سچی باتیں۔۔۔ علم کا مقصد۔۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ 

Bhatkallys

Published in - Other

08:24PM Fri 4 Nov, 2022

  (مولانا دریابادی کی ادارت میں سنہ ۱۹۲۵ء تا ۱۹۷۷ئ جاری سچ، صدق، صدق جدید  لکھنؤ کے ادارتی کالم سچی باتیں سے انتخاب )

1931-03-20

عن ابن عمر عن النبی ﷺ قال من تعلّم علمًا لغیر اللہ أو أراد بہ غیر اللہ فلیتبوأ مقعدہ من النار۔  (ترمذی، ابواب العلم وابن ماجہ)

حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے ، کہ رسول اللہﷺ نے فرمایاہے، کہ جس نے علم کو حاصل کیا ، غیر خدا کے لئے، یا جس نے علم کے ذریعہ سے غیر خدا کی (رضا جوئی) کا ارادہ کیا، تو اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانا بھی دوزخ ہی میں تلاش کررکھے۔

عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ من تعلّم العلم لیباہی بہ العلماء ویماری بہ السفہاء ویصرف بہ وجوہ الناس الیہ أدخلہ اللہ جہنم۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے ، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس نے علم اس غرض سے حاصل کیا، کہ اہل علم کے درمیان فخر وعزت حاصل کرے، اور بے علموں کا ناطقہ بندکرے، اور لوگوں میں نام ونمود حاصل کرے، اللہ اسے داخل کرے گا جہنم میں۔

یہ دوحدیثیں صر ف نمونہ کے طور پر نقل کردی گئیں،ورنہ اس مضمون کی احادیث، بڑی کثرت سے ، صحاح وغیر صحاح میں مل سکتی ہیں۔ ارشاد ہوتاہے ، کہ حصولِ علم کا مقصد، رضائے حق اور تمامتر رضائے حق ہی رہنا چاہئے۔ آج یہ مقصد کن طالبانِ علم کا ہے؟ آج کون اِس غرض سے علم حاصل کررہاہے؟

پھر ارشاد ہوتاہے، کہ جولوگ علم کو عالمانہ توقیر وفضیلت کی غرض سے، یا دنیوی جاہ وعزت کے لئے حاصل کرتے ہیں، ان کا ٹھکانا سوادوزخ کے اور کہیں نہیں۔امت کے سردارؐ  کا ، سب عالموں کے معلمؐ کا ، ارشادیہ تھا، امت کے افرادکا، قوم وملت کے طالب علموں کا ، عمل آج کسی درجہ میں بھی اس ارشاد کے مطابق ہے؟ آج اس پر عمل کون کررہاہے؟ کیا وہ جو بی ، اے، اور ایم، اے ، کی ڈگریاں حاصل کررہے ہیں؟ کیا وہ جو ڈاکٹری اور بیرسٹری کے ڈپلومے بڑھ بڑھ کر لے رہے ہیں؟ کیا وہ جو انجینیری اور صناعی کی سندوں کے واسطے ایک ایک سے جھگڑ رہے ہیں؟ کیا وہ جو ڈپٹی کلکٹری اور منصفی کو اپنی آرزووں کا مرکز بنائے ہوئے ہیں؟ کیا وہ جو ججی اور منسٹری کو اپنے حوصلوں کا منتہا قرار دئیے ہوئے ہیں؟ کیا وہ جو جرمنیؔ، اور فرانسؔ جاجاکر ’’ریسرچ‘‘ کرتے ہیں؟ کیا وہ جن کے ’’محققانہ مقالات‘‘ اُ ن کے لئے بڑے سے بڑے انعام واعزاز حاصل کرلاتے ہیں؟

ہمارے علمی اور تعلیمی ادارے کسی حد تک بھی ارشاد نبوی کی تعمیل میں مصروف ہیں؟ ہمارے اسکول اور ہمارے کالج، ہماری درسگاہیں اور ہماری تربیت گاہیں، ہماری’’مسلم‘‘ یونیورسٹی ، اور ہماری’’جامعہ ملیہ‘‘ ، ہماری آل انڈیا تعلیمی کانفرنس اورہماری صوبہ دار تعلیمی کانفرنسیں ، کوئی بھی اِس ارشاد کو واجب العمل سمجھ رہاہے؟ کسی نے اسے قابل التفات بھی سمجھاہے؟ اگرآج اس ہدایت سراپا سعادت پر عمل ہو، تو ہماری تعلیمی کانفرنسوں کی پُرجوش تقریروں، ہنگامہ خیز رزولیوشن سازیوں، ’’بصیرت افروز‘‘ خطبات صدارت، اور ہمارے علمی اداروں کی ساری چہل پہل ، رونق وگرم بازاری ، بزم آرائی وزور آزمائی کا طلسم زرّیں، کچھ بھی باقی رہ جائے؟