کشمیر جسے راس آگئے گورنر ووہرا

Bhatkallys

Published in - Other

12:45PM Thu 10 Mar, 2016
حفیظ نعمانی دو مہینے سے جس ذہنی سکون اور سیاسی کشمکش سے محفوظ زندگی ہمارے جموں کشمیر کے بھائی گذار رہے ہیں۔ اس کی لذت سے ہم بھی واقف ہیں۔ اور ہم نے بھی ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن کی کشمکش اور پھر مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بننے کے بحران کے نتیجہ میں دس مہینے اُترپردیش میں صدر راج کے مزے لوٹے ہیں۔ چودھری چرن سنگھ اور شری سی بی گپتا کی آپسی کشمکش کی وجہ سے اُترپردیش میں صدر راج ہوا اور اس کے بعد بنگلہ دیش کی تحریک شروع ہوگئی جس کا اثر اپنے ملک پر بھی پڑا اور اندازہ ہوا کہ شاید ایک سال تک الیکشن نہ ہوسکیں گے۔ اُترپردیش کے مہامہم نے اعلان کردیا کہ اب کوئی ممبر اسمبلی نہیں رہا ہے اور الیکشن کے بارے میں کوئی یقینی بات کہی نہیں جاسکتی۔ اس لئے 15 دن کے اندر ممبران اسمبلی یا تو اپنے کمرے خالی کردیں یا ان کا کرایہ (شاید) آٹھ سو روپئے مہینے کے حساب سے جمع کرادیں۔ اس اعلان کے بعد وہ ایم ایل اے جو دور دراز کے تھے اور جو اپنی فیملی کو نہیں لائے تھے انہوں نے تو کمرے خالی کردیئے اور وہ ممبر جنہیں لکھنؤ میں ہی رہنا تھا انہوں نے کرایہ جمع کرنا شروع کردیا اور بات صرف اتنی ہی نہیں ہوئی بلکہ گورنر صاحب نے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے خود کام شروع کیا اور جو اُن کے سرکاری مشیر تھے انہوں نے وزیروں کے فرائض انجام دیئے۔ اور خوب یاد ہے کہ ایسے ایسے کام جن کو کرانے کے لئے ضرورتمند ہزاروں روپئے کی تھیلی لئے گھوما کرتے تھے اور جس کے لئے وہ ہر قسم کی رشوت دینے کے لئے تیار تھے۔ وہ منٹوں میں ہوگئے۔ اور نہ جانے کتنے کام ہم نے بھی دوسروں کے کرائے۔ ان میں ایک مشیر اسلام احمد صاحب بھی تھے۔ جو تھے تو آئی جی پولیس لیکن چار وزیروں کا کام دیکھ رہے تھے اور ہر دن سو فائلوں کا نپٹارہ کرتے تھے۔ کل جب ایک خبر جموں کشمیر کے بارے میں پڑھی کہ مفتی سعید صاحب کی ناکام حکومت کے نتائج کے بعد اب ان کی دختر محبوبہ مفتی دو مہینے سے ہاں اور انشاء اللہ اور ابھی نہیں کے چکر میں پڑی ہیں۔ وہ مرکزی حکومت سے کچھ ایسے ہیرے موتی لے کر اپنے کشمیریوں کو دکھانا چاہتی ہیں جو انہوں نے کبھی نہ دیکھے ہوں۔ اور انہیں دیکھ کر ان کی پارٹی کا جاہل ورکر بھی کہہ دے کہ باجی حکومت بنالو اور دوسری طرف زبان سے تو کوئی کچھ نہیں کہہ رہا ہے لیکن انداز ایسا ہے جیسے وہ دن گئے جب آٹھ فٹ کے مفتی صاحب بات کیا کرتے تھے۔ اور سیدھے مودی جی کے برابر میں جا بیٹھتے تھے۔ اب تو سُشما جی اپنے پاس بٹھائیں تو یہی بہت ہوگا ورنہ ان کی کرسی اسمرتی ایرانی جی کے برابر رکھی جائے گی۔ ریاستی گورنر نریندر ناتھ ووہرا صاحب نے سمجھ لیا کہ اب ان کے فرض ادا کرنے کا وقت آگیا اور انہوں نے صرف مفتی سرکار کا نہیں ان سے پہلے عمر عبداللہ سرکار کا کباڑ بھی کھنگال ڈالا اور ایسی فائلوں کا جنہیں چھوتے ہوئے سیاسی لیڈر اس لئے ڈرتے تھے کہ دس آدمی تو خوش ہوجائیں گے مگر بیس ناراض ہوجائیں گے۔ ان کو بھی سرخ فیتے سے آزاد کردیا۔ دو مہینوں کا گورنر راج دیکھ کر کشمیری چین کی سانس لے رہے ہیں کیونکہ گورنر کی حکومت عام آدمی کے لئے انتہائی سازگار اور فائدہ مند ثابت ہورہی ہے۔ خبر کے مطابق گورنر نے 04 مارچ کو پانچ برس سے پڑے ہوئے ڈاکٹروں کے معاملہ کو ایک گھنٹہ میں کنارے لگا دیا۔ جو ڈاکٹر پانچ برس سے بھی زیادہ عرصہ سے غیرحاضر تھے اور ہر وزیر کا قلم ان کا فیصلہ کرتے وقت تھرتھرا جاتا تھا انہیں گورنر نے سرکاری نوکری سے برطرف کردیا اور جو متنازعہ فائلیں برسوں سے دھول چاٹ رہی تھیں انہیں بھی سب کو نپٹا دیا۔ جموں شری نگر میں 2014 ء میں جو قیامت جیسا سیلاب آیا تھا اور جس کی مار سے کسی کشمیری کی کمر آج تک سیدھی نہیں ہوئی اس سے عمر عبداللہ نے بھی کھلواڑ کیا۔ اور مفتی صاحب کو بھی مرکزی حکومت پیکیج کی لوریاں ہی سناتی رہی اور خود ہم نے ٹی وی کے ذریعہ کروڑوں کے نقصان والوں کے ہاتھ میں ہزاروں کے چیک دیکھے تھے۔ اب ایڈیشنل کمشنر کے دفتر کے مطابق کشمیر کے مصیبت زدوں کو 43 کروڑ 57 لاکھ روپئے تقسیم کئے گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی اونٹ کے منھ میں زیرہ ہے۔ لیکن گورنر کے گھر میں ٹکسال نہیں لگی ہے۔ یہ وہ روپیہ تھا جو امداد کے لئے آیا تھا مگر کیسے دوں کتنا کتنا دوں کون ناراض ہوگا اور کون خوش؟؟؟ اس لئے پڑا تھا۔ گورنر صاحب نے اسے تقسیم کرکے ہاتھ جھاڑ لئے۔ نقصان کی تلافی تو نہ کسی کی ہوئی ہے اور نہ کبھی کسی نے کی ہے۔ جو جس بندہ سے ملا اس کا شکریہ۔ اب وہ دے گا جس نے سیلاب بھیجا تھا۔ اور یہ ہم نے سیکڑوں جگہ دیکھا ہے کہ قادر مطلق ہی دوگنا چوگنا کرکے دیتا ہے۔ ایک سرکاری عہدیدار کے کہنے کے مطابق گورنر راج کی مختصر مدت میں ریاست کے لوگوں کو پہلی بار حقیقی حکمرانی کے طرز کا اندازہ ہوا۔ سرکاری افسران عوام کی شکایات کا ازالہ کرنے کیلئے ہر وقت دستیاب ہیں۔ فائلیں مطلوبہ رفتار سے ایک میز سے دوسری میز پر پہونچ رہی ہیں۔ اور وقت ضائع کئے بغیر ان فائلوں پر فیصلے لکھے جارہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوگی کہ گورنر تو سیاسی ہوتے ہیں لیکن ان کے مشیر وہ افسر ہوتے ہیں جن کو اس کی ٹریننگ دی جاتی ہے کہ فائل کو پڑھو اور اس پر فوراً فیصلہ لکھو۔ عوامی حکومت میں دیر یا رشوت یا مصلحت ہوتی ہے وہ صرف اس لئے کہ بھانت بھانت کے وزیر آجاتے ہیں جن کی قابلیت کے بجائے ان کی حمایت کو دیکھا جاتا ہے۔ ہم نے وہ وزیر بھی دیکھے ہیں جن کی میز ان کے اٹھنے سے پہلے صاف ہوچکی ہوتی تھی اور وہ وزیر بھی ان کے ہیں جو دن بھر ملنے والوں سے ملتے رہتے تھے اور شام کو ساری فائلیں ان کی گاڑی میں رکھ دی جاتی تھیں۔ جن کے متعلق یہ کبھی معلوم نہ ہوسکا کہ ان کی بیگم فائلوں پر نوٹ لکھتی ہیں یا کوئی تعلیم یافتہ رازدار رات میں آتا ہے اور اس کے ذریعہ فائلوں کا پیٹ بھرا جاتا ہے؟ دو مہینے کا وقت ہی تب لگا تھا جب مفتی صاحب اور بی جے پی کے لیڈروں کے درمیان حکومت سازی کی تفصیلات طے کی جارہی تھیں اور دو مہینے ہی اب ہوگئے جب سے محبوبہ مفتی بناؤں نہ بناؤں؟ کی آزمائش سے دوچار ہیں۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ بی جے پی انہیں مفتی صاحب کی بیٹی سے زیادہ ماننے پر تیار نہیں ہیں اور وہ چاہ رہی ہیں کہ انہیں کشمیری مسلمانوں کی مادر ملت سمجھا جائے۔ ان دونوں کے درمیان اس سے کہیں زیادہ دوری ہے جتنی دوسری کشمیر اور جموں میں ہے۔ اب دونوں میں سے ایک کو پیچھے ہٹنا ہے لیکن جو ہٹے گا وہی مقبولیت کھوئے گا۔ اس لئے الیکشن ہی آخری حل ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو گورنر صاحب کو چھ مہینے اور خدمت کے لئے مل جائیں گے۔ اور وہ رہیں گے تو محبوب بن کے رہیں گے اور جائیں گے تو عمربھر کشمیری انہیں سیب بادام اور اخروٹ کا تحفہ بھیجتے رہیں گے۔ کیونکہ کشمیری اب تک گورنر کے معنیٰ جگ موہن پڑھتے آئے ہیں۔ لیکن اسے بھی نظر انداز کرنا آسان نہیں ہے کہ محبوبہ مفتی نے بی جے پی کے ساتھ حکومت بنانے کو باپ کی وصیت قرار دیا ہے جسے انہیں ایک فرمانبردار بیٹی کی طرح پورا کرنا ہے۔ مگر اس میں کئی بار لیکن کو بھی جگہ دی ہے اور لیکن ہی وہ تلوار ہے جس سے وصیت کا عمل کٹ جاتا ہے اور یہ لیکن ہی ہے جو ہمیں الیکشن کے پوسٹر دکھا رہا ہے۔ اور غیب کا علم کسی کو نہیں ہے۔ فون نمبر: 0522-2622300