لفظ کمال کا کمال۔۔۔ تحریر: آصف جیلانی

یکم دسمبر 1965کو جب میرا بی بی سی لندن کی اردو سروس سے رشتہ استوار ہوا تھا تو اُس وقت زبان کے لحاظ سے امجدعلی صاحب اور خالد حسن قادری صاحب نہایت مقتدر ماہر مانے جاتے تھے جن سے میں نے براڈکاسٹنگ کے ہنر کے علاوہ زبان کے معاملہ میں بھی فیض حاصل کیا۔ شام کو پروگرام سے فارغ ہوکر کینٹین میں خالد حسن قادری صاحب کے ساتھ بیٹھ کر اردو کے الفاظ کے جادو اور اسرار و رموز پر گفتگو رہتی تھی اور بات سے بات نکلتی تھی۔ ایک شام پروگرام میں مارک ٹلی کے تبصرے کے بارے میں میں نے کہا کہ بڑے کمال کا تبصرہ تھا۔ قادری صاحب نے اپنے خاص دھیمے انداز سے قہقہہ لگایا اور کہا کہ یہ کمال کا لفظ بھی بڑے کمال کا لفظ ہے۔ کہنے لگے کہ لفظ کمال کے معنی بھی مختلف ہیں۔ مثلا پورا ہونا، ہنر، لیاقت اور اس کے ساتھ عجیب کام، انوکھی بات، عمدگی، استادی اور کاریگری وغیرہ۔ میں نے پوچھا کوئی سند کوئی مثال؟۔ قادری صاحب نے بغیر کسی توقف کے کہا، فرھنگ آصفیہ کے مولف، مولوی سید احمد صاحب دہلوی نے تشریح کے طور پر یہ مصرعہ درج کیا ہے۔ ”کمال افسوس ہے مجھ پر کمال افسوس ہے“۔ پھر کہنے لگے داغ دہلوی کا شعر ہے. ”ہزارکام مزے کے ہیں داغ الفت میں،، جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں“۔ قادری صاحب کہنے لگے کہ یہاں کمال طنز کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، یعنی اچھا کام نہیں کرتے۔ اس دوران امجدعلی صاحب بھی اپنی چائے لئے میز پر آگئے۔ پوچھنے لگے کہ کس بات پر گفتگو ہورہی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ الفاظ کے جادو پر بات ہورہی ہے۔ میں نے امجدعلی صاحب سے کہا اچھا ہوا آپ بھی آگئے۔ مجھے یہ تو معلوم ہے کہ اکل کھرا سخت مردم بے زار شخص کو کہتے ہیں لیکن ایک عرصہ سے سوچ رہا تھا کہ اس لفظ کی وجہ تسمیہ کیا ہو سکتی ہے؟ اپنے خاص انداز میں مسکراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اصل میں تنہا اور اکیلے بیٹھ کر کھانے والے کو فارسی میں تنہا خور کہتے ہیں یعنی اکیلا اور اکیلا بیٹھ کر کھانے والا، اور یہ دلچسپ بات ہے کہ اردو میں اکل، کھانے یا غذا کو کہتے ہین اور اکل اکیلے اور تنہا کو بھی کہتے ہیں۔ یوں تنہا خور آدمی کو جو ایک کونے میں بیٹھ کر اپنا پیٹ بھرتا ہے اور پڑوسیوں کو خبر نہیں ہونے دیتا، بد مزاج اور تند خو ”اکل کھرا“ کہا جانے لگا۔یہ مثل مشہور ہے، اکل کھرا ُ جگ سے ُبرا۔ میں خالد حسن قادری صاحب کی طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ اب جب کہ کھانے پینے کی بات چل نکلی ہے، یہ بتایے کہ اس کہاوت کے پیچھے کیا کہانی ہے، ”شوربا حلال بوٹی حرام“۔ کہنے لگے انگریزوں کے دور میں ایک بزرگ کی چھوٹی بہن نے عیسائی مذہب قبول کر لیا تھا۔ وہ بہت برہم ہوئے مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد بہن نے اپنے بڑے بھائی کو کھانے کی دعوت دی۔ بزرگ پس و پیش میں پڑ گئے لیکن بہن کے اصرار پر بہن کے ہاں چلے گئے۔ میز پر کھانا چنا گیا۔ سالن میں صرف قورما تھا اور بھوک شدت کی تھی۔ بزرگ نے کھانا شروع کیا۔ سالن میں بوٹی کو ہاتھ نہین لگایا۔ شوربے سے روٹی کھاتے رہے۔ بہن نے کہا بھائی صاحب یہ تو ذبیحہ ہے۔ بھائی نے بہانہ بنایا کہ کئی روز سے میرے مسوڑوں میں درد ہے۔ بزرگ کھانا کھانے کے بعد گھر واپس آگئے۔ وہاں ان کے دوست بھی آگئے اور دعوت کا ماجرا پوچھا۔ کہنے لگے میں کرسٹان ہوتے ہوتے رہ گیا۔ دوستوں نے پوچھا وہ کیسے۔ فرمانے لگے ارے بھئی سور کا گوشت حرام ہے۔ بہن کی دل آزاری بھی گناہ ہے۔ ہم نے گوشت کی بوٹی کو ہاتھ نہین لگایا صرف شوربے سے روٹی کھائی۔ دوستوں نے کہا کیا کہنے، ”شوربہ حلال اور بوٹی حرام“۔ میں نے کہا کہ یہ بزرگ بڑے استاد نکلے۔ امجد صاحب بولے یہ استاد کا لفظ بھی اردو میں خوب آیا ہے۔ زرتشت کی مرقومات کا مجموعہ ”اوستا“ کہلاتا ہے۔”اوستا“نہایت قدیم ایرانی زبان میں ہے جس کو سمجھنے والے بہت کم ہیں۔ چنانچہ جو حضرات”اوستا“ماہر ہوتے تھے ان کو استاد کہا جانے لگا۔۔ استاد بڑی عزت واحترام کا لفظ تھا لیکن جوں جوں زمانہ گذرتا گیا اس کا رتبہ بھی کم ہوتا گیا۔ پہلے یہ لفظ عالم کے لئے اور تعلیم دینے والے کے لئے استعمال ہوتا تھا مگر بعد مین ہر فن کے ماہر کو استاد کہا جانے لگا، یہاں تک کہ گانے والو ں اور سرانگی نوازوں کو بھی استاد کہا جانے لگا۔ اور اب استاد کو چلتے پرزے اور چالاک کو کہا جاتا ہے۔ مجھے شوربے کے ذکر پر یہ کہاوت یاد آئی ”دمڑی کا شوربا اور چوہے کی دم“میں نے قادری صاحب سے پوچھا کہ اس کہاوت کے پیچھے کیا کہانی ہے۔ کہنے لگے بڑی دلچسپ کہانی ہے۔ ایک افیونی تھے۔ بیشتر وقت افیون کے نشہ میں رہتے تھے اور ان کی بیوی بھی ان کا کوئی خیال نہیں رکھتی تھی۔ ایک دن افیونی جب صبح دیر سے اٹھے تو ان کی بیوی سو رہی تھی۔ انہوں نے بیوی سے کہا کہ بہت دیر ہوگئی ہے سخت بھوک لگی ہے۔ بیوی تنک کر بولی آج میں دیر سے اٹھی ہوں تو اتنا شور مچا رہے ہو۔ جائو نان بائی سے شوربا لے آئو۔روٹی تو ایک آدھ ڈلیا میں پڑی ہے۔ افیونی نے بیڑی سلگائی اور کھانستے ہوئے اٹھے اور پیالہ لیا اور نان بائی کے ہاں پہنچے۔ کہنے لگے پہلوان اس پیالے میں دمڑی کو شوربا ڈال دینا۔ گھر پہنچے تو بیوی سے کہا کہ لو بڑے مزے کا سالن ہے، تم کھا لو میں کارخانے میں چائے پاپے منگا لوں گا۔ افیونی کارخانے چلنے کے لئے تیار ہوئے تو بیوی کے چیخے کی آواز آئی، میاں یہ کیسا شوربا اٹھا لائے۔ افیونی نے پوچھا کہ کیوں کیا بات ہے۔ بیوی نے کہا کہ اس میں چوہے کی دم نکلی ہے۔ افیونی کو بہت غصہ آیا اور نان بائی کے ہاں پہنچے اور کہنے لگے کہ پہلوان دوستی پر لات ماردی۔ پہلوان نے پوچھا کہ کیاہوا۔ افیونی بولے شوربے میں چوہے کی دم نکلی ہے۔ میری بیوی بہت غصہ میں ہے۔ نان بائی نے کہا میرے بھائی اپنی بیوی سے بولو کہ کیا دمڑی کے شوربے میں ہاتھی کی دم نکلے گی؟ ویسے تم تو میرے یار ہو۔ ایک پیالہ شوربا اور لے جاو۔ دمڑی کے اسی شوربے کے ذکر پر محفل برخاست ہو گئی۔