آنکھ بند ہونے سے پہلے خدا کوئی نیک کام لے لے۔ ملاحسن مرحوم

Bhatkallys

Published in - Other

11:26AM Fri 11 Mar, 2016

[highlight]تحریر : عبد المتین منیری[/highlight]

        مولانا عبد الباری صاحب کے غم میں نمناک آنکھیں ابھی خشک نہیں ہوئی تھیں کہ ملاحسن صاحب کی رحلت کی خبر ابھی موصول ہوئی ہے ، آپ عرصہ سے علیل چلے آرہے تھے ، آپ نے عمر عزیز کی ﴿۹۲﴾ بہاریں دیکھیں ، ۱۹۲۴ء میں آپ نے اس دنیا ئے فانی میں قدم رکھا تھا ، آپ کی رحلت کے ساتھ بھٹکل کی سماجی اور دینی  تاریخ کا ایک روشن باب بند ہوگیا ۔

         مرحوم نے ایک غریب خاندان آنکھیں کھولی تھیں ، جس محلہ میں مکان تھا وہ بھی پس ماندہ تھا،  اسکول میں داخلہ نصیب نہ ہوسکا ، مرحوم محمد سکری اکرمی خلفو کے مکتب میں پانچ چھ سال قرآن خوانی اور ابتدائی تعلیم سیکھی ، محمد سکری خلفو ﴿مولانا محمد صادق اکرمی صاحب کے دادا تھے﴾ ، بڑے ہی بزرگ اور اللہ والے تھے ، مشما مسجد میں امامت کرکے زندگی گذار دی ، کبھی کوئی محنتانہ جیب میں ڈال دیتا تو لے لیتے ، لیکن کبھی اپنا ہاتھ کسی کے سامنے نہیں پھیلایا ، ساری زندگی عسرت اور تنگ دستی میں عزت نفس کے ساتھ گزاردی ۔ آواز میں بڑا درد تھا ، جنازہ کی قیادت کرتے ہوئے کلمہ کا ورد کرتے تو لوگوں کی آنکھیں بھر آتیں ، سخت سے سخت دل موم جاتا ۔ آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے والے اہالیان بھٹکل کی  فہرست کافی طویل ہے۔

          شرارت اور طاقت آزمائی آپ کی گھٹی میں پڑی تھی ، کھانے کمانے کا بھی شوق بچپن سے تھا ، قصبہ کی پسندیدہ چیزیں ، آم ،کٹھل ، تربوز، کاجواور گنا دور دور سے لاتے اور اڑوس پروس  کے گھروں میں لے جاکر فروخت کرتے ، ان کی کوئی مقررہ قیمت فروخت نہیں ہوا کرتی تھی، مستورات اپنی خوشی سے  قیمت دے دیتیں،  جو  زیادہ ہی ہوتی ۔اس طرح بچپن ہی میں تجارت کا شوق پیدا ہوگیا ،  کم عمری میں کولکتا  تلاش معاش  کے لئے  روانہ ہوئے ، جہاں پہلے ملازمت ، پھر ڈاکٹر علی ملپا  صاحب کی شراکت میں کاروبار بھی کیا ، ڈاکٹر صاحب کی دوبھانجیاں یعنی شہاب الدین ملپا صاحب کی نواسیاںیکے بعد دیگرے آپ کے نکاح میں آئیں ، یہی رشتہ ازدواج  ڈاکٹر صاحب سے آپ سے  ربط وتعلق کا سبب بنا ۔ محمد حسین ،محمد تقی ، احمد ، ابو بکر اور عمر جملہ چھ بھائی تھے ، چونکہ والدہ  بارعب خاتون تھیں ، لہذا بچپن  ہی سے غلط عادتوں سے دوری رہی ۔

          کولکتا  میں دس بارہ سال قیام کے بعد آپ  نے چنئی  کا رخ  کیا ،  آزادی سے کچھ سال قبل کا  عرصہ بڑا ہنگامہ خیز  تھا ، اس وقت برصغیر میں خاکسار تحریک کا بڑا چرچہ تھا ، آپ کے بڑے بھائی ملاحسین مرحوم ( مولانا اقبال ملا صاحب کے والد) خاکسار کی بیلچہ بردار تحریک  میں اہم مقام رکھتے تھے ،  علامہ مشرقی کے ساتھ ویلور جیل میں آب بھی قید ہوئے تھے ، اس وقت آپ تھری ڈگری استعمال کی گئی تھی اورٹارچر کرکے سر پر مارا گیا تھا ، جس کا اثر آپ پر آخر عمر تک رہا، بھٹکل کے کئی اور لوگ بھی اس تحریک میں شریک تھے ، یہاں جن تاجروں نے اس تحریک کے ساتھ ہمدردی کی ان میں ایک اہم نام شابندری پٹیل باشا   مرحوم کا بھی ہے ۔ اپنے بڑے بھائی کی دیکھا دیکھی مرحوم بھی خاکسار میں شامل ہوکر اس کا ترانہ

بیلچہ بردار بن

قوم کا سردار بن

اپنی خودی کو  سنبھال

صابر و خود دار بن

تیز چل اے خاکسار یہ رہی منزل تیری

خوف نہ کر سامنے گر تیرے طوفان ہو

 جھوم جھوم کر گانے لگے ۔

            یہاں آپ نے علامہ عنایت اللہ مشرقی کو دیکھا ، مولانا قاضی محمد حبیب اللہ صاحب چیف قاضی مدراس ،  مولانا عبد الوہاب بخاری صاحب پرنسپل نیو کالج ،  مولانا عبد الباری معدنی  صدر المدرسین جمالیہ کالج ﴿ خلیفہ مولانا عبد المجید پنگنوری خلیفہ حضرت مفتی رشید احمد گنگوہی ؒ ﴾ ، ڈاکٹر عبد الحق کرنولی بانی عثمانیہ کالج کرنول ،  وغیرہ چنئی !مدراس کی اہم شخصیات سے قریب رہے ،  ۱۹۷۰ء  جامعہ سے تعلیم ختم کرنے کے بعد جمالیہ میں آپ ہی کی رفاقت میں  مجھے  داخلہ لینے کا اتفاق ہوا تھا ، آپ ہی میری شعوری زندگی کے اس پہلے سفر میں اہل و عیال کے ساتھ ہم سفر تھے ،جمالیہ میں  بخاری صاحب اور عبد الباری  صاحب  کے سپرد ہمیں آپ ہی نے کیا تھا  ، قاضی صاحب کے ساتھ آپ نے شمالی ہند کا طویل سفر کیا اور آپ کے ساتھ یہاں کے دینی مراکز کی زیارت کی ،﴿قاضی صاحب کی بارگاہ میں ہماری پہلی حاضری آپ ہی کی رفاقت میں ہوئی تھی ، جس کے طفیل ہمیں آپ کی بہت ساری شفقتیں ملتی رہیں﴾ یہ تعلق اتنا بڑھا کہ آپ کے خانوادہ بدرالدولۃ کے صدیوں پر مشتمل فتاوی کی اشاعت  کا پروجکٹ آپ نے  شروع کیا تھا ، لیکن یہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔

           پچاس کے اوائل میں ایک تجارتی کام سے آپ کا وجے واڑہ جانا ہوا  اوریہاں پر  معاشی ترقی کے آثار نظر آئے ، تو ﴿ ہوٹل الفا﴾ کے نام سے آپ نے یہاں  ہوٹل کا کاروبار شروع کیا ، بعض مخلصین نے مشورہ دیا کہ انسان کی زندگی  اورموت کا کوئی بھروسہ نہیں ، لہذا بھائیوں کو بھی کاروبار میں شریک کرو، اس مشورہ پر عمل کرتے ہوئے آپ نے اپنے بھائیوں کو ہوٹل میں شریک بنایا ، جو ۱۹۷۴ء تک بڑے آب و تاب سے چلتا رہا۔

          بچپن ہی سے آپ کو مطالعہ کا شوق تھا ، اللہ نے لکھنے کا بھی ہنر دیا تھا ، آپ نے سیرت نگار ی کے ایک مقابلے میں ﴿حضور اکرم ﷺ کی دفاعی تدابیر ﴾ کے عنوان سے مقالہ لکھ کر اولین انعام حاصل کیا ،  انہی دنوں ۱۹۵۵ء میں جب تلنگانہ تحریک نے زور پکڑا اور آپ اپنے ہوٹل میں ایک ماہ تک فساد سے بچنے کے لئے  بند رہے تو ان ایام کی داستان لکھ کر اخبارات کو دی تھی ، اس زمانے میں جماعت اسلامی کی شخصیات مولانا محمد عبد العزیز اور مولانا عبد الرزاق لطیفی مرحوم سے آپ کے گہرے مراسم تھے ، ۱۹۷۰ء کے اوائل میں جب ممبئی سے النوائط اور نقش نوائط کا آغاز ہوا تو آپ ان کے مستقل کالم نگار بنے ، اسی زمانے میں قوم کے اخلاقی بگاڑ پر نائطی زبان میں ﴿ امچی کرنی ﴾ کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی تھی ، جو اس زمانے میں بڑی دلچسپی سے پڑھی گئی تھی ۔ آندھرا نوائط فنڈ کے قیام میں بھی آپ نے اہم کردار نبھایا ۔

            شخصیت میں خوش مزاجی ، ملنساری اور مجلسیت تھی  ، حافظہ بھی خداداد پایا تھا لہذا ہر جگہ ہاتھوں ہاتھ لئے گئے ،سونے پر سہاگہ   عوامی چندے  کے کام میں  میں آپ کی صلاحیت نے کیا ، لہذا جب جامعہ اسلامیہ قائم ہوا تو اس نیک کام میں آپ کو بھی اوائل ہی میں شریک کیا گیا ،آپ کے بھتیجے اور جامعہ کے اولین طالب علم ملااقبال صاحب کی خاندان اور بہت سے متعلقین کی مخالفت کے باوجود جامعہ سے وابستگی میں تعاون  فراہم کرنے والی آپ کی بھی اہم شخصیت تھی۔

            ۱۹۷۳ء میں آپ نے دوسرے اہالیان بھٹکل کی دیکھا دیکھی خلیجی ملک عمان کا رخ کیا اور یہاں مسقط  کے مہدی اسٹور میں بارہ سال تک ملازمت کی ، یہیں آپ کی رفاقت میں بھٹکل مسلم جماعت مسقط و عمان عامۃ الناس سے قریب اور متحرک ہوئی ، آپ جیسے محبان قوم کی کوششوں سے جامعہ اور دوسرے قومی اداروں کو یادگار عمارتیں جماعت کی طرف سے مرحمت ہوئیں ۔ مسقط میں رہ کر جامعہ اسلامیہ سے عوام کو جوڑنے اور ان سے تعاون حاصل کرنے کے لئے آپ نے انتھک کوششیں کیں ، قومی افراد سے ماہانہ چندہ مقرر کیا ، مسقط کے علاقہ﴿ روی ﴾جہاں پر آپ اقامت پذیر تھے ، سخت سل  پتھر کے پہاڑوں سے چاروں طرف گھرے رہنے کی وجہ سے یہاں کی گرمی خلیج کے دوسرے علاقوں کے بہ نسبت بہت سخت ہوتی ہے ، لیکن ان سخت گرمی اور چلتچلاتی دوپہر میں ڈیوٹی سے فارغ ہوکر ،  شرابور حالت میں جامعہ کے لئے دو اور  تین دینار حاصل کرنے کے لئے پیرانہ سالی میں  دو  اور تین منزلہ عمارت کی سیڑھیاں چڑھتے  آپ کو دیکھنے والے کئی افراد آپ کو ملیں گے ۔

            چنئی اور وجے واڑہ میں زندگی گذارنے کی وجہ سے الحاج محی الدین منیری صاحب سے آپ کے تعلقات علیک سلیک تک ہی محدود تھے ، بلکہ مزاج میں ایک حد تک دوری ہی تھی ، لیکن منیری صاحب دور قریب لانے ، حجابات کو دور کرنے میں بے مثال تھے ، دو چار اسفار میں آپ نے حسن صاحب کو خود سے بہت قریب کردیا ، یہ بھی قدر شناس نکلے ،۱۹۸۱ء میں جب منیر ی صاحب کو جامعہ کی نظامت سونپی گئی تو آپ کی عمر ڈھل رہی تھی ، بیماریوں نے کافی  ضعیف اور کمزور کردیا تھا ، لیکن آپ کے حوصلوں کے سامنے بیماریاں کہاں جیت پاتیں ، پہلی میعاد ختم ہونے سے قبل ۱۹۸۸ء میں آپ نے ملاحسن صاحب کو عمان سے بن باس لینے پر آمادہ کیا ، چونکہ دستور کے مطابق نائب ناظم کے اختیار ات ناظم کی غیر حاضری میں شروع ہوتے ہیں ،لہذا  ناظم سے مساوی اختیارات سے مسلح ﴿معاون ناظم﴾ کا عہدہ شوری سے منظور کروایا ،اور آپ کو معاون کی مسند پر فائز کردیا ، اس کے بعد منیری صاحب اور ملاحسن صاحب نے ایک جان دو قالب کی حیثیت سے جامعہ اور جامعۃ الصالحات کے انتظامات سنبھالے ، اور انہیں ترقی کی راہ پر گامزن کیا ۔ منیری صاحب کی زندگی ہی میں آپ نے جہاں جہاں اہالیان بھٹکل ذریعہ معاش اور تجارت سے وابستہ تھے ، ان علاقوں کے مسلسل دورے شروع کئے ، اور عامۃ الناس کو ان اداروں سے قریب کرنے میں جو قربانیاں دیں  ان کی دوسری مثالیں ملنی مشکل ہیں ، کوئی بیس سال قبل ابو ظبی میں آپ کی قیادت میں  خیر سگالی وفد کو نیچے لے جانے والی دس منزلہ لفٹ  ٹوٹ کر قلانچیں مارنے لگیں ،  چار پانچ مرتبہ زوروں سے اوپر نیچے  پٹک کر جھٹکے دئے  ، سب کی  ہڈیاں چٹخنے لگیں ، لیکن تقدیر میں انہیں تادیر زندہ رکھنا لکھا تھا ، اس وقت موت تقدیر سامنے ہار گئی ۔

             ۱۹۹۴ء میں منیری صاحب کی رحلت کے بعد آپ کو ناظم جامعہ منتخب کیا گیا ، اوردو میعاد تک آپ اس منصب جلیلہ کے ساتھ انصاف کرنے کی بھرپور کوشش کی ، جس دوران آپ کو ماسٹر محمد شفیع شابندری ، مولانا عبد العلیم قاسمی ، محمد علی شرالی ، جیسے رفقاء کا بھر پور تعاون  حاصل رہا ، آپ نے اس دوران  اپنے فریضہ منصبی کی ادائیگی کے لئے اپنی صحت تک قربان کردی ،منظم تعلیم نہ پانے کے باوجود توفیق یزدی سے آپ نے وہ کام انجام دئے ، جو بڑے پڑھے لکھے لوگوں کے ہاتھوں انجام نہیں پاتے ، آپ کے دور میں جامعہ نے ترقی کے بہت سے مراحل طے کئے ، آپ کے دور میں علمائے ہند کے ساتھ عموما اور ندوے کے ساتھ خصوصا تعلقات بہت مضبوط ہوئے ، آپ کے دور نظامت میں مختلف علمی سرگرمیاں بھی فروغ پائیں جن میں ، ﴿مولانا محمد الیاس ندوی صاحب کی کتاب سیرت سلطان ٹیپو کی تقریب اجرا﴾ء ، اور ﴿سیمینار رابطہ ادب اسلامی﴾  تاریخی نوعیت کے  حامل ہیں ، آپ کے دور نظامت میں جامعہ کی مرکزی درسگاہ کی عمارت تکمیل کو پہنچی ، جامعہ آباد میں نئی عالیشان مسجد اور  اجلاس گاہ کی عمارت کا آغاز  بھی اسی دور میں ہوا ،  آپ جماعت المسلمین بھٹکل کے صدر بھی رہے ، جب تک ہوش رہا یہی کہتے رہے کہ اللہ تعالی مرنے سے پہلے کوئی نیک کام لے لے  ، ایسا لگتا ہے کہ اللہ سے آپ نے جتنا مانگا تھا ، اس سے کہیں  زیادہ ہی ملا ،  جامعہ اور دینی ادارے جیسے جیسے ترقی پاتے رہیں گے اپنے اس محسن کو یاد رکھیں گے  ، کیا خوب شخص تھا ، محفل کو اداس کرگیا ، اللہ درجات بلند کرے۔آمین

دبی :  ۱۱۔۰۳۔۲۰۱۶ء