تجربات و مشاہدات(۵۰)۔ موسوعہ فقہیہ  كا اردو ترجمہ... ڈاکٹر بدر الحسن قاسمی

Bhatkallys

Published in - Other

07:45AM Sun 9 Jan, 2022

”كویت“ جسے خلیج كے گوہر ِتاباں كا نام دیجیے یا لالۂ صحرا كے لقب سے اسے یاد كیجیے، اس كی ایك شناخت تو وہ ہے جس نے دنیا كے سو سے زائد ملكوں اور قومیتوں كے لاكھوں لوگوں كو حصولِ رزق كے لیے كشاں كشاں وہاں پہنچا دیا ہے؛ جن میں کئی لاكھ  تو صرف ہندوستانیوں كی تعداد ہے۔ (كرونا كی آفت سے پہلے یہ تعداد تقریباً ۹/ لاكھ تك پہنچ گئی تھی)

كویت كا نام آتے ہی پٹرول كے ذخائر، دولت كی ریل پیل، فلك بوس عمارتوں، خوشنما كاروں اور جدید سہولتوں سے آراستہ مقامات كا تصور ذہنوں میں آتا ہے، جس كا محل وقوع، جس كا قابل رشک اجتماعی امن و سکون طاقتور اقتصادی حالت اور اس كی سرزمین میں پائے جانے والے قدرتی وسائل كی وجہ سے اپنے محدود رقبہ اور مختصر آبادی كے باوجود دنیا كی بڑی طاقتیں ایك طرف اس چھوٹی سی ریاست سے رشتہ جوڑنے كے لیے طرح طرح كے جتن كرتی ہیں، تو دوسری طرف اسے اپنے زیراثر ركھنے كے لیے اس كے ارد گرد اپنی  تركتازیوں كا سلسلہ بھی نہیں چھوڑتیں۔

لیكن اس چھوٹی سی بے مثال عربی و اسلامی ریاست كی ایك شناخت اور بھی ہے جو اس كے عظیم ثقافتی و علمی كارناموں نے بنائی ہے، چناں چہ اگر اس پہلو سے دیكھا جائے تو اس كے بعض كارنامے عہد رفتہ كے شاہانِ عالم كی علم پروری كی یاد دلاتی ہیں، موسوعہ فقہیہ كی تیاری، طباعت اور عالمی سطح  پر اس كی تقسیم كا عظیم كارنامہ اسی ضمن میں آتا ہے؛ جسے بجا طور پر اس كے علمی و دینی كارناموں كا شاہكار كہنا چاہیے۔

"موسوعہ" "دائرۂ معارفِ اسلامیہ" اور "انسائیكلوپیڈیا"، جیسےالفاظ اردو زبان میں اتنے عام ہوگئے ہیں كہ ان كے استعمال میں اب كوئی غرابت یا اجنبیت باقی نہیں رہی۔

مولانا ابو الكلام آزاد نے اپنے مشہورِ زمانہ مجلہ ”الہلال“ اور ”البلاغ“ كے ذریعہ "محیر العقول ”حظ و كرب "لذت والم" التحول الفجائی“  (۱)جیسے نہ جانے كتنے عربی كے الفاظ رائج كیے، جن میں بعض زبان كا جزء بن گئے ہیں اور بعض عام اردو بولنے والوں  كی زبان پر نہ چڑھ سكے۔

در اصل اردو زبان كے بیشتر الفاظ عربی زبان سے لیے گئے ہیں، یا فارسی اورتركی وغیرہ سے اور اب انگریزی تہذیب و ثقافت كے غلبہ كی وجہ سے انگریزی كے اور ہندوستان میں پروان چڑھنے كی وجہ سے ہندی كے الفاظ تیزی سے زبان كا جزء بنتے جا رہے ہیں، كسی خاص اور قابل ذکر  اہتمام كے بغیر ہی زبان كے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

البتہ یہ بات طبعی ہے كہ انگریزی تعلیم كے ماحول میں پلنے والوں كے لیے انسائیكلو پیڈیا اور عربی اور دینی تعلیم كے ماحول میں رہنے والوں كے لیے ”موسوعہ“ یا ”دائرۃ المعارف“ كا لفظ زیادہ مانوس ہو۔

فقہ اسلامی كے ذخیرہ میں پائی جانے والی كتابوں كا اگر جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہو گا كہ فقہی مسائل كو مرتب كرنے كا یا فقہی موضوعات پر كتابیں تصنیف كرنے كا انداز ایك تو وہ تھا جس كی بنیاد امام محمد بن الحسن الشیبانی نے ركھی تھی اور اپنی كتابیں جامع كبیر، جامع صغیر، سیر صغیر، سیر كبیر اور مبسوط و زیادات وغیرہ كی تصنیف كے لیے اختیار كیا تھا، جس كی تقلید بعد میں آنے والے دوسرے مذاہب كے فقہاء نے بھی  كی، اور فقہی مسائل كی موضوعاتی ترتیب كا عمل جاری رہا۔

دوسرا طریقہ وہ ہے جس كے مطابق شروحات یا مذہب كی دوسری بڑی كتابیں جیسے امام سرخسی كی ”مبسوط“، امام كاسانی كی ”بدائع الصنائع“، امام ابن الہمام كی ”فتح القدیر“ یا ابن نجیم كی ”البحر الرائق“ مرتب ہوئی ہیں، ان میں فقہی مسائل كے ساتھ قواعد زبان اور بلاغت كے نكات، نقلی و عقلی دلائل كا بھی اضافہ ہو تا رہا ہے۔

متون كے شكل میں جو كتابیں لکھی گئیں  ان میں بعض اتنی مختصر ہیں كہ ان كی توضیح و تشریح كے بغیر عام لوگ ان كو ہر گز سمجھ نہیں سكتے، اس لیے شروح و حواشی كا سلسلہ فروغ پاتا رہا اور بعض متون تو حفظ كی سہولت كے لیے غیر معمولی اختصار كی وجہ سے پہیلیاں بن گئے ہیں، جن كو حل كرنے كے لیے فقہی علوم میں غیر معمولی مہارت دركار ہوتی ہے۔

چناں چہ ایك عرب ماہر قانون داں بھی اگر اسلامی فقہی ذخیرہ سے استفادہ كرنا چاہتا ہے تو اسے كئی طرح كی دشواریوں سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔

-          فقہی كتابوں میں استعمال ہونے والی اصطلاحات سے ناواقفیت۔

-          بعض كتابوں میں مسائل كے بیان كرنے میں حد سے زیادہ اختصار، جو سمجھنے میں ركاوٹ ہے۔

-          موضوعاتی حیثیت سے كتابوں كی ترتیب كے باوجود بے شمار مسائل كا غیر متعلقہ ابواب میں پایا جانا؛ جہاں تك رسائی ایك ماہرفقیہ كے علاوہ دوسروں كی نہیں ہو سكتی، ساتھ ہی طویل و ضخیم، فقہی كتابوں كا جدید طرز كی فہرستوں سے عام طورپر خالی ہونا نئے تعلیم یافتہ لوگوں كے لیے خاصی دشواری كا باعث بنتا ہے۔

مثال كے طور پر مصر كے نامور قانون داں اور اسلام كے فوجداری قوانین پر شہرہ آفاق كتاب ”التشريع الجنائي في الإسلام“ كے مصنف عبد القادر عودہ كی كتاب كا مقدمہ دیكھئے تو اندازہ ہو گا كہ فقہی كتابوں كی روایتی ترتیب كی وجہ سے اس طرح كے لوگوں كو كیسی بے بسی كا سامنا كرنا پڑتا ہے۔

جب ایك مسلم اور دینی ذہن ركھنے والے عرب قانون داں كا یہ حال ہے تو عام پڑھے لكھے طبقہ یا غیر مسلم قانون داں اور مستشرقین وغیرہ كے لیے ان كتابوں كا صحیح طور پر سمجھنا یا اسلامی قانون كے مختلف پہلوؤں كے بارے میں صحیح نتیجہ تك پہنچنا اور كتنا دشوار ہو گا، اس كا اندازہ لگانا مشكل نہیں ہے۔

در اصل موسوعہ فقہیہ كی تدوین كا محرك اسلامی قانون كے نفاذ میں سہولت پیدا كرنے كے ساتھ روایتی دینی مدارس اوریونیور سیٹیوں میں  شریعت كالج كے طلبہ و اساتذہ كے دائرے سے باہر بھی، اسلامی فقہ كی افادیت كو عام كرنا اور اسلامی قانون كی عظمت سے دیگر قوموں سے تعلق ركھنے والے قانون دانوں كو روشناس كرانا بھی تھا چنانچہ  شروع سے یہ پہلو  اس كےبنیادی  مقاصد میں شامل ہے  ہے۔

کہا جاتا ہے كہ موسوعہ كے طرز پر كتابوں كی ترتیب سے شریعت اور اسلامی فقہ كی اعلیٰ تعلیم حاصل كرنے والے طلبہ، ان كی تربیت كرنے والے اساتذہ، افتاء اور قضاء سے وابستہ علماء تحقیقی موضوعات  اورایم اے اور ڈاکٹریٹ کے مقالات لکھنے والے ریسرچ اسکالروں  كے لیے كم سے كم وقت میں زیادہ سے زیادہ مسائل اور ان كے مآخذ تك رسائی آسان ہو گئی ہے۔

موسوعہ فقہیہ كی45 جلدوں میں تیرھویں صدی تك كے فقہی   ذخیرہ كا    خلا صہ مرتب کرنے کی کوشش کی گئی ہے  اوراس میں  چاروں معروف فقہی مذاھب کی  تدوین عمل میں آئی ہے، عصر حاضر میں میڈیكل سائنس كی دنیا میں ہونے والی ترقیات، و سائل معلومات و مواصلات یا كمپیوٹر او ر انٹر نیٹ كی سہولتوں كی وجہ سے تجارتی و اقتصادی دنیا میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل كا حل تلاش كرنے كے لیے موسوعہ كی تدوین كے منصوبہ كے مطابق نئے مسائل كے احكام پر مشتمل ضمیمے كا انتظار كرنا چاہیے، جو اصولی ضمیمہ كی تكمیل كے بعد مرتب كیا جائے گا۔

موسوعہ فقہیہ مذاہب اربعہ: حنفی، مالكی، شافعی اور حنبلی فقہ پر موجود قدیم كتابوں كے ذخائر كا خلاصہ ہے؛ جسے موجودہ زمانے كے اسلوب میں پیش كرنے كی كوشش كی گئی ہے؛ تاكہ اختصاص نہ ركھنے والے لوگ بھی اسلامی فقہ سے استفادہ كر سكیں اور كسی بھی اصطلاح سے متعلق معلومات كی تلاش میں ان كو دشواریوں كا سامنا نہ كرنا پڑے۔

موسوعہ فقہیہ كی تدوین كے خیال كا اظہار مشہور عالم شیخ محمد راغب الطباخ نے ”الإفصاح“ كے مقدمہ میں اور پھر نامور فقیہ شیخ محمد حسن الدجوی نے ”فقہ اسلامی كی اہمیت“ كے عنوان سے شائع ہونے والے اپنے ایك مضمون میں ۱۳۴۹ھ میں كیا تھا؛ لیكن اس خیال كو تقویت ۱۹۵۱ء میں پیرس میں "فقہ اسلامی كے ہفتہ" كے عنوان سے منعقد ہونے والی كانفرنس كے بعد سے ہوئی اور اس كام كی انجام دہی كے لیے خاكہ بنانے كا سلسلہ شروع ہوا۔

پیرس كی اس كانفرنس میں ایك طرف دنیا كے مشہور قانون داں، اور متعدد یورپی مستشرقین موجود   تھے تو دوسری طرف عالم اسلام كے نامور فقہاء شیخ محمد ابو زہرہ، ڈاكٹر معروف الدوالیبی، ڈاكٹر مصطفیٰ الزرقا وغیرہ بھی  شریك تھے۔

اس كانفرنس كے شركاء كو شدت سے اس بات كا احساس ہوا كہ مغربی دنیا اسلام كے قانونی ذخیرہ اور اسلامی فقہ سے استفادہ سے محروم ہے؛ چناں چہ اس راہ كی ركاوٹ كو دور كرنے كے لیے ایك جامع موسوعہ فقہیہ كی تدوین ضروری ہےغیر مسلم قانون دانوں کی طرف سے اس کامطالبہ بھی ہے

اس كے بعد پہلی كوشش شام میں شروع ہوئی اور صدارتی فرمان كے مطابق دمشق یونیورسٹی كے ”كلیۃ الشریعۃ“ میں اس كے لیے ڈاكٹر مصطفیٰ السباعی كی قیادت میں ایك كمیٹی تشكیل  دی گئی اور كمیٹی كی كوششوں سے بعض تمہیدی چیزیں شائع بھی ہوئیں۔

شام كے بعد مصر میں بھی اس پروجیكٹ كی تكمیل كے لیے اسلامی امور كی سپریم كونسل كو مامور كیا گیا، جہاں سے آٹھ مذاہب پر مشتمل "موسوعہ جمال عبد الناصر" كی متعدد جلدیں   شائع ہوئیں؛ لیكن كام ابھی تك تكمیل كے مرحلہ تك نہیں  پہنچ  سكا اور ابجدی ترتیب كے لحاظ سےآدھی كتاب بھی تیار نہیں ہو سكی

۱۳۸۶ھ، مطابق ۱۹۶۸ء میں كویت كی حكومت نے اس كام كا بیڑا اٹھایا اور كابینہ كے فیصلے كے مطابق وزارتِ اوقاف و اسلامی امور كو یہ كام سونپا گیا، اس كے لیے ایك بڑا بجٹ منظور كیا گیا اور متعدد نامور فقہاء كو گراں قدر تنخواہیں دے كر اس كام كی تكمیل كے لیے كویت بلایا گیا اور اس كام كو نہایت خوش اسلوبی كے ساتھ انجام كو پہنچایاگیا جس كا ثمرہ آج آپ كے سامنے ہے۔

یہ محض اللہ تعالیٰ كی توفیق اور اس كا فضل ہے كہ جو كام برسوں كی كوشش كے باوجود شام و مصر میں انجام نہ پاسكا، وہ كارنامہ كویت میں پایۂ تكمیل كو پہنچ گیا، موسوعہ كی تكمیل میں مصر و شام اوراردن كے متعدد علماء نے حصہ لیا ہے، جن میں ڈاكٹر مصطفیٰ الزرقاء، شیخ بدر متولی عبد الباسط،  ڈاكٹر محمد سلام مدكور، ڈاكٹر حسن الشاذلی، ڈاكٹر محمد رواس قلعہ جی، ڈاكٹر عبد الستار ابو غدہ، ڈاكٹر محمد الاشقر، ڈاكٹر خالد شعیب،ڈاکٹر فوزی فیض اللہ ڈاکٹر  ڈاکٹر فاضل بن عاشور عجیل  النشمی ڈاكٹر نجیب اللہ كمالی  وغیرہ  قابل ذكر ہیں۔

ہندوستان كے مایہ ناز عالم اور محدث حضرت مولانا حبیب الرحمن الاعظمی كی لکھی ہوئی ایک بحث بھی    موسوعہ  میں شامل ہے، اس عظیم كارنامہ پر كویت بلاشبہ تمام اسلامی دنیا كی طرف سے شكریہ كا مستحق ہے۔

موسوعہ فقہیہ كے آغاز میں ایك نہایت ہی قیمتی اور بصیرت افروز مقدمہ ہے جو بڑے سائز كے پچاس سے زائد صفحات پر مشتمل ہے، اس مقدمہ میں فقہ كی حقیقت، فقہ كی عہد بہ عہد ترقی، فقہ اور اصولِ فقہ كے امتیاز ی حدود ، دین، شریعت اور اجتہاد جیسے متعلقہ الفاظ كی وضاحت اور ان كے درمیان فرق و امتیاز، اجتہاد كے مصادر، مجتہدین كے طبقات، اجتہاد كی اہمیت و ضرورت، عام لوگوں كے لیے تقلید كی نا گزیری، بے لگام اجتہاد كی مذمت، اجتہاد كے لیے در كار صلاحیت، اجتہاد كا دروازہ بند كرنے كے اعلان كا پس منظر، اور جزوی طور پر اجتہاد كے ہر عہد میں برقرار رہنے كی مثالیں، نیز شرعی احكام كی قسمیں، قطعی اور ظنی دلائل كے احكام پر اثرات، تعبدی احكام كی مصلحتیں، ان تمام عنوانوں پر نہایت ہی اختصار اور جامعیت كے ساتھ گفتگو كی گئی ہے۔

پھر فقہی تدوین كے مراحل، موسوعہ كی ضرورت، كویت حكومت كی طرف سے موسوعہ كی تدوین كے كام كو انجام دینے كا فیصلہ، موسوعہ كی ترتیب كا انداز، موسوعہ كی الف بائی ترتیب كا پس منظر ، موسوعہ كی بنیادی اور فروعی اصطلاحات، متعلقہ الفاظ كے ذكر كا انداز، موسوعہ فقہیہ كی زبان، موسوعہ كے مصادر، موسوعہ میں آنے والے فقہاء كے حالات، اور موسوعہ كی تكمیل كے بعد كے پروگراموں كو بڑی خوش اسلوبی كے ساتھ ذكر كیا گیا ہے۔

پھر اصل كتاب شروع ہوتی ہے اور حروف تہجی كی ترتیب سے 45 جلدوں میں فقہ اسلامی كے ذخیرہ كو نئے انداز پر پیش كرنے كا كام  تكمیل كو پہنچا۔

(میرا اپنا اندازہ یہ ہے كہ فقہی ذخائر پر اگر محنت كی جائے تو مزید اصطلاحات كے اضافے اور مزید ابحاث كی تكمیل كی گنجائش موجود ہے كہ            ؏:

ہزار بادۂ نا خوردہ در رگ تا كیست

موسوعہ  فقہیہ كا اردو ترجمہ

ہندوستان كو اللہ تعالیٰ نے بہت سی خصوصیات سے نوازا ہے، ہندوستان كے علماء كی متعدد عربی   تصنیفات عالم عرب میں  مراجع كی حیثیت ركھتی ہیں۔جن سے کوئی بھی اسکالر بے نیاز نہیں ہوسکتا

علامہ حسن  الصغانی كی ”العباب الزاخر“، علامہ علی المتقی كی ”كنز العمال“، مولانا محمد اعلی تھانویؒ كی ”كشاف اصطلاحات الفنون“، علامہ محب اللہ بہاری كی ”مسلم الثبوت“، علامہ مرتضیٰ بلگرامی كی ”تاج العروس“ یہ ایسی كتابیں ہیں، جن سے عرب دنیا كا كوئی بھی مصنف و محقق بے نیاز نہیں رہ سكتا۔

فتاویٰ عالمگیریؒ جو موسوعاتی كتابوں كی شان ركھتی ہے اور فقہ و فتویٰ كے میدان میں عرب و عجم میں یكساں طور پر مرجع كی حیثیت سے مقبول ہے، اس كی تدوین بھی ہندوستان كی سرزمین پر ہوئی، اور ایك نیك دل اور با عزیمت بادشاہ كی خصوصی توجہ اور خرچ سے اس كی تدوین كا كام شیخ نظام الدین برہان پوری كی قیادت میں ۲۳/ سے زائد علماء نے مل كر انجام دیا اور جس كا اردو زبان میں ترجمہ بھی دس جلدوں میں شائع ہو چكا ہے۔

كویت كے موسوعہ فقہیہ كو دیكھنے كے ساتھ ہی اسلامك فقہ اكیڈمی كے نامور بانی، فقیہ و قت علامہ مجاہد الاسلام قاسمیؒ نے اس كے اردو ترجمہ كا منصوبہ بنا لیا تھا اور یہ محض مولانا كی عزیمت كا كرشمہ ہے كہ ۴۵/ ضخیم جلدوں اور ۸۱/ ہزار سے زائد دو كالمی صفحات پر مشتمل كتاب جس كی تیاری میں ۴۰/ سال سے زائد كا عرصہ لگا، محض چند سالوں میں اسے اردو كا جامہ پہنا دیا گیا اور اب وہ ترجمہ  مكمل شكل میں  موجود ہے۔

اسلامی فقہ اكیڈمی كے وابستگان كو یقیناً اپنے اس كارنامہ پر فخر كے ساتھ اس كی انجام دہی كی توفیق پر رب كائنات كا شكر گزار ہونا چاہیے كہ یہ كارنامہ انجام پایا گیا، فلله الحمد والمنة۔

موسوعہ فقہیہ یا ایك عظیم فقہی انسائیكلو پیڈیا كی تیاری تو بنیای عنوان تھا؛ لیكن اس كی تكمیل كے دوران اعمال مساعدہ یا ضمنی كاموں كے تحت فقہ و اصول كی درجنوں نادر و نایاب كتابیں تحقیق و تعلیق كے ساتھ ادارہ موسوعہ كی طرف سے شائع كی گئیں، جن میں امام ابو بكر الجصاص رازی كی ”الفصول في الأصول“ ۴/ جلدوں میں، امام زركشی كی ”البحر المحيط“ ۶/ جلدوں میں، شارح ہدایہ علامہ بابرتی كی ”التقرير“ نامی شرح ”كشف الأسرار للبزدوي“ ۸/ جلدوں میں، كرابیسی كی ”الفروق“، زركشی كی ”المنثور في القواعد“، سمرقندی كی ”مختلف الرواية “، قرافی كی ”الذخيرة“، علائی كی ”المجموع المذهب“ وغیرہ  قابل ذكر ہیں۔

ان كے علاوہ حاشیہ ابن عابدین، علامہ ابن الہمام كی فتح القدیر، ملا محب اللہ بہاری كی ’’مسلم الثبوت‘‘ اور چاروں فقہی مذاہب كی متعدد كتابوں كی فہرستیں مستقل طور پر شائع ہو گئی ہیں؛ جن كی وجہ سے اہل علم كے لیے ان كتابوں سے استفادہ مزید آسان ہو گیا ہے، یہ سارے كارنامے موسوعہ كی بركت سے ہی انجام پاسكے ہیں۔

ایك زبان سے دوسری زبان میں كسی كتاب كا ترجمہ كتنا نازك اور مشكل كام ہے، اس كا اندازہ اہل بصیرت ہی كر سكتے ہیں، دو زبانوں میں پوری مہارت ركھنے كے باوجود كسی ایك زبان كی تعبیرات، محاوروں، تشبیہات اور بلاغت كے نكتوں اور اس كی ادبی نزاكتوں كو پورے طور پر دوسری زبان میں منتقل نہیں كیا جا سكتا۔

اردو زبان كے نامور ادیب و ناقد مولانا عبد الماجد دریا آبادی نے صحیح لكھا ہے كہ:

غالب اور اقبال كے كلام كے انگریزی ترجمے ہوچكے ہیں اور سعدی كی گلستاں اور مولانا رومی كی مثنوی كے ترجمے انگریزی اور اردو میں موجود ہیں، بڑی قابلیت اور كاوش سے كیے ہوئے؛ لیكن ان سب مثالوں میں اصل اور ترجمہ میں ادبی و ذوقی حیثیت سے كوئی مناسبت ہی نہ رہی۔ (مقدمہ تفسیر ماجدی ص:۹)

موسوعہ فقہیہ یا اس جیسی كسی كتاب كے ترجمہ كے لیے صرف عربی اور اردو زبان پر قدرت اور اس میں مہارت ہی كافی نہیں ہے، فقہی مسائل میں بصیرت اور ان كو صحیح طور پر سمجھنے اور صحیح الفاظ میں سمجھانے كی صلاحیت بھی دركار ہے، پھر جس طرح فلسفہ، اقتصاد اور طب وغیرہ علوم كی اپنی مخصوص اصطلاحات ہیں، اسی طرح فقہ كی بھی اپنی مخصوص اصطلاحات  ہیں، جن كا نہ تو ہر جگہ متبادل لفظ لكھا جا سكتا ہے اور نہ ان میں تبدیلی كی جا سكتی ہے اور بعض اصطلاحات كی ترجمانی كی اگر كوشش كی گئی تو اس سے الف بائی یا ابجدی ترتیب كے مطابق مرتب ہونے والی كتاب كا سارا نظم ہی در ہم برہم ہو كر رہ جائے گا اور پھر متعلقہ الفاظ كو ان سے جوڑنا ناممكن ہو جائے گا، مثال كے طور پر اگر ’’صلاة‘‘ كا ترجمہ نماز اور ’’صلاة علی الرسولﷺ‘‘ كا ترجمہ درود ہی لكھ دیا جائے تو پھر  الفاظ ’’ذات الصلة‘‘ (متعلقہ الفاظ) كے عنوان سے جو افادات ذكر كیے گئے ہیں وہ بے معنی ہو كر رہ جائیں گے، اور ان كو ”لفظِ درود“ یا ”لفظ نماز“ كے ساتھ جوڑنا ناممكن ہو گا، اس لیے بنیادی اصطلاحات كو جوں كا توں باقی ركھا گیا ہے اور اس كے تحت اس كی مكمل وضاحت كردی گئی ہے۔

ہر انسانی كوشش كی طرح اتنی بڑی كتاب میں جس كے صفحات بیس ہزار سے زائد ہوں، بعض فرو گزاشتوں كا رہ جانا ممكن ہی نہیں یقینی ہے؛ بلكہ غلطیوں سے خالی ہونے كا دعویٰ تو خود اصل كتاب كے بارے میں بھی نہیں كیا جا سكتا، اس لیے نظر ثانی كا عمل اس پر بھی جاری ہے اور ترجمہ كا اصل سے مقابلہ كرنے كے دوران نظر ثانی، پھر خود حضرت قاضی صاحب مرحوم اور ان كے جانشینوں كی طرف سے نظر نہائی كے بعد بھی سیكڑوں ملاحظات لكھنے كی ضرورت كا تجربہ میں ذاتی طور پر كئی سالوں سے كرتا رہا ہوں اور تقریبا سبھی جلدیں لفظ بلفظ پڑھی ہیں ؛ اس لیے بقول غالب:

آرائش جمال سےفارغ نہیں ہنوز

پیش نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں

یہ پہلو بھی فراموش نہیں ہونا چاہیے كہ ہزاروں صفحات پر مشتمل كتاب كے متعدد مترجمین كی طرف سے كیے ہوئے ترجمہ كی نوك پلك ٹھیك كرنے كی كوشش كی جا سكتی ہے؛ لیكن پورے طور پر نہ بدلا جا سكتا ہے اور نہ مكمل طور پر ٹھیك كیا جا سكتا ہے۔

اور كویت میں ا ز سر نو مراجعت یا نظر ثانی كے لیے میری صدارت میں كمیٹی كا قیام موسوعہ كے سابق ذمہ دار اعلیٰ شیخ مشعل مبارك الصباح كے اصرار پر عمل میں آیا تھا، جس كی ضرورت كا مجھے پہلے احساس نہیں تھا؛ لیكن تجربہ كے بعد ان كی اصابتِ رائے كا ہمیں اقرار كرنا پڑا، اور حضرت قاضی صاحب نے بھی اس كا اعتراف كیا۔

لیكن ان تمام احتیاطی تدبیروں كے باوجود كون كہہ سكتا ہے كہ تمام مترجمین كی زبان میں یكسانیت اور ہم آہنگی پیدا كی جا سكتی ہے یا ان كی نگارشات كو جھول اور عربی كے ثقیل الفاظ سے پورے طور پر خالی كا جاسكتا ہے۔

ترجمہ كی تكمیل اللہ كے كرم سے ہو گئی ہے، اس كی مزید تنقیح آئندہ  ہوتی رہے گی۔

موسوعہ فقہیہ كے ذمہ داروں كی نظر میں اصل اصول تو ناموں كے ذكر نہ كرنے كا رہا ہے؛ لیكن ناسپاسی ہو گی اگر ترجمہ كے عظیم كام سے وابستہ بعض اہم ناموں كا ذكر نہ كیا جائے، ان میں سر فہرست تو فقہ اكیڈمی كے بانی حضرت قاضی مجاہد الاسلام كی شخصیت ہے، چناں چہ:

-          مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ ہی كی غیر معمولی عزیمت اور بے پناہ جذبۂ عمل كا یہ كرشمہ ہے كہ موسوعہ فقہیہ كی ۴۵/ ضخیم جلدوں كا ترجمہ فقہ اكیڈمی كی طرف سے ممكن ہو سكا۔

-          ڈاكٹر عادل عبد اللہ الفلاح، وزارتِ اوقاف و اسلامی امور كے با عزم انڈر سكریٹری جنہوں نے قاضی صاحب كی تجویز سے نہ صرف اتفاق كیا؛ بلكہ اس كام كے لیے مناسب  ماحول بھی فراہم كیا۔

-          شیخ مشعل مبارك الصباح جنہوں نے موسوعہ فقہیہ كے ذمہ دار اعلیٰ ہونے كی حیثیت سے اس راہ كی قانونی پیچیدگیاں دور كیں اور پھر ہمیں ترجمہ كی نظر ثانی اور مراجعت كے لیے ایك كمیٹی كے ساتھ مامور كیا، پھر ان كے بعد ان كے جانشین شیخ عیسیٰ العبیدلی اور ان كے رفقائے كار مدراء موسوعہ  یہ سب شكریہ كے مستحق ہیں۔

-          وہ علمائے كرام جنہوں نے موسوعہ كے ترجمہ كا كام انجام دیا یا ترجمہ پر نظر ثانی یا نظر نہائی كی خدمت انجام دی۔

-          فقہ اكیڈمی كے صدر، جنرل سكریٹری اور ان كے رفقائے كار، فقہ اكیڈمی كے مخلص كار كن، ترجمہ كی كمپیوٹر پر طباعت كا كام انجام دینے والے افراد، كویت میں میرے ساتھ كام كرنے والے كمیٹی كے اركان، یہ سبھی حضرات بے پناہ شكریہ كے مستحق ہیں، اللہ تعالیٰ ان سبھوں كو اجرِ جزیل عطا فرمائے اور ان كی محنت كو قبولیت سے نوازے۔ (آمین)

موسوعہ فقہیہ كی اشاعت كے ساتھ كویت میں موسوعہ كا كام ختم نہیں ہو گیا ہے، ابھی اصولی ضمیمہ كی ترتیب كا كام انجام دیا جارہا ہے، اس كے بعد نئے فقہی مسائل پر مشتمل ضمیمہ شائع كیا جائے گا۔

موسوعہ كے اردو ترجمہ نے فقہی موضوعات پر ریسرچ و تحقیق كرنے والوں، اسلامیات كے عربی اور غیر عربی داں پروفیسروں، وكیلوں اور قانون دانوں، مفتیوں اور قاضیوں، مقالہ نگاروں سبھوں كے لیے بیش قیمت ذخیرہ فراہم كردیا ہے۔

مستقبل میں موسوعہ كے بعض ابحاث كو وزارت اوقاف كی اجازت سے علاحدہ ترتیب كے ساتھ موضوعاتی موسوعہ كا رنگ بھی دیا جا سكتا ہے، ”لعل الله يحدث بعد ذلك أمرا“

ہم نے موسوعہ فقہیہ كی

 جلدیں ترجمہ كی صحت كو جانچنے كے لیے لفظ بلفظ اپنے دو ساتھیوں كے ساتھ پڑھیں  جس كی داستان دلچسپ ہے پھر كبھی لكھی جائے گی۔ (إن شاء الله)

یہ مضمون ۲۳/ اكتوبر ۲۰۰۹ء كو دہلی میں منعقد ہونے والی تقریب میں پیش كیا گیا تھا، عربی میں بھی اور اردو میں بھی، جس میں نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری صاحب، كویت كے سفیر سامی المرشد اور سعودی عرب كے سفیر اور كویت سے آنے والے چارکویتی مہمان بھی شریك تھے۔

(۱) ایك طویل بحث مولانا آزاد اور مولانا عبد الماجد دریابادی میں ”لذت و الم“ اور ”حظ و كرب“ كی اصطلاح كے بارے میں چلی تھی ، مولانا آزاد ”لذت و الم“ كو ترجیح دیتے تھے اور انہیں كی بات زیادہ لطیف اور قرینِ قیاس تھی۔