور ان کی بے لوث دینی خدمات ان کے درجات کی بلندی کا ذریعہ بنیں۔

 ۳۔ مولانا سید واضح رشید ندویؒ دار العلوم ندوۃ العلماء کے معتمد تعلیم عربی کے نامور ادیب بلند پایہ صحافی تجزیہ نگار اور عربی زبان وادب کے اپنے انداز کے منفرد استاذ بھی جنوری کی ۱۶ تاریخ کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔مولانا محمد الحسنی مرحوم کے منفرد اسلوب کے بعد ندوۃ العلماء کے حلقہ میں اچھی اور قابل تقلید عربی لکھنے والے مولانا سید واضح رشید صاحب ہی تھے۔‘‘صور وأوضاع ’’ کے عنوان کے تحت مختلف سیاسی واجتماعی واقعات وحالات پر ان کے تبصرے بڑے موزوں اور بصیرت افروز ہوا کرتے تھے۔ نصف صدی سے زیادہ عرصہ سے ‘‘البعث’’، ’’الرائد’’ وغیرہ کی کامیاب ادارت وسرپرستی ان کے ذمہ رہی ہے۔‘‘البعث الاسلامی’’ کی ادارت میں وہ محترم مولانا سعید الرحمن اعظمی کے معاون رہے اور اپنی ادبی نگارشات سے مختلف مجلات وجرائد کو زینت بخشتے رہے۔اس کے علاوہ ان کی متعدد تصنیفات اور پھر تدریس کے مخصوص انداز نے ندوہ کے حلقہ میں ان کو طلبہ اور اساتذہ سبھوں کے نزدیک بے حد مقبول بنائے رکھا اور ان کی شخصیت بے حد ہردل عزیز رہی ہے۔ان کی پیدائش ۱۳۵۰ھ مطابق ۱۹۳۲ء کی تھی اور ان کی وفات ۱۶ جنوری ۲۰۱۹ء مطابق ۱۰ جمادی الاولی ۱۴۴۰ھ کو ہوئی اس طرح ان کی عمر تقریباً ۹۰ سال کی تھی کہ انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا وقفہ کے بعد ان سے کبھی ملاقات مکہ مکرمہ ہندوستان یا پھر کویت میں ہوتی رہی ہے اور ہمیشہ ان کے تواضع علمی وقار اور بلند اخلاق کا خاص اثر محسوس ہوا اور ان کی عظمت کا نیا نقش دل پر قائم ہوا۔مولانا مرحوم کی دلکش پرزور وپرتاثیر عربی نگارشات، ان سے براہ راست استفادہ کرنے والے ہزاروں شاگرد اور ان کی یادگار تصنیفات ان کو دینی وعلمی حلقوں میں بقائے دوام عطا کرنے کے لئے کافی ہیں اور ان کے لئے صدقہ جاریہ کی حیثیت رکھتی ہیں، اللہ تعالی انہیں فردوس بریں میں جگہ دے اور ان کے درجات بلند فرمائے (آمین)۔حضرت مولانا سید محمد رابع الحسنی دامت برکاتہم کے لئے اس عمر میں مولانا سید واضح رشید ندوی کے فراق کا غم یقیناً انتہائی صبر آزما ہے۔حوادث اور تھے پر ان کا جاناعجب اک سانحہ سا ہوچکا ہےاللہ تعالی ان کو صحت وسلامتی کے ساتھ رکھے اور ان کے ساتھ خصوصی لطف وکرم کا معاملہ فرمائے (آمین)۔