تجلیات رحمانی یا فیوض رحمانی کا یہ مبارک سلسلہ تو حضرت شاہ فضل رحمن گنج مراد آبادی رح سے جڑا ہوا ہے حضرت مولانا محمد علی مونگیری رح انکے فیض سے اس طرح بہرہ ور ہوئے کے ایک عالم کو سیراب کیا
ندوة العلماءکی بنیاد رکھی
خانقاہ رحمانی کو آباد کیا
جامعہ رحمانی کی بنیاد ڈالی
لو گوں کے دلوں کو صیقل کیا
ایک خلقت کی اخلاقی تر بیت کی
معاشرہ کو شرک و بدعات سے پاک کیا
عیسائی مشنری کا مقابلہ کیا اور مسلمان بچوں کو عیسائیت کے پنجہ سے نکالا اور پادریوں کے قدم ملک میں جمنے نہیں دئے ہر باطل تحریک کا مقابلہ کیا
قادیانیت کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھیکنے کیلئے اپنی پوری طاقت لگادی
پھر جب انکے چھوٹے صاحب زادہ مولانا سید منت اللہ رحمانی کا عھد آیا تو زمانہ کروٹ بدل چکا تھا نئے حالات اور نئے مسائل کا سامنا تھا آزادی کی جنگ میں خود بنفس نفیس جیل بھی گئے قربانیاں بھی دیں لیکن آزادی کی صبح اس طرح طلوع ہوئی کہ کہیں چراغاں ہو رہا ہے تو کہیں کشتوں کے پشتے لگ رہے ہیں
اس قوم کا کیا حال ہوگا جو اپنا سب کچھ لٹا کر ہوش میں آئی تو کیفیت یہ تھی کہ
چمن چمن ہی نہیں جس کے گوشے گوشے میں
کہیں بہار نہ آئے کہیں بہار آئے
انھوں نے ایک تاریخ رقم کرنے کا فیصلہ کیا اور پوری عزیمت سے حالات کا مقابل کرنے کے لئے اللہ کا نام کر پھر میدان میں آگئے
آزادی سے پہلے بھی ایسے حالات ہوئے جنکو دیکھ کر کلیم عاجز صاحب کو شاعر بننا پڑا
"وہ جو شاعری کا سبب ہوا" پڑھئے اور اندازہ کیجئے
1947 میں دہلی اور پنجاب کے قتل عام کی دا ستان بھی پڑھیے اور اسکے بعد راوڑ کیلا مرادآباد بھاگلپور جبلپور مئو میرٹھ ہر جگہ کی خونچکاں داستان کو نگاہوں کے سامنے لائیے پھر اندازہ کیجئے مولانا منت اللہ رحمانی نے جو نئی تاریخ رقم کی ہے وہ کتنی اہم ہے ؟ اور ان میں او ر دوسرے سیاسی رہنماوں میں کتنا فرق ہے ؟
مولانا منت اللہ رحمانی اخلاص عمل کی علامت اور ایمانی فراست کی نادر مثال تھے حق گوئی و بیباکی اور جرآت و شجاعت انکی طبیعت ثانیہ تھی
میں نے ان سے زیادہ باعزیمت صاف گو اور دینی و دنیوی تمام معاملات میں اصول پسند کوئی دوسرا عالم نہیں دیکھا
وہ کسی بھی مسئلہ کو ایک ماہر قانون داں کی طرح جرح کئے بغیر تائید کیلئے قبول نہیں کرتے لیکن جب اطمینان ہو جاتا تو پھر تائید بھی بھر پور کرتے تھے اور صاحب حق کو حق دلا کر ہی دم لیتےتھے
مولانا منت اللہ رحمانی ایک عظیم مصلح اور رہنما تھے انکی ذات تنہا فکر وعمل کی ایک دنیا تھی وہ علم و روحانیت کے ساتھ تعمیری فکراور مجاہدانہ عزیمت کا پیکر تھے
مسلمانوں کا تشخص مٹانے اور انکو اسلامی قانون سے دور کرنے کی کوشس ہوئی تو مسلم پرسنل لا بورڈ قائم کیا اور پوری امت کو اس پلیٹ فارم پر جمع کرلیا
امارت شرعیہ کو سب سے متحرک اور باوقار ادارہ بنادیا
مسلم نوجوانوں کیلئے ٹیکنیکل ادارے قائم کیے قاضیوں اور مفتیوں کی ٹریننگ کے لئے معھد قائم کیا
امت کے عمومی مسائل کو حل کرنے اور تعلیمی شعور بیدار کرنے کیلئے ادارے قائم کئے تحریکیں چلائیں
ان کی شخصیت در اصل مولانا سید محمد علی مونگیری کی رو حانی نسبت مولانا محمد سجاد کےذوق عمل اور انکی ایمانی فراست اورسیاسی و فقہی بصیرت اور مولانا سید حسین احمد مدنی کی ناقابل تسخیر قوت ارادی اور عزیمت کا حسین امتزاج تھی
حقیقت یہ کہ میں نے اپنی ذہنی تعمیر میں ان سے بہت کچھ سیکھا مسائل کو حل کرنے کا طریقہ بحث و استدلال کا انداز اور لوگوں کے مقام کا لحاظ اور انکے مزاج کی شناخت یہ تربیتی کورس سے کم نہیں اور دسیوں کتابوں کے مطالعہ سے زیادہ مفید اور اہم ہے
مولانا محمد ولی رحمانی کیسا تھ اس معاملہ میں ایک حد تک میں شریک تھا اس فرق کے ساتھ کہ وہ انکے لخت جگر تھے میں عقیدت کیش یہ درس ان کا روز مرہ تھا جبکہ مجھے استفادہ کا موقع کبھی کبھی ملتا تھا مجلس شوری کے اجلاس میں شرکت کیلئے انکی آمد پر یا بورڈ کے اجلاس میں شرکت کے دوران یاجب وہ ایک ماہ تک دہلی ویسٹرن کورٹ کے ایم پی ہاوس کے فلیٹ میں یونس سلیم صاحب اور بعض دوسرے اہل بصیرت سے مشورہ کیلئے مقیم تھے اور دارالعلوم کے مسئلہ کی گتھی سلجھانے کیلئے محض حضرت قاری محمد طیب صاحب کی ہمدردی میں اور انکی بے بسی اور مظلومیت کا امکانی حد تک تدارک کر نے کیلئے کوشاں تھے
انکی سیاسی بصیرت صاف گوئی کی عادت معاملہ فہمی اور جرآت کا جو ذکر کیا جارہا در اصل مولانا منت اللہ رحمانی کی شخصیت کا پرتو اور انکی خاموش عملی تربیت کا اثر تھا وہ پختہ عزم کے انسان تھے اور انکو اپنی رائے پر اصرار بھی تھا چنانچہ
زندگی میں مولانا محمد ولی رحمانی کے ناقدین کی تعداد بھی کم نہیں تھی اور کام کر نے والے تنقید کا شکار ہو تے ہی ہیں بعض امور میں مجھے بھی انکی توجہ مبذول کرانے کا خیال ہوا اور ان سے اس کا ذکر خاص طور پر کیا
کہ مولانا مجاھد الاسلام قاسمی اور مولانا نظام الدین صاحب مولانا منت للہ رحمانی صاحب کے ساختہ پرداختہ اور معتمد و مخلص تھے ان سے رشتہ ہر طرح کے تحفظ سے بلند تر اور تقدیم ماحقہ التقدیم کے اصول پر رہے تو وہی مولانا ولی صاحب کو انکےوالد بزرگوار کامقام دلا نے میں پل ثابت ہونگے اور ہوا بھی یہی
مولانا ولی رحمانی کے او پر ساری ذمہ داریاں آگئیں جنکی ادائیگی میں وہ لگے کچھ نئے کام بھی شروع کئے لیکن انکے انتقال کے حادثہ نے سارا ماحول ہی بدل دیا اور مستقبل کے بارے میں اندیشے پیدا کردئے
مولانا محمد ولی رحمانی کے اچانک چلے جانے سے امت ایک صاحب فہم وذکا ایک عالی دماغ معاملہ فہم بیباک اور جری قائد سے محروم ہوگئی ہے اور ایک ایسے وقت میں خود کو یتیم محسوس کر نے لگی ہے جبکہ ہر طرف سے اسلام اور مسلمانوں پر یورش اور یلغار کا سلسلہ جاری ہے
انکے انتقال پر ہر حلقہ ہر جماعت اورہر بڑی شخصیت کی طرف سے جو تعزیتی پیغامات آئے ہیں اور جنازہ کی نماز میں انسانوں کا جو سیلاب امڈ آیا وہ مولانا کیلئے فال نیک اور امت کی طرف سے پس مرگ انکی قیادت کا اعتراف اور اس پر اعتماد کا اظہار ہے اور اس طرح
ع مرکے جوہر آپ کے جوھر کھلے
یوں بھی زبان خلق کو نقارہ خدا ہی کہا جاتا ہے
اللہ تعالی انکو فردوس برین میں جگہ دے اور ان کےبعد خانقاہ جامعہ اور امارت سب کا نگہبان ہو انکو صحیح اور مخلص رجال کار نصیب ہوتے رہیں
مولانا محمد ولی رحمانی جو کل تک سرگرم عمل تھے کئی اسٹیج کی رونق تھے کئی کام انکے نام یانسبت سے موسوم تھے آج سنت الہی کے مطابق اپنے جد امجد مولانا محمد علی مونگیری اور والد ماجد مولانا سید منت اللہ رحمانی کے پہلو میں زیر زمیں اپنی برزخی آرامگاہ میں تزک و احتشام کے ساتھ لٹادئے گئے لوگوں کا عظیم مجمع تھا آنکھیں اشکبار تھیں غم کا ماحول چھایا ہوا تھا
جنازہ میں اتنی کثیر تعداد کی شرکت یقینا فال نیک ہے
مجھے اندازہ نہیں تھا کہ خود میری طبیعت اس حادثہ سے اتنی زیادہ متاثر ہوگی لیکن اب احساس ہو تا ہے کہ :
مصائب اور تھے پر انکا جانا
عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے
میرے انکے تعلقات بھی عجیب تھے نہ میں ان کا شاگرد تھا نہ مرید تھا
اور نہ اس معنی میں معاصر کہ وہ عمر میں مجھ سے بڑے تھے انکی فرا غت بھی تقریبا آٹھ سال پہلے کی تھی لیکن ہم دونوں کی عقیدت کا مرکز ایک ہی شخصیت یعنی انکے والد گرامی مولانا منت اللہ رحمانی تھے
مولانا محمد ولی دوستوں کے در میان نہایت باغ وبہار رہتے
فطری ذہانت وسیع معلومات ادبی ذوق زبان پر قدرت طنز و تعریض اور فقرہ بازیوں میں مہارت ان اوصاف کی وجہ سے عام مجلسیں ہمی زعفراں زار بن جایا کرتی تھیں
بہت لگتا ہے جی محفل میں انکی
وہ اپنی ذات سے۔ اک انجمن ہیں
بڑوں کی مجلس میں اتنے ہی نہایت سنجیدہ زود فہم اور دماغ کی زر خیزی کی وجہ سے تجویزوں خاکوں اور پرو گراموں ایک دنیا انکے ساتھ
اقبا ل کے بقول ؛
ہر ایک سے آشنا ہوں لیکن جدا جدا رسم وراہ میری
کسی کا راکب کسی کا مرکب کسی کو عبرت کا تا زیانہ
ہم دونوں میں ایک دوسرے کی قدر
تنقید و تبصرہ کمی نہیں رائے میں اتفاق ہو یا اختلاف مقصد میں ہم آہنگی
بعض شخصیتوں سے تعلق سوید ائے قلب میں اس طرح پیوست ہو جاتا ہے کہ آدمی کو خود احساس بھی نہیں رھتا لیکن اس کا منظر ذہن سے جلد غائب بھی نہیں ہوتا اور کوشش کے باوجود ذہن اسی طرف چلا جاتا
غالبا اسی طرح کی کیفیت کی کسی نے تعبیر کی ہے:
ارید لانسی ذكرها فكأنما
تمثل لي ليلي بكل سبيل
مولانا محمد ولي رحمانی کی ذات ہمیں اس لئے عزیز تھی کہ وہ حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی کے لخت جگر تھے اور مولا نا انکو اپنا جانشیں دیکھنا چاہتے تھے اور
اس لئے بھی عزیز تھے کہ وہ اپنی شکل وصورت ذاتی وجاہت خاندانی نجات و شرافت کے ساتھ اپنی ذکاوت وذہانت زبان کی طلاقت
آور علمی لیاقت ہر لحاظ سے اس و فائق اور رحمانی خاندان کی نمائندگی کیلئے نہایت موزوں تھے
اسلئے بھی عزیزیز تھے کہ مستقبل میں دینی غیرت و حمیت رکھنے والے جرآت مند اور بیبا ک قائد کی مکمل شبیہ انمیں نظر آتی تھی اور
اسلئے بھی کہ انہوں نے سب سے مخلص اور غیرت مند قائد اور عظیم باپ کی نگرانی میں تربیت پائی تھی اور مسلم پرسنل لا بوڈ کی تشکیل کے دن سے اسٹیج سے دور لیکن اپنے والد محترم کے ساتھ رہے اور مولانا مجاھد الاسلام قاسمی اور مولانا نظام الدین صاحب کے کاموں کو قریب سے دیکھا جو مولانا منت اللہ رحمانی کے دست و بازو کی حیثیت سے انکی ہدایت کے مطابق بورذ اور امارت کے کام انجام دے رہے تھے
ملت کی صف اول کی قیادت سے انکا شروع سے تعارف تھا
او رملک کے سیاسی ڈھانچہ کو انہوں نے کونسل کی ممبر ی کے دوران اچھی طرح سمجھا اور انمیں حالات کے مطابق فیصلے کرنے کا حوصلہ بھی تھا
اس طرح کے اور بھی اسباب تھے جنکی وجہ سے ہمارے دل میں انکی بےحد قدر تھی اور ان سے بڑی توقعات وابستہ تھیں
ان تما م خصوصیات کے باوجود انکی تر تیب میری نظر میں مولانا مجا ھد الاسلام اور مولانا نظا م الدین کے بعد ہی تھی اور عملا ہوا بھی یہی
تین بڑی شخصیتوں کے جلو میں تین نوجوان قائدین کی تیاری خاموشی کے ساتھ اس وقت جاری تھی جب میں بھی حاضر تھا وہاں
مولانا منت اللہ رحمانی کے زیر سایہ مولانا محمد ولی رحمانی مونگیر
مولانا ابو السعود کے زیر سایہ مولانا مفتی اشرف علی باقوی بنگلور
مولانا حکیم محمد زمان الحسینی کے زیر سایہ
حکیم عرفان الحسینی کلکتہ
سب کی صلاحیتیں الگ الگ تھیں
یہ سب اپنے بڑوں کے ساتھ اطاعت اور سعادتمندی کی بہترین مثا لیں تھیں
میرا رابطہ بھی انکے ساتھ اکثر اجتماعات اور کانفرنسوں کے موقع پر ہی ہوتا ہوتا تھا اور نہایت بے تکلفی کے تعلقات قائم ہوگئے تھےاب تینوں ہی اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں اللہ تعالی انکے درجات بلند فرمائے
مولانا ولی رحمانی نے جامعہ رحمانی کے علاوہ رحمانی فاؤنڈیشن قائم کیا
رحمانی 30 کا کامیاب پروگرام بنایا
متعدد تعلیمی ورفاہی ادارے قائم کئے
مسلم پرسنل لا بورڈ کے مختف شعبوں کو زیادہ فعال بنایا
پرو گرام تو اور بہت کچھ کرنے کا تھا لیکن زندگی کے دن ہی باقی نہ رہے (وکان امر اللہ قدرا مقدورا)
داعی اجل کو لبیک کہنا تو ہر ذی روح کا انجام ہے کل نفس ذائقة الموت كے اعلان عام سے مفر کسی کو نہیں ہے (والیه ترجعون)
رحمه الله رحمة واسعة واسكنه فسيح جناته والحقه بأبائه واطر عليه شأبيب رحمته ورضوانه