وزیر اعلیٰ کی ڈگر سیدھی اور نرم۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی

Bhatkallys

Published in - Other

11:50AM Thu 13 Jul, 2017
آدتیہ ناتھ یوگی کا اْترپردیش کا وزیر اعلیٰ بننا پردیش کی ایک اعتبار سے خوش نصیبی ہے۔ آزادی سے پہلے اور بعد میں دو بار پنڈت گووند ولبھ پنت اور اْن کے بعد ڈاکٹر سمپورنانند کا وزیر اعلیٰ بننا ہندوؤں کو خوش کرنے کے لئے تھا۔ پنت جی نے ایودھا میں انہیں رام جنم بھومی دی اور سمپورنانند نے اردو کو مسلمانوں کی زبان بتاکر اْترپردیش سے نکال دیا۔ اس کے بعد گپتا جی، کملاپتی ترپاٹھی، نرائن دت تیواری، ہیم وتی نندن بہوگنا، چودھری چرن سنگھ، راجہ وشوناتھ پرتاپ سنگھ یا ملائم سنگھ اور مایاوتی ان سب کو کانگریس نے بنایا یا خود بنے تو اس کا خیال رکھا گیا کہ مسلمان جتنے بھی آسکیں ساتھ آجائیں اور ساتھ رہیں۔ پچاس برس میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اْترپردیش میں حکومت بنے اور اس میں مسلمانوں کا حصہ نہ ہو یا ان کا خیال نہ رکھا جائے یا ہندو کو یہ خیال نہ ہو کہ یہ کام صرف مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے کیا ہے۔ اور وہ کام صرف مسلم ووٹ کے لئے کیا ہے۔ یوگی سرکار آزادی کے بعد اور سمپورنانند کے بعد پہلی سرکار ہے کہ اگر یوگی جی آدھا اْترپردیش مسلمانوں کو دے دیں تب بھی ہندو یہ نہیں سوچیں گے کہ مسلم ووٹ کے لئے دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سکون سے اپنی مرضی کا اْترپردیش بنا سکتے ہیں۔ انہیں بھی معلوم ہے اور ویرساورکر جیسے بہت بڑے ہندو لیڈر بھی کہہ چکے ہیں کہ گائے جانور ہے۔ یا بیل کو کوئی ہندو، ماما یا بھائی نہیں مانتا، اگر مانتا ہوتا تو بابا گورکھ ناتھ مندر میں گؤ شالہ کے ساتھ بیل شالہ بھی ہوتا۔ اسی طرح بھینس یا اونٹ سے ہندو کا کوئی رشتہ نہیں ہے وہ گدھا گھوڑا ہاتھی اور کتے کی طرح جانور ہیں اگر عیسائی یا دلت خنزیر کھاتے ہیں تو مسلمان بھینس بیل اور اونٹ کا گوشت کھاتے ہیں۔ ہندو جیسے سور کے کٹنے اور بکنے پر کوئی اعتراض نہیں کرتے ایسے ہی گائے کے علاوہ کسی جانور پر نہیں کرنا چاہئے۔ بھینس کا گوشت، غریب مسلمان اس لئے کھاتے ہیں کہ وہی سب سے سستا سالن ہے غریب مسلمان جن کی اکثریت ہے وہ سبزی خرید کر پکانے کی حیثیت نہیں رکھتے صرف آلو ایسی سبزی ہے جو ہر مسلمان کے دسترخوان پر ہوتی ہے۔ اس لئے کہ صرف یہی سبزی ہے جس میں پانی ڈال کر اسے پورا گھر کھاسکتا ہے۔ غریب مسلمان ہوں یا غریب ہندو وہ صرف اس لئے دال کھاتے ہیں کہ اس میں جتنا چاہو پانی ملالو ہم نے اپنے بچپن سے آج تک ایسی دال نہیں کھائی جس میں دال کے دانے چشمہ لگاکر ڈھونڈنا پڑیں۔ اپنے ہی گھر میں جہانگیر آباد سے ایک لڑکی گھر کے کاموں میں مدد کرنے کے لئے ایک صاحب نے لاکردی اور بتایا کہ آپ لوگوں کے معیار کا گوشت تو نہیں، باقی پورا کھانا یہ پکا لیتی ہے۔ ہماری بہو نے دال تیل مصالحے اور چاول دیئے کہ یہ تم پکالو گوشت ہم آکر پکالیں گے۔ سب لوگ کھانے پر بیٹھے تو ایک ڈونگے میں دال کا سوپ رکھا تھا جب اسی لڑکی سے معلوم کیا کہ یہ کیا ہے؟ تو اس نے جواب دیا جیسی دال ہم اپنے گھر پکاتے تھے ایسی پکادی۔ ہم نے سب سے کہا کوئی ایک لفظ نہ کہے۔ اور دوسرے دن اسے بتایا کہ ہمارے گھر میں دال چاول اور روٹی کیسے بنتی ہے؟ لیکن دل رو دیا کہ غریب کا کھا رہا ہے؟ بات ہندو مسلمان کی نہیں غریب اور خوشحال لوگوں کی ہے۔ وزیر اعلیٰ مسلمان کے شوق کے لئے نہیں ان کی غربت کا لحاظ کرتے ہوئے وہ بھینس جو ناکارہ ہو وہ بھینسا جو باربرداری کے لائق بھی نہ ہو وہ بیل جو کھیت اور بیل گاڑی کے لائق نہ ہو وہ اونٹ جو لنگڑا ہو یا کمزور ہوگیا ہو اس کے بارے میں کھل کر اپنی رائے دیں کہ ان کے کٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور مسلمان یا کوئی اور کھاتا ہے تو ہندو کو اعتراض نہ کرنا چاہئے اس لئے کہ یہ گائے نہیں ہیں۔ یوگی جی اب وزیر اعلیٰ ہیں ہندو مسلمان سب کا ساتھ سب کا وکاس ان کا نعرہ ہے انہیں مسلمان کی تھالی اور ہندو کی تھالی دونون کا خیال کرنا پڑے گا اس لئے کہ ان پر دونوں کی ذمہ داری ہے۔ وہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ہندو کی تھالی میں سبزی کم ہوتی ہے جارہی ہے۔ کھیرا ہمارے لئے ضروری ہے لیکن جب بتایا جاتا ہے کہ 50 روپئے کلو ہے تو ہم منع کردیتے ہیں کہ نہ لانا انہیں ہندو کا بھی خیال کرنا چاہئے کہ ہر سبزی دوگنی اور تین گنی قیمت پر بک رہی ہے اور جب اْترپردیش کے 22 کروڑ باسی دال پر رہ جائیں گے تو دال 200 روپئے نہ ہوگی تو کیا ہوگی؟ یہ باتیں چھوٹی چھوٹی اور معمولی ہیں۔ اگر ان باتوں کو ملائم سنگھ کہیں یا راج ببر تو ہندو سوچیں گے مسلمان ووٹ کے لئے کہہ رہے ہیں لیکن اسے یوگی یا ساکشی مہاراج کہیں گے تو ہندو عقل کی بات سمجھ کر مانے گا۔ یہ کوئی فخر کی بات نہیں صرف ضرورت سمجھ کر لکھ رہے ہیں کہ میرے 27 سال پہلے پیس میکر لگا میری بیوی کی صحت بھی خراب رہنے لگی بڑے بیٹے ذوالنون نے اعلان کردیا کہ آج سے گھر میں بڑا گوشت نہیں آئے گا۔ بکرے اور بھینس کے گوشت کی حیثیت میں ہمیشہ بہت فرق رہا ہے۔ میری بیوی نے کہہ دیا کہ پابندی نہ لگاؤ کم کردیں گے۔ مگر میرے بیٹے نے کسی کی نہ چلنے دی۔ 29 برس ہوگئے ہیں ٹنڈے کے کباب یا ان کا قیمہ تو مہمانوں کے آنے پر آجاتا ہے ورنہ سبزی دال اور چھوٹے جانور کی گوشت وہ بھی روز نہیں۔ لیکن جو لگ 500 روپئے کلو بکرے کا اور 250 روپئے مرغ کا گوشت نہیں خرید سکتے اور مسلمانوں میں 90 فیصدی ایسے ہی ہیں تو ا کا کھانا بند کرنا اچھی بات نہیں ہے۔ وہ بھوکے رہیں گے تو غنڈے اور چور بنیں گے۔ یوگی جی قبرستانوں کی دیواروں میں ہونے والے گھپلے میں پریشان ہیں ہم سوچ رہے ہیں کہ آج وہ کتنا خون جلائیں گے؟ آزادی کے بعد سے ہی یہ کام شروع ہوگیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان کی ا?زادی خون بہاکر اور جان دے کر نہیں لی گئی ہے۔ انگریز خود بھکاری ہوگیا تھا وہ آزاد کرکے چلا گیا اور جب ملک آزاد ہوا ہے تو آدھے سے زیادہ ملک سو رہا تھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ رات کو بارہ بجے آزاد ہوجائے گا وہ ج اگے یا سوئے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ 1962 ء کے چینی حملہ کے بعد جب ہماری فوجیں واپس آئیں تو آنے کے راستے اور پل کاغذ پر تھے زمین پر نہیں تھے۔ جس آزادی کو سوکر لیا جائے گا اس کی قیمت بے ایمانی ہے اور وہ ہر کام میں ہر جگہ ہے۔ یوگی جی تو یہ دیکھیں کہ اب نہ ہو، اور ہم یقین دلاتے ہیں کہ یوگی جی کچھ بھی کرلیں ہر کام میں کمیشن لینے والے ملیں گے ہر رشوت لینے والا رشت لے گا ملک کا ڈھانچہ ہی ایسا بنا ہے کہ کوئی ایمانداری سے حکومت کر ہی نہیں سکتا۔ مرکزی حکومت میں بھی وہ سب ہورہا ہے جو ہوتا تھا اور یوپی میں بھی وہ سب ہوگا جو ہوا کرتا تھا۔ بس یہ بڑی بات ہے کہ وزیر اعلیٰ پر الزام نہ آئے۔ Mobile No. 9984247500