ورڈ کا مشورہ ڈرو نہیں غور و فکر کرو

Bhatkallys

Published in - Other

03:18PM Fri 11 Dec, 2015
حفیظ نعمانی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی مجلس عاملہ کا جو اجلاس مولانا کلب صادق صاحب کی صدارت میں امروہہ میں ہوا اس میں بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا ولی رحمانی نے کہا کہ ملک میں عدم رواداری کا ماحول تو نہیں ہے، لیکن اس کو اچھا ماحول بھی نہیں کہا جاسکتا۔ پرسنل لاء بورڈ کی رائے سے نہ یہ ضروری ہے کہ ہر کوئی اتفاق کرے اور نہ یہ ضروری ہے کہ سب کی رائے سے بورڈ اتفاق کرے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ عدم رواداری یا عدم برداشت یا حالات کا اچھا بھی نہ ہونا ماحول کی ایسی تصویر نہیں دکھاتے جنہیں کوئی نام دیا جاسکے۔ یہ تو احساسات ہیں کہ کوئی گولی کے زخم کو بھی برداشت کرلیتا ہے اور کوئی اسے بھی برداشت نہیں کرتا کہ وہ کسی مجلس میں جائے تو سب خاموش ہوجائیں۔ ملک کے جن دانشوروں نے وہ نشان واپس کئے جو اُن کی عظمت کی سند تھے تو انہوں نے محسوس کیا کہ ملک میں عدم رواداری اور عدم برداشت بڑھ رہی ہے۔ نامور صحافی کلدیپ نیرؔ نے بھی اس کی حمایت میں دل کھول کر لکھا۔ ان کے علاوہ ملک کے ممتاز صحافیوں نے بھی اس کی تائید کی۔ ہمارے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ عدم رواداری پہلے بھی تھی۔ وہ بھی مسلمانوں اور کمزور طبقوں کے لئے دل آزاری کا سبب تھی۔ جیسے صرف زبان سے کہنا اور دستور کا حوالہ دے کر کہنا کہ سب برابر ہیں لیکن عمل میں پوری طرح یہ ظاہر کرنا کہ تم لوگ برابر نہیں ہو۔ دلت طبقہ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون وزیر سے ایک مندر کے گیٹ پر یہ معلوم کرنا کہ آپ کی ذات کیا ہے؟ یا جیتن مانجھی کا نام کے وزیر اعلیٰ کے کسی بھی مندر میں جاکر واپس آنے کے بعد اسے دھونا کیا عدم رواداری نہیں ہے؟ اور کیا مسلمان کا گائے سے رشتہ جوڑنا ہندو لڑکی سے رشتہ جوڑنا جیسا جرم مان کر ہر ایرے غیرے کو یہ چھوٹ ملنا کہ جس ٹرک پر چاہو گولیاں برساکر کہہ دو کہ گائیں اسمگل کرنے کے شبہ میں گولی چلائی اور دو چار مسلمان لڑکے مرگئے تو کسی پولیس والے کی یہ ہمت نہ ہونا کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی بھی کرسکے کیا عدم مساوات اور عدم رواداری نہیں ہے؟ ہمیں خطرہ یہ ہے کہ بورڈ پر یہ الزام نہ آئے کہ وہ وزیر اعظم کو خوش کرنا چاہتا ہے؟ ملک میں آر ایس ایس کے پروردہ شہر شہر اور گاؤں گاؤں کے نیتاؤں کا ایک کام یہ ہے کہ وہ رام مندر، دفعہ 370 اور یکساں سول کوڈ حکومت کو یاد دلایا جائے۔ یہ سب وہ ہیں جن سے اٹل جی کی چھ سالہ حکومت میں کہا گیا تھا کہ جب تک بی جے پی کی پوری اکثریت نہیں ہوگی ان میں سے کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ اب ملک کے زعفرانی ہندوؤں نے پوری اکثریت بھی دے دی تو اب وہ دیکھ رہے ہیں کہ رام مندر کا نقشہ تو سپریم کورٹ میں رکھا ہے۔ یکساں سول کوڈ کے بارے میں سپریم کورٹ کے جج صاحب نے فرما دیا کہ پرسنل لاء میں مداخلت ممکن ہی نہیں ہے۔ کیونکہ یہ قانون 1933 ء کے شریعت قانون کے برخلاف ہوگا۔ اس میں ذرّہ برابر ترمیم و تنسیخ مسلم پرسنل لاء بورڈ کو منظور نہیں ہوگی۔ اور دفعہ 370 کا حشر تو ہر ہندو نے دیکھ لیا کہ وزیر اعظم شری نریندر مودی نے اپنی سرپرستی میں بی جے پی کے ممبروں کو کشمیر کے دستور کا اس حالت میں حلف دلایا کہ ہندوستان اور کشمیر کے جھنڈے لہرا رہے تھے۔ دفعہ 370 میں یہ بھی تھا کہ جموں کشمیر کا الگ صدر اور وزیر اعظم ہوگا۔ لیکن شیخ محمد عبداللہ نے بارہ برس جنگ لڑکر ہتھیار ڈال دیئے اور انہوں نے اسے قبول کرلیا کہ دستور اور جھنڈا رہے گا اور ملک کے دوسرے صوبوں کی طرح کشمیر کا بھی وزیر اعلیٰ ہی ہوگا اور انہوں نے خود بھی وزیر اعلیٰ بن کر اس پر مہر لگادی تھی۔ مولانا ولی رحمانی نے کہا کہ بورڈ قوم کے مسائل کو لے کر ملک کے وزیر اعظم شری نریندر مودی سے بھی ملاقات کرسکتا ہے۔ لیکن ابھی اس کی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی۔ یہ فیصلہ کہ بورڈ کو کب ضرورت محسوس ہوگی بورڈ ہی کرے گا۔ لیکن وزیر اعظم کا اماموں کی یونین کے لیڈروں سے ملنا یا کاروباری صوفیوں اور مولویوں سے اس لئے ملنا کہ وہ یہ ثابت کرسکیں کہ وہ سب کے وزیر اعظم ہیں بورڈ کے حق میں شاید اچھا نہ ہو۔ ایک نازک موقع پر مسز اندرا گاندھی سے عزیز امام صاحب نے کہا تھا کہ آپ جو جامع مسجد کے امام یا مزاروں کے مجاوروں سے ملتی ہیں ان کا اثر مسجد اور مزار تک ہے۔ آپ مولانا علی میاں، مولانا نعمانی، مولانا نعمت اللہ رحمانی دیوبند کے شیخ الحدیث جیسے عالموں سے ملئے جن کی آواز صرف اپنے ملک میں نہیں پوری دنیا میں سنی جاتی ہے تو اندراجی نے جواب دیا تھا کہ جن علماء کے آپ نام لے رہے ہیں وہ کہاں یہ کہتے ہیں کہ کسے ووٹ دو اور کسے نہ دو۔ میں جن سے ملتی ہوں وہ کہتے تو ہیں اثر ہو یا نہ ہو۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذریعہ دین اور دستور بچاؤ کی تحریک شروع کی گئی ہے۔ بورڈ دین کے بچانے میں تو انشاء اللہ کامیاب ہوگا لیکن دستور بچانے کے لئے اسے لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے جتنے ممبروں کی ضرورت ہے وہ کہاں سے آئیں گے؟ اور جو حکومت کے مقابلہ پر آئیں گے وہ اپنے لئے تو آسکتے ہیں مسلمانوں کے لئے کیوں آئیں گے؟ جبکہ ان میں سے ہر ایک نے ان دفعات کو چوہوں کی طرح کترا ہے۔ آج اگر ساکشی مہاراج کہتے ہیں کہ مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے تو 26 مئی 2014 ء سے پہلے جن کی حکومت تھی کیا انہوں نے ہمارے مدارس کے خلاف وہ سب نہیں کہا جو اب کہا جارہا ہے؟ پرسنل لاء بورڈ کا آج کے سے حالت سے کبھی سابقہ نہیں پڑا اندرا خاندان نے چاہے کیا کچھ نہ ہو، لیکن انہوں نے اپنے پتاجی پنڈت نہرو کو علماء کرام سے ملتے دیکھا تھا اور وہ سمجھتی تھیں کہ کس سے کیسے ملنا ہے اور کس کی کتنی بات ماننا ہے؟ یہ الگ بات ہے کہ راجیو گاندھی، مولانا علی میاں اور مولانا رحمانی صاحبان سے کہیں کہ آپ رمضان سردیوں میں کیوں نہیں منا لیتے، گرمیوں میں تو بہت تکلیف ہوتی ہوگی اور ان کے بیٹے راہل گاندھی مولانا آزادؔ کی تصویر پر انگلی رکھ کر معلوم کریں کہ یہ کون صاحب ہیں؟ لیکن وہ یہ مانتے تھے کہ مسلمان چاہے خود وزیر بنے یا نہ بنے لیکن کون وزیر بنے اس کا فیصلہ بہت کچھ وہ کرتا ہے؟ اس لئے رمضان میں افطار کرانا عید کی مبارکباد یا ان کے ساتھ دکھانے کی حد تک رواداری برتنا ان کا مزاج تھا۔ اب اہم مسئلہ یہ ہے کہ وزیر اعظم ایک لہجے میں بات کرتے ہیں، ان کے وزیر دوسرے لہجہ میں اور ان کی زعفرانی فوج گولی کی زبان میں بات کرتی ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان تینوں کا قبلہ ناگ پور ہے اور وہاں سے سب کو چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ صدارت مولانا کلب صادق صاحب نے کی اور کسی بھی اخبار میں ان کا کوئی لفظ نہیں ہے اور نہ انہوں نے پریس کانفرنس میں زبان کھولی؟ خیر ’’رموزِ مملکت خیش حسرواں داند‘‘ بورڈ کا مسلمانوں کو یہ مشورہ کہ وہ متحد رہیں اور ڈریں نہیں بلکہ غور و فکر کریں وہ ہے جو ہمارا مشن ہے اور جس پر ہم ہر موقع پر لکھتے رہے ہیں۔ کاش مسلمان بھی اتنی ہی سنجیدگی سے اسے اپنا لیں۔ فون نمبر: 0522-2622300