ایاصوفیہ کی مسجد کی حیثیت بحال کرنے کی خبر شوشل میڈیا پر چھائی ہوئی ہے، کون مسلمان ہوگا جو اللہ کی بنائی ہوئی اس زمین پر اس نام بلند ہونے پر خوش نہ ہو، یہ بحث کہ پہلے یہ کلیسا تھا، پھرمحمد الفاتح نے قسطنطنیۃ کی فتح کے بعد ۱۴۵۳ء میں اسے خرید کر مسجد میں تبدیل کیا، پھر ۱۹۳۵ء میں کمال اتاترک نے خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد اسے میوزیم میں تبدیل کیا، اور یہاں پر نماز کی ادائیگی پر پابندی عائد کی گئی، یہاں کے مسلمانوں کی دیرینہ خواہش اسے مسجد قرار دینے کی تھی، جو پچاسی سال بعد اب پوری ہوئی۔
عیسائی کلیسا قدیم زمانے سے مشرقی اور مغربی کلیسا میں منقسم رہا ہے، مغربی کلیسا کے ماننے والے کیتھولک اور مشرقی کلیسا کو ماننے والے ارتھاڈکس کہے جاتے ہیں، کیتھولک عیسائیوں کے نزدیک جو حیثیت ویٹیکن کے سینٹ پیٹر گرجا کو حاصل ہے، وہی حیثیت ایاصوفیا کو ارتھاڈکس عیسائیوں کے یہاں حاصل رہی ہے، قسطنطنیہ عثمانیوں کے قبضے میں آنے کے بعد روس میں شہر پییٹرس برگ آباد کیا گیا، اور اس کلیسا کی مذہبی قیادت ایاصوفیہ سے یہاں منتقل ہوئی، لیکن آرتھاڈکس کے نزدیک ایاصوفیا ہمیشہ ناک کا مسئلہ بنا رہا، کیونکہ ارتھوڈکس عیسائیوں کی ایک عظیم عیسائی سلطنت روم کا قسطنطنیہ کا پایہ تخت ہونا بھی تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی عظیم دو سلطنتوں کسری و قیصر میں سے کسری کی سلطنت ایران وعراق میں تھی، قیصر کی روم ویونان اور بیزنطینی علاقوں میں، قیصر کا دارالسلطنت قسطنطنیہ مسلمانوں کے قبضہ میں آتے آتے ساڑھے آٹھ صدیاں لگ گئیں۔ ترکی کا جو علاقہ یورپ میں ہے اسے روم سے تعبیر کیا جاتا ہے، مولانا جلال الدین رومی ، احمد کمال باشا وغیرہ سلطنت عثمانیہ کے جن علماء کے ساتھ رومی کی نسبت لگتی ہے، اس سے مراد یہی علاقہ ہے، چونکہ سلطنت روما یونانی تہذیب کی وارث تھی لہذا یونان کا قسطنطنیۃ سے جسے فتح ہونے کے بعد اسلام بول یا استامبول کہا گیا، اس سے جذباتی تعلق رکھتا ہے، اورساڑھے پانچ سو سال قدیم مسلمانوں کے ہاتھوں اس کی فتح کے غم کو ابھی تک بھلا نہیں پایا ہے، چونکہ ترکی کا نصف حصہ یورپ میں شامل ہے، لہذا اس کا یورپین یونین کا رکن بننے کا حق بنتا ہے، یورپی یونین نے اپنی رکنیت دلانے کی ترکی کو بہت آس دلائی، اور اس امید پر کہ شاید یورپین یونین میں ترکی شمولیت قبول ہوجائے، یورپین یونین ترکی سے اپنی ہر شرط منواتی رہی، لیکن یونان ہمیشہ اس کے آڑے آتا رہا، بالآخر ترکی نے مایوس ہوکریورپی یونین کی طرف دیکھنا بند کردیا۔
ایاصوفیہ کا مسئلہ قانونی اور فقہی سے زیادہ جذباتی ہے، امریکہ اور یورپ ترکی کی موجودہ حکومت کے دشمن ہیں ہی، روس بھی ابھی ابھی دوست بنا ہے، لیکن شام کے مسئلے میں دونوں کی فوجیں اور توپ کے دہانے آمنے سامنے ہوتے رہتے ہیں، پتہ نہیں یہ کب خوفناک جنگ میں الجھ جائیں اورترکی چاروں طرف دشمنوں کے نرغے میں آجائے، روس والوں کے پاس پیٹرس برگ میں آرتھاڈاکس کلیسا کی مذہبیا قیادت موجود ہے، اس کی کبھی خواہش نہیں ہوگی کہ یہ دوبارہ قسطنطنیہ کو لوٹادی جائے۔ لیکن ان کے مقدس گرجا کا از سرنو مسجد میں تبدیلی ہوجانا ترکوں کے خلاف عوامی نفرت کو بھڑکا بھی سکتی ہے۔ عیسائیوں کو اپنے مذہب سے لاکھ تعلق نہ سہی، لیکن نسلی تعلق تو ہے، اور نسلی تعصب بدترین تعصبوں میں شمار ہوتا ہے۔
مسلمانوں کا اجتماعی مرض یہ ہے کہ وہ صرف سامنے کی چیز دیکھتے ہیں، تاریخ ان کے نزدیک صرف مداحی کے لئے ہیں، تاریخ سے سبق سیکھنا انہیں کبھی نہیں آیا۔ لہذا بہت سے ایسے واقعات جنہوں نے تاریخ میں اہم نقوش چھوڑے ان پر انہوں نے کبھی غور کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ یہی دیکھئے قسطنطنیہ کی فتح ہی ہے۔ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ، اور یزید بن معاویہ سے لے کر محمد الفاتح تک ہم کن کن کے تذکروں اور فضائل میں رطب اللسان ہوجاتے ہیں، لیکن کیا کبھی کسی نے اس پر بھی غور کیا ہے کہ قسطنطنیہ پر مسلمانوں کا قبضہ یورپ کی نشات ثانیہ کا آغاز ہے۔
لغات کشوری میں ایک خیالی پرندے ققنس کا تذکرہ پڑھا تھا، جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ موسیقی کے راگ اس کی چونچ سے نکلے ہیں۔
اس کی چونچ میں بہت سے سوراخ ہوتے ہیں، جب یہ گانے لگتا ہے تو اس کی چونچ سے مختلف راگ نکلنے لگتے ہیں ،جن میں ایک دیپک راگ بھی ہے۔ جب یہ مست ہوجاتا ہے، تو اپنے گھونسلے میں بیٹھ کر راگ الاہنے لگتا ہے،تو اس کی چونچ سے آگ نکلنے لگتی ہے، جو بھڑک کر اسے جلاکر راکھ بن میں بدل دیتی ہے، جب راکھ پر مینہ برستا ہے تو اس سے ایک انڈا نکلتا ہے، جس سے ایک نیا ققنس جنم دیتا ہے۔
صلیبی جنگیں اور ان میں صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں ان کی کراری ہار ہو، یا پھر ترکوں کے ہاتھوں ان کی قدیم بیزنطینی سلطنت کا خاتمہ اور دارالسلطنت قسطنطیہ پر قبضہ ہو، اس کے بعد مغرب نے ایک نیا جنم لیا ہے، جس کے بعد اس کا قدم آگے ہی بڑھتا چلا گیا ہے، ساڑھے پانچ صدیاں بیت رہی ہیں، خلافت عثمانیہ، سلطنت مغلیہ، قاچاری ، سبھی ختم ہوگئے، لیکن مغرب نے اپنے زوال سے جوسبق سیکھا تھا، اسے یاد ہے، اس سے سبق پاکر وہ آگے ہیں بڑھا چلا جارہا ہے، اور مسلمانوں میں برسات کے جگنؤوں کی طرح کبھی کبھی چھٹ پٹ روشنیاں نظرآتی ہیں، پھر وہ ماند پڑجاتی ہیں۔
۱۴۵۳ء میں ترکوں کے ہاتھوں قسطنطینیہ فتح ہوا، وہ ہمیں یاد ہے، لیکن ہم بھول گئے کہ اس کے ٹھیک چالیس سال کے اندر ۱۴۹۲ء میں اندلس میں مسلمانوں کے آخری قلعہ غرناطہ پر صلیبیوں کا قبضہ ہوگیا، اور آٹھ سو سال یہاں شاہانہ زندگی گزارنے کے بعد انہیں یہاں سے ایسا کھرچ کر نکال دیا گیا کہ جیسے کبھی وہ یہاں آئے ہی نہیں تھے۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ کبھی اس کا بھی تجزیہ ہوا ہے؟ کیا تاریخ کا کام ماضی پر فخر کرنے لئے ہی رہ گیا ہے؟ اجازت دیجئے۔اور اس میں مزید کچھ دلچسپی ہوتو انتظار کیجئے سلسلہ مضامین ( پہلا مغربی سامراج اور جنوبی ہند)