محسن کتابیں۔۔۔ تحریر: مولانا عبید اللہ سندھی

Bhatkallys

Published in - Other

12:04PM Mon 6 May, 2019

مولانا عبیداللہ سندھیؒ

            ولادت:سیالکوٹ، /۱۲ محرم  ۱۲۸۹  ھ،مطابق ۱۰ /مارچ ۱۸۷۲  ء

            مشہور مجاہد آزادی،حضرت شیخ الھندؒ کے دست راست اور معتمد خاص،جید عالم،ماہر متکلم،باکمال مفسر،مولانا عبیداللہ سندھیؒ سیالکوٹ کے ایک سکھ خاندان میں پیدا ہوئے،پندرہ سال کی عمر میں تحفۃ الھند( از مولانا عبیداللہ پائلی) اور تقویۃ الایمان(از شاہ اسماعیل شہیدؒ) پڑھ کر مسلمان ہوئے۔سندھ اور بہاولپور میں ابتدائی عربی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دیوبند پہنچ کر علوم کی تکمیل کی۔پھر حضرت شیخ الھندؒ نے دہلی بھیج کر سیاسی لیڈروں سے متعارف کرایا،دہلی میں انھوں نے ’’نظارۃ المعارف القرآنیۃ‘‘ کے نام سے ایک ادراے کی بنیاد رکھی،اس کے تحت درس قرآن کے ذریعے انقلابی جذبات کو پروان چڑھاتے رہے۔۱۹۱۵  ء میں شیخ الھندؒ نے اپنے منصوبے کی تکمیل کے لئے انہیں کابل بھیجا،جہاں پہلے سے ہندوستانی انقلابی کام کر رہے تھے،ان انقلابیوں نے وہاں آزاد ہند حکومت قائم کی،مولانا سندھی اس کے وزیر داخلہ تھے،شیخ الہند کی حجاز میں گرفتاری کے بعد ان کا بھی افغانستان میں رہنا دشوار ہوگیا،تو انھوں نے ترکی،ایران،حجاز،روس،  جرمنی وغیرہ ملکوں کا دورہ کیا،اور عالمی سیاست دانوں سے تبادلۂ خیال کر کے ہندوستان کی آزادی کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی،اس سلسلے میں روس میں مشہورکمیونسٹ لیڈر لینن سے بھی ملاقات کی۔۱۹۳۹  ء میں قانونی پابندیاں اٹھائی گئیں،تو ۲۴ برس کی جلا وطنی کے بعد ہندوستان واپس آئے،اور لاہور میں ’’بیت الحکمۃ‘‘ نام سے ایک ادارہ قائم کیا،جہاں تفسیر قرآن اور حجۃ اللہ البا  لغۃ کا آخر تک درس دیتے رہے ۔

            مولانا سندھیؒ انتہائی ذہین و طباع تھے،دماغ بڑا اسکیم ساز اور انقلابی تھا،ریشمی رومال تحریک میں زیادہ تر عملی اقدامات آپ ہی کے رہین منت ہیں۔آپ حکمت ولی اللہ کے سب سے بڑے عارف سمجھے جاتے تھے۔مشہور کتابوں میں شاہ ولی اللہ اور ان کی سیاسی تحریک،التمھید لأمۃ التجدید(عربی) ،التقصیر فی التفسیر، نیز قرآنی شعور و انقلاب (مفصلات میں سے مختلف سورتوں کی تفسیر،جمع وترتیب: شیخ بشیر احمد لدھیانوی وغازی خدا بخش) ہیں۔

            وفات:دین پور(ضلع بہاول پور)

            ۱۳ / رمضان ۱۳۶۳  ھ،مطابق ۲۳ /اگست ۱۹۴۴  ء

            مدفن: دین پور

-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

            سب سے پہلے جس کتاب نے مجھے اسلا م کے متعلق صحیح واقفیت دی،اور ہندو سوسائٹی میں رہ کر سولہ برس کی عمر سے پہلے میں مسلمان ہوگیا،وہ ’’تحفۃ الہند‘‘ہے۔تحفۃ الہند کے(میرے ہم نام)مؤلف نے ہندو مذہب کے مشرکانہ عقائد ورسوم کو نقل کرنے کے بعد ہندؤں کی طرف سے ایک اعتراض نقل کیا ہے کہ مسلمانوں میں بھی مشرکانہ اعمال و رسوم پائے جاتے ہیں،اس کا جواب مؤلف نے مختصر طریقے پر یہ دیا ہے کہ ہم نے ہندو مذہب کے بارے میں جو کچھ کہا ہے،وہ ان کی مستند مذہبی کتابوں سے ماخوذ ہے،لیکن اس کے جواب میں جو کچھ پیش کیا جاتا ہے،وہ اسلام کی مستند کتابوں سے ماخوذ نہیں ہے،بلکہ مسلمانوں کے اعمال و رسوم ہیں،جن کا اسلام ذمہ دار نہیں ہے،اور قرآن و حدیث سے ان کی کوئی سند پیش نہیں کی جاسکتی۔اس موقع پر میرے ایک ساتھی کو جو میری طرح نومسلم تھے،توجہ ہوئی کہ وہ اس بات کی تحقیق کریں کہ کیا واقعی اسلام کی مستند کتابیں اس مسئلے میں بالکل بے داغ ہیں،اور ان میں اعمال و رسوم کا کہیں ثبوت نہیں!اس موقعہ پر ایسی کتاب کی ضرورت تھی جس میں صرف قرآن وحدیث کے حوالے سے اسلام کی توحید پیش کی گئی ہو۔خوش قسمتی سے تحفۃ الہند کے بعد جو دوسری کتاب ہمارے ہاتھ میں آئی،وہ مولانا اسماعیل شہیدؒ کی ’’تقویۃ الایمان‘‘ تھی،جو اس سوال کا جواب شافی تھی،اور جس سے ہم کو معلوم ہوگیا کہ اسلام کی توحید بالکل خالص ہے،اور قرآن وحدیث مسلمانوں کے ان عمال ورسوم سے بالکل بری ہیں۔

             ان دونوں کتابوں سے میں اسلام کے متعلق ایسا صحیح عقیدہ پیدا کرسکا کہ آج تک شاید میں اس میں ایک حرف بھی اضافہ نہیں کرسکا۔

            دیوبند کی طالب علمی کے بعد’’قبلہ نما‘‘مولانا محمد قاسمؒ کی کتاب،میرے لئے ایک بڑی محسن چیز ہے۔میں یہ شبہ کبھی خود تو ذہن میں نہیں لاسکا،کہ بیت اللہ کے سجدے میں اور بت پرستی میں کیا فرق ہے؟مگر جب یہ شبہ میرے سامنے آیا تو میری طبیعت پوری اس کے حل کرنے کی طرف متوجہ ہوئی،میں قبلہ نما پڑھ چکا تو گویا میرا سارا بدن نئے ایمانی نور سے بھر گیا،اس کے بعض چیدہ چیدہ حصے آج تک میں بے نظیر مانتا ہوں،اس کتاب نے میری ذہنیت میں ایک دوسری تبدیلی پیدا کردی۔دانشمندی حاصل کرنے  میں جن مصنفین کی کتابیں مدرسوں میں پڑھی جاتی ہیں،ان کے مصنفین کا ایک خاص اثر طالب علم کے دماغ پر پڑتاہے،وہ ان کی تحقیقات کو بے نظیر چیزیں سمجھنے لگتا ہے،پھر اسی روشنی میں وہ کتاب وسنت سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔مولانا محمد قاسم کو میں نے قبلہ نما میں اس طرح پہچان لیا کہ وہ علامہ تفتازانی،میر سید شریف ایسے بزرگوں سے بہت بڑے ہیں،اگر یہ ان کی محقق چیزوں کو نہیں مانتے ،اور اپنا مسلک ان سے جدا مقرر کرتے ہیں ،اور اپنے مسلک کی پابندی میں اتنے بڑے مشکل مسئلے کو حل کردیتے ہیں،تو ان کا مسلک ان سے میرے نزدیک بہت زیادہ صحیح اور صاف ہے۔یہی جراثیم تھے جو آگے چل کر شاہ ولی اللہ صاحبؒ تک پہنچانے کے باعث بنے۔اگر میں ان درسی کتابوں کے مصنفین کی تقلید سے آزاد نہ ہوجاتا،تو کبھی شاہ ولی اللہؒ کو امام نہ مانتا۔