روزنامہ ممبئی اردو نیوز کا تازہ کالم’’ شب و روز ‘‘

جادو کے سات الفاظ!
کوئی ہفتے بھر پہلے کی بات ہے کہ ہم ممبئی کے ایک مشہور مسلم علاقے کی اِنتہائی مصروف سڑک سے گزر رہے تھے کسی زمانے میں اس سڑک پر دو رویہ ٹرام چلا کرتی تھی جس پر ہم ہی نہیں ہماری عمر کے اکثر لوگ سفر کر چکے ہیں۔ ٹرام بند ہوئی تو اس پر بس چلنے لگی۔ اب عالم یہ ہے کہ اس سڑک پر دُکانوں کے باہر دونوں جانب سڑک پر بڑی بڑی چار پائیوں پر دُکانیں لگی ہوئی ہیں جن پر ہزاروں نہیں لاکھوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے چونکہ یہ علاقہ ممبئی کے مسلم علا قوں کا گنجان ترین محلّہ ہے۔ گلی اندر گلی خاصی آبادی ہے ،ظاہر ہے کہ یہاں کے لوگ گھر وں سےاپنے حصولِ معاش کےلئے ، بچے اسکول کےلئے ،عورتیں اپنے اعزا سے ملنے ملانے ہی نہیںبازار سے سو داسلف لینے بھی نکلتی ہیں۔ یہیں گلیوں میں چھوٹے موٹے کارخانوں میں کام کرنے والے بھی آتے جاتے رہتےہیں۔ رات دیر گئے تک اچھی خاصی آمد و رفت رہتی ہے۔
جب سے بائیک (موٹر سائیکل) کا سیلاب سا آیا ہے تب سے اس سڑک پربھی بائیک سوار دوڑتے پھر تے ہیں۔ رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ بائیں طرف کی گلی سے اچانک ایک بائیک سوار سامنے آیا تو ایک معمر راہگیر کو اپنے قدم روکنے پڑے چونکہ بائیک سوا ر اچانک سامنے آیا تھا، لہٰذا معمر راہگیر کو بھی چلتے چلتے اچانک رُکنا پڑا کہ معاً پیچھے سے آنے والے ایک نوجوان بائیک سوار جو کچھ تیزرفتاری اختیار کیے ہوئے تھا اس کی بائک کا اگلا پہیہ معمر راہگیر کے دائیں پیر کے پنجے پر چڑھ گیا۔ بڑے میاں نے دائیں طرف بائک سوارکوگھورتے ہوئے ایک جملہ کس دِیا:’’ نابینا سیٹھ کی اولاد ہو کیا؟ حلال زادے کہیں کے۔‘‘ اغلب گمان ہے کہ معمر راہگیر کے جملے میں’’ حلال زادے‘‘ کو بائیک سوار اس لفظ کی ضد سمجھ بیٹھا اور وہ بڑے میاں سے اُلجھ گیا کہ’’ گالی دے رہے ہو۔‘‘ اس طرح وہ نوجوان معمر راہگیر سے لڑنے پر آمادہ نظر آیا۔
بڑے میاںنے جواب دیا کہ میاں! گالی نہیں تم پر تو فاتحہ پڑھنا چاہیے مگر ابھی وہ وقت تم سے کچھ دور ہے کہ جب تم پر فاتحہ پڑھی ہی جائی گی۔ جاؤ اسی رفتار سے ذرا ہائی وے پر سیر کرو اور پھر کسی ٹرک کے پہیوں کا لقمہ بنو۔ پھر تم پر تمہارا سارا گھر بار فاتحہ پڑھے گا۔
وہ نو جوان جب آپے سے باہر ہونے لگا تو آس پاس کے لوگوں نے اس سے کہا کہ جا بھئی جا۔ ایک تو غلطی کرتے ہو اور غلطی پرSorry (سوری ) کہنا بھی نہیں جانتے۔ خیر وہ نوجوان بڑ بڑاتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ بڑے میاں بھی یہ کہتے ہوئے چلتے بنے کہ کسی کی غلطی کی پیداوار ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ان کا تو ملک الموت ہائی ویز اور فلائی اوورز پر بڑی بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ ہم بڑے میاں سے چند قدم کے فاصلے پر تھے ہم نے قدم بڑھائے اور ان سےہم کلام ہوئے کہ
’’محترم! اب جانے دِیجیے وہ تو نکل گیا۔ کسی نئی دُلہن کا شوہر ہوگا کسی ماں اور کسی باپ کا لختِ جگر ہوگا۔ کیوں اس کے لئے ملک الموت کو یاد کر رہے ہیں۔‘‘
بڑے میاں بائیکلہ ریلوے اسٹیشن کی سمت چلتے رہے اور جواب بھی دیتے رہے کہ جناب ! آپ کا تجربہ ابھی ناپختہ ہے میں تو اس سلسلے میں پختہ تجربہ یافتہ ہوں کوئی سال بھر پہلے اسی طرح سڑک پر اسی کے ہم عمر نوجوان بائیک سوار نے مجھے پیچھے سے اس زور سے دھکّہ دیا کہ میں منہ کے بل سڑک پر آرہا اور نتیجے میں سامنے کے میرے چاردانت ہی نہیں گئے بلکہ ایک ٹخنے کی ہڈی بھی فریکچر ہوئی اور وہ حلال زادہ اسی رفتار سے یہ جا ا ور وہ جا ہوگیا۔ دوسرے راہگیروں نے مجھے ہسپتال پہنچایا۔
میں بھی جوانی میں اسکوٹر چلا چکا ہوں مگر اس طرح نہیں کہ عام را ہگیروں کو کتا بلی سمجھتا تھا یہ تو پوری نسل ہی ’’ شریف زادوں‘‘ کی دِکھائی دے رہی ہے۔ یہ ان گلی کوچوں کےراستے کو راستہ نہیں بلکہ ریس کورس سمجھ کر دوڑتے ہیں۔ یہی وجہ کہ جب اس عادت میں یہ پختہ ہوجاتے ہیں تو فلائی اووَر ز پر بھی اسی طرح دوڑ لگاتے ہیں اور وہاں سے پھر یہ اپنے گھر نہیں جاتے بلکہ اُن کی خبر جاتی ہے۔
میا ںشاید آپ نے وہ محاورہ نہیں سنا’’ اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔‘‘
یہ سب سن کر ہم نے اپنی رفتار کم کر لی کہ بڑے میاں آگے بڑھ جائیں کہ ان سے کہیں کچھ اور سننے کو نہ ملے ۔ بڑے میاں رفتار میں ہم سے تیز ثابت ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے کافی آگے نکل گئے۔
اب ہم تھے اور ہمارا ہمزاد۔ وہ بھی کم بخت بڑے میاںجیسا ہی ہے۔ اب اس نے ہمیں نصیحت کرنا شروع کردِیا کہ تمہاری نسل کے لوگوں نے صرف آبادی بڑھائی ہے بظاہر بچوں کو پڑھا وڑھا بھی دِیا ہے مگر تربیت نہیں کر سکے۔ یہ سب اسی کمی کا شاخسانہ ہے یہ نوجوان اگر بڑے میاں سے فوراً چار حرفی لفظ سوری کہہ دیتا تو واقعی شریف زادہ ثابت ہوتا مگر وہی کہ گھرمیں اگر اسے یہ سکھایا جاتا تب نا، کہ’’ کسی کو تم سے جانے انجانے کوئی تکلیف پہنچے تو فوراً ا ُس سے معافی مانگ لینا۔ ‘‘ہمیں تو ہمارے بزرگوں نے سختی سے نہیں بڑے پیار سے یہ سکھایا تھا کہ’ سات الفاظ یاد رکھو کہ ان سے جب چاہو جس پر چاہو جادو کر سکتے ہو۔ وہ سات لفظ تم کو سات سو بار دوسروں کے کلماتِ بد سے بچائیں گے۔ وہ جادو کے سات لفظ یہ ہیں۔۱۔ معافی چاہتا ہوں۔۲۔ مجھے افسوس ہے۔۳۔ دوبارہ ایسا نہیں ہوگا۔۴۔ برائے مہربانی۔۵۔ از راہِ کرم۔۶۔ میں اس کا معترف ہوں اور ساتواں لفظ ہے شکریہ۔
یہ ساتواں لفظ تو اسمِ اعظم کی تاثیر رکھتا ہے اگر تم دل سے عرض کرو۔۔۔۔ اور ہاں اگر تم ذہین ہوتو ان الفاظ میں اضافہ بھی کر سکتے ہو۔‘
اس نصیحت کے ساتھ ’’ہم زاد‘‘ بائیکلہ ریلوے اسٹیشن پر چٗھو ہوگیا۔خیر وہ تو گیا اسے جانا ہی تھا۔
ہمیں اپنی بزرگ خواتین بھی یاد آئیں وہ کہتی تھیںکہ تبسم کے ساتھ شکریہ تو تریاق ہے تریاق ۔۔۔اس تریاق سے زہر ایسے کافور ہوتا ہے کہ بس دیکھتے رہ جاؤ گے بلکہ اس کے اثرات دور رس بھی ہو سکتے ہیں اگر تم چاہو۔
اب ہم جانے سے قبل اپنے قاری سے ساتواں لفظ یعنی ’’ شکریہ‘‘ عرض کرتے ہیںکہ اُنہوں نےہماری بات سنی (پڑھی)تو۔۔۔ مگر اسکا کچھ اثر بھی ہوا؟ ۔۔۔اللہ ہی جانے!!
ندیم صدیقی