تبصرات ماجدی(۷۲)۔۔۔ گنج ہائے گراں مایہ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

07:56PM Wed 5 Aug, 2020

(72) گنج ہائے گرانمایہ

از جناب رشید صاحب صدیقی،ضخامت 219 صفحے، اردو بک ایجنسی، علی گڑھ

خنداں کے بعد گریاں! رشید صدیقی کا نام سب جانتے ہیں، یہ علم کم لوگوں کو ہوگا کہ وہ اگر ہنس سکتے اور ہنساسکتے ہیں تو رو بھی سکتے ہیں اور رلا بھی سکتے ہیں، ان کے مزا حیہ مضمون کے مجموعے پہلے نکل چکے ہیں، یہ تازہ مجموعہ ان کے تعززیتی مضامین کا ہے۔ ظریف کے آنسو! آنسو نہیں موتی کے دانے ہوتے ہیں۔ اردو کا یہ شوخ نگار آج سوگوار اپنے محبوبوں کے مزار پر عقیدت و محبت کے پھول ہاتھ میں لیے فاتحہ پڑھنے نکلا ہے، اس کا اداس چہرہ، اس کا اداس بشرہ، اس کا حسرت انگیز لہجہ سب قابل دید ہیں۔محبوبوں کے نام آپ سنیں گے؟ ان میں سے بعض تو یقینا آپ کے بھی محبوب ہوں گے۔ (۱) محمد علی۔ (2) ڈاکٹر انصاری۔ (3) مولانا سلیمان اشرف۔ (4) مولانا ابوبکر محمد شیث۔ (5) اصغر گونڈوی۔ (6) ایوب عباسی۔ (7) اقبال۔ (8) احسن مار ہروی۔ اقبال، محمد علی، انصاری کو تو ایک دینا جانتی ہے۔ دونوں مولانا بھی علی گڑھ کے حلقے میں خوب مشہور صرف ایک ایوب عباسی سے دنیا ناواقف تھی، اب واقف ہوجائے گی۔مضمون بڑا کوئی بھی نہیں، سب لکھے ہوئے ہیں، لکھوائے ہوئے نہیں ہیں، لیکن محمد علی والا مضمون مختصر ہونے کے باوجود سب سے ممتاز ہے، اپنی مثال آپ ہے، لکھنے والے کے لیے باعثِ فخر ہے موجب اجر بھی، ایک بار سچ میں نکل چکا ہے مستحق اس کا ہے دوبارہ چھپے بار بار چھپے۔کتاب سب کے پڑھنے کے قابل ہے، نوجوان طلبہ کے لیے خصوصا وہ دیکھیں اور سمجھیں کہ جو قلم لطیف مزاح پر قادر ہے وہ تعزیت سے معذور نہیں، اور جو قلم لطف و مسرت کی گدگداہٹ کا خزانہ ہے وہ درد و غم کی بھی کسک سے خالی نہیں۔ ادیب بننے سے پہلے شریف ہونا ضروری ہے اور یہ کتاب ایک خادم کی شرافت کی دستاویز ہے۔

صدق نمبر 19 جلد 8 مورخہ 7 ستمبر 1942

--------------------------------------------------------------------------------------------------------- (73) چند ہم عصر از ڈاکٹر مولوی عبد الحق صاحب،217 صفحہ تقطیع 22x18  قیمت تین روپیہ، انجمن ترقی اردو۔ اردو روڈ کراچی (پاکستان)

اپنے معاصرین پر قلم اٹھانا جہاں اس لحاظ سے آسان بھی بہت ہے کہ جتنے موقع ان سے واقفیت کے حاصل رہتے ہیں، اتنے گزشتہ تاریخی شخصیتوں کے لیے کہاں ممکن ہیں، وہیں اس اعتبار سے سخت دشوار بھی ہے کہ قلم ان پر لکھنے کے لیے آزاد نہین ہوتا، بلکہ کہیں دباؤ، کہیں مروت، کہیں خوف، کہیں لالچ، کہیں خوشامد، کہیں حسد، غرض کوئی نہ کوئی بیڑی قلم کے پیر میں پڑی ہی رہتی ہے۔۔۔ قابل داد ہے وہ صاحب قلم جو ان سب بیڑیوں کو توڑ تاڑ اپنی آنکھوں دیکھے ہوئے لوگوں کی سیدھے سادے لفظوں میں رنگ آمیزی کے بغیر (رنگ آمیزی کے بغیر ، “ رنگ’’ کے بغیر نہیں ) تصویر کھینچ لے جائے۔بابائے اردو مولوی عبد الحق کچھ اس قسم کا مذاق فطرت ہی سے لے کر آئے ہیں، آدمی جذباتی نہیں معقولی قسم کے ہیں اور پھر جو کچھ محسوس کرتے ہیں اسے لگی لپٹی کے بغیر بے دھڑک کہہ بھی ڈالتے ہیں، اپنی اس صلاحیت کا صحیح اندازہ کرکے انھوں نے اپنے 23 ہم عصروں کے چربے تیار کردیے ہیں۔ اور ان 23 میں کوئی قید بڑے چھوٹے کی نہیں، ان میں نامور مشاہیر بھی ہیں، جیسے سر سید، حالی، امیر مینائی و محمد علی اور گمنام بھی نور خاں اور نام دیو مالی اور بعض ایسے بھی جو نہ شہرت کے نام بلند پر ہیں نہ گمنامی کے قعر میں بلکہ دونوں کے اڈھر میں، جیسے ڈاکٹر شیخ اقبال میرن صاحب اور پروفیسر ریبٹ سک ۔۔۔ اور تقسیم عنوانات اگر بجائے طبقاتی کے زمانی معیار سے کیجیے تو مجموعہ کے سب سے پہلے مضمون پر تاریخ 1900 درج نظر آئے گی اور سب آخری پر سنہ 1953 پڑا ہوا، گویا ایک ادیب کی 50 سال سے اوپر کی مشق قلم کا مرقع، مجموعہ کی ندرت کا یہ پہلو بھی نظر انداز کردینے کے قابل نہیں۔کتاب شروع سے آخر تک سنجیدہ ہے اور سنجیدگی کے مرادف نہیں۔ اشخاص و رجال کے کرداری خصوصیات پر روشنی بھی اس سے خوب پڑتی ہے۔ مشاہیر و غیر مشاہیر دونوں کی زندگیوں کو مصنف نے خوب خوب پرکھا، جانچا، تولا ہے۔ مضمون اپنی اپنی جگہ سب ہی قبل مطالعہ ہیں لیکن نمبر اول پر میرن سوز خوان پر ہے۔ یہ وہی میرن صاحب ہیں جن کا ذکر غالب کے خطوط میں بار بار آرہا ہے، بابائے اردو قدیم صحبتیں دیکھے ہوئے ہیں اور ساتھ ہی بزم جدید کے میز کے بھی مزے اٹھائے ہوئے ہیں، اس لیے ان کے قلم میں قدرۃ دونوں رنگ کی دل چسپیوں کا منظر کھینچ آیا ہے۔ زان کی خدمت میں ان کی عمر گزرچکی آج کس کی مجال ہے جو ان کی زبان پر حرف گیری کر سکے پھر بھی بھول چوک لازمۂ بشریت ہے، دو جگہ ذرا کھٹک پیدا ہوئی، شبہات محض استفادۃ عرض خدمت ہیں۔ خواجہ غلام الثقلین مرحوم کے حالات میں لکھتے ہیں:“ان پر مذہب کا رنگ گہرا چڑھ گیا تھا۔ اور ان کے آخر زمانہ کی تقریروں اور تحریروں کے فقرے فقرے سے مذہب کی بو آتی ہے۔ ’’ (ص 109)لفظ “بو’’  فارسی میں جو بھی وسیع مفہوم رکھتا ہو اردو میں ‘بو’ اور ‘‘بو آنا’’ تو صرف محل ذم پر آتا ہے۔ اور ‘‘بدبو’’ کے معنی میں چلا ہوا ہے۔اسی طرح ص 183 پر غدر کے حالات میں ہے:‘‘سارے شہر میں بھاگڑ مچ گئی۔ سینکٹوں گولی کا نشانی بنے، صدہا سولی پر چڑھادیے گئے’’۔‘سولی’ بے شک بعض اہل زبان ‘پھانسی’ کے معنی میں بھی لکھ گئے ہیں، تاہم مصنف کے قلم حقیقت رقم کے زیادہ شایان شان یہ فقرہ ہوتا ‘‘صدہا پھانسی پر لٹکادیے گئے۔’’کتاب چند ہی سال کے عاصہ مین چوتھی بار شائع ہوئی ہے اور اب کی پانچ مقالوں کے اضافہ کے ساتھ حسرت موہانی، عبد الرحمن صدیقی اور عبد الرحمن بجنوری وغیرہ کتاب کے حسن قبول کی دلیل اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی۔ اوس حسن قبول بلا وجہ نہیں۔

صدق جدید، نمبر 42 جلد 8 ،8 مارچ 1943

------------------------------------------------- (74) شیش محل از شوکت تھانوی، اردو بک اسٹال، لاہور

شوخ نگاری و ظرافت دوسروں کے لئے پطرس بلکہ رشید صدیقی تک کے لیے ایک مشغلہ تفریح رہی ہے۔ شوکت نے اسے اپنا مستقل فن بنا لیا ہے اور قدرتا ان کی نگاہ ایک فنکار کی نگاہ ہوگئی ہے۔ ان کا قلم ایک فن کار کا قلم ہے۔ شیش محل ان کے مطالعہ بشری کا ثمرہ ہے۔ اپنے ملنے والوں کے چہرے حروف تہجی کی ترتیب سے انھوں نے اس قلمی آئینے میں دکھائے ہیں۔ سب کے سب کسی نہ کسی حیثیت سے ادب ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ افراط نازک خیالی سے کہیں صرف کتب فروشی کو بھی اس تعلق کے لیے کافی سمجھ لیا گیا ہے۔ یہ قلمی نگار خانہ یا یوں کہیے کہ ایک عجائب خانہ ہے بعض ان مشاہیر میں اتنے مشہور کہ ان کا تعارف بھی ان کی توہین۔ بعض ایسے گمنام کہ اتنی تعریف و تعارف کے بعد بھی مجہول کے مجہول۔ ان میں ہندو بھی ہیں اور مسلمان بھی، بوڑھے بھی ہیں اور جوان بھی۔ بعض ایسے ہیں جو سب کچھ ہیں، بعض ایسے ہیں جو کچھ بھی نہیں۔ ایسے بھی جن کا پیچھا شہرت نہیں چھوڑتی، ایسے بھی جو شہرت کی تلاش میں دوڑتے دوڑتے تھک گئے ہیں۔ غرض ریاض خیر آبادی، ڈاکٹر عبد الحق، حسرت موہانی، جگر مراد آبادی سے لے کر افقر موہانی، امید امیٹھوی اور صدیق بکڈپو تک ہر ردیف، ہر قافیہ، ہر وزن، ہر بحر کے نمونے۔ اس دیوان میں شاعر کہیں تو خالی مصرعہ طرح پڑھ کر چپ ہوگیا ہے اور کہیں دو غزلہ سہ غزلہ چھڑ دیتا ہے۔ چہرے یقینا دلچسپ و دلکش سب کے ہیں اور یہی فن کار کا کمال ہے، البتہ کوئی چہرہ اترا ہوا، کوئی ذرا لٹکا ہوا، کسی پر رعنائی و زیبائی کا نقاب پڑا ہوا، کسی پر روغن حسن افزا کا غازہ بھرا ہوا، کسی کی پیشانی پر شکن، کسی کے چشم و آبرو پر غضب کا بانکپن۔ کمی اور بڑی کمی اس کتاب میں یہ ہے کہ نگار خانہ خود مصور کے مرقع سے خالی ہے ...... مجنوں کا ڈرامہ بغیر مجنوں کے پاٹ کے یا برات بغیر نوشہ کے، عرضی دعوی بغیر بقلم خود کے؟ ...... ظریف کی ستم ظریفی۔

صدق جدید، نمبر 26 جلد 9 ،یکم نومبر  1943

http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/