سفر حجاز۔۔۔(۳۳) منی بعد حج ۔۰۲۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

10:26AM Wed 21 Jul, 2021

کلام مجید میں ایک مقام پر جہاں مناسک حج کا ذکر ہے، ایک حکم یہ بھی ہے کہ:۔

۔″ولیطوفوا بالبیت العتیق (سورہ حج)″۔

لوگ خانہ کعبہ کا طواف کریں۔

حج کے اصلی رکن یعنی فرائض، احرام پوشی کے بعد صرف دو ہیں۔وقوف عرفات اور طواف کعبہ مفسرین اور فقہاء کا اجماع ہے کہ جو طواف فرض ہے، وہ یہی طواف ہے جو وقوف عرفات کے بعد یوم عید (۱۰/ ذی الحجہ) کو یا اس کے بعد کیا جائے، اس سے قبل جو پہلا طواف کیا تھا وہ عمرہ کا طواف تھا، حج کا طواف نہ تھا درمیان میں اور جتنے طواف کیے تھے سب نفل طواف تھے، طواف فرض کا وقت اب آیا، اس کے لیے ضروری ہے کہ منیٰ سے جاکر کیا جائے اور بہتر یہی ہے کہ اس سے فارغ ہوکر پھر منیٰ میں واپس آئے اور یہاں رمی جمرات ۔(شیطان پر کنکریاں مارنے)۔ کو تکمیل تک پہونچائے، اس طواف کا مشہور نام طوافِ زیارت ہے۔طوافِ رکن، طوافِ افاضہ، طوافِ یوم النحر بھی اسی کو کہتے ہیں، یہ طواف قربانی کرکے اور سر منڈانے کے بعد ہر وقت کیا جاسکتا ہے، اس کا وقت ۱۰/ ذی الحجہ کی صبح سے شروع ہوکر ۱۱/ ۱۲/تک رہتا ہے، لیکن افضل یہ ہے کہ ۱۰/ ہی کو کرلے۔رسول اللہ ﷺ نے ۱۰/ ہی کو طواف ادا فرمایا تھا، طواف کے طریقے اوپر تفصیل سے بیان ہوچکے ہیں بس انھیں طریقوں پر یہ طواف بھی ہوگا۔ اس طرح باب السلام سے مسجد الحرام میں داخلہ، اسی طرح نیت طواف، اسی طرح سات پھیرے، اسی طرح مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز، اسی طرح آبِ زمزم کے تبرک سے فیض یابی، اسی طرح صفا و مروہ کے درمیان سعی، غرض کوئی نئی بات اس طواف کے ساتھ مخصوص نہیں۔

حدیث اور فقہ کی کتابوں میں ایک بحث یہ آتی ہے کہ کسی شخص نے صبح کے وقت یہ طواف کیا، اور منیٰ بھی اسے واپس آنا ہے تو وہ نماز ظہر کہاں پڑھے؟ مسجد حرام میں یا منیٰ واپس آکر؟ حدیث میں روایات دونوں طرح کی ملتی ہیں اور لطف یہ کہ دونوں روایتیں صحیح مسلم کی ہیں، پہلی حدیث باب حجتہ النبی ﷺ میں حضرت جابر کے حوالہ سے ایک بڑی طویل روایت میں آتی ہے اور اس میں صاف یہ فقرہ آتا ہے کہ ۔″فافاض الی البیت فصلّیٰ بمکۃ الظھر ″۔

حضور ﷺ نے خانہ کعبہ کے طواف افاضہ کے بعد مکہ میں نماز ظہر ادا کی۔

اور دوسری حدیث باب استحباب طواف الافاضہ یون النحر میں حضرت  عبداللہ بن عمر کے حوالہ سے یوں آتی ہے۔″عن نافع عن ابن عمر ان النبی ﷺ افاض یوم النحر ثم رجع فصلّیٰ الظھر بمنیٰ ″۔

نافع حضرت  ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ  نے ۱۰/ ذی الحجہ کو طواف افاضہ کیا، اس کے بعد واپس چلے آئے اور نماز ظہر منیٰ میں ادا کی۔

صرف اتنا ہی نہیں، بلکہ حضرت  نافع سے حضرت  عبداللہ بن عمر کا یہ تعامل بھی منقول ہے کہ۔″ قال نافع فکان بن عمر یفیض یوم النحر ثم یرجع فیصلّی الظھر بمنیٰ و یذکران النبی ﷺ فعلہ ″۔

آپ دسویں ہی کو طواف افاضہ کیا کرتے تھے اور نماز ظہر منیٰ میں واپس آ کر پڑھا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہی عمل تھا رسول اللہ ﷺ  کا۔

محدثین نے دونوں معارض روایتوں کے درمیان تطبیق یوں دی ہے کہ۔″ ووجہ الجمع بینھما انہ ﷺ طاف للافاضۃ قبل الزوال ثم صلّی الظھر بکمۃ فی اول وقتھا ثم رجع الی منیٰ فصلّٰی بھا الظھر مرۃ اخریٰ باصحابہ حین سألوہ ذٰلک فیکون منتفلا بالظھر الثلاثۃ التی بمنیٰ ″۔

حضور ﷺ نے طواف قبل زوال فرمایا، اس کے بعد نماز ظہر اول وقت میں مکہ میں پڑھ لی پھر جب منیٰ واپس آئے تو صحابہ کے دریافت فرمانے پر حضور ﷺ نے ان کے ہمراہ منیٰ میں دوبارہ پھر نماز پڑھ لی، اور یہ دوسری نماز بہ طور نماز نفل کے ہوگئی۔

یہ عبارت علامہ نووی شارح مسلم کی تھی، اور اسی قول کو بہتوں نے اختیار کیا ہے۔

یہ فیصلہ محدثین کا تھا، ہمارے فقہاء رحہم اللہ میں صاحب فتح القدیر نے یہ بات خوب لکھ دی ہے کہ جب دو روایتیں ایک دوسری کے متضاد ملتی ہیں تو دونوں ساقط ہوجاتی ہیں، اور نماز ظہر تو بہرحال پڑھنا ضروری ہے پس بہتر ہے کہ اسے مکہ ہی میں پڑھا جائے کہ مسجد حرم کی نماز کی فضیلت بجائے خود ثابت و مسلم ہے۔

۔ ۱۰/کو اتنی مہلت تو کیا ملتی، دن نکلنے کے دو تین گھنٹے کے بعد تو پہونچے ہی تھے۔قیام گاہ کی تلاش وہاں سے کنکریاں پھینکنے کے لیے مجمع کو چیرتے ہوئے اور خاصی مسافت طے کرکے جمرہ عقبہ تک جانا، ہجوم کے اندر گھس کر کسی طرح رمی سے فارغ ہونا اور اسی طرح پھر مجمع کے اندر سے دھکے کھاتے واپس آنا، کھانا کھانا قربانی کرنا، سر منڈانا غسل کرنا، سارا دن اسی میں تمام ہوگیا، اور ۱۱/ سے قبل طوافِ زیارت کے لیے مکہ جانے کی نوبت نہ آسکی۔ابھی گزرچکا ہے کہ ۱۰/ کا طواف افضل ہے لیکن دین فطرت میں ہر طرح کی آسانیاں اور سہولتیں بھی ہیں، دین سختیوں اور دشواریوں کا نام نہیں، فقہاء رحمہم اللہ کے ہاں یہ تصریح بھی موجود ہے کہ ساتھ میں اگر عورتیں ہوں تو بلاتکلف بجائے ۱۰/ کے ۱۱/ ، ۱۲ کو طواف کیا جاسکتا ہے، اس لیے کہ ۱۰/ کو ہجوم بہت زیادہ ہوتا ہے، یہ رعایتیں اور رخصتیں ہم جیسے ضعفاء کے حق میں پروانہ رحمت ثابت ہوتی ہیں۔

۱۱/ ذی الحجہ کو صبح سے سواری کی تلاش شروع ہوئی، یاد رہے کہ مکہ سے ۸/ ذی الحجہ پانچ دن کے لیے جو اونٹ کرایہ پر کیے گئے تھے، ان کے کرایہ میں منیٰ سے مکہ تک کا یہ طوافِ زیارت والا سفر شامل نہ تھا۔۔۔۔کم از کم ہمارے معلم نے یہی دستور ہمیں بتایا۔۔۔۔بہرحال خاصی تلاش و انتظار کے بعد چار اعرابیوں سے کرایہ طے ہوا۔ ہمارے قافلہ کے علاوہ ناظر یار جنگ کا قافلہ بھی ہمراہ ہوا، اس لیے اتنی سواریوں کی ضرورت پڑی، اعرابی کی بابت پہلے کسی مقام پر ذکر آچکا ہے کہ حیدرآبادی جھٹکے کی طرح ایک بکس نما سواری ہوتی ہے، جس کے اندر بیٹھنے کے بعد آدمی بند ہوجاتا ہے۔ ان اعرابیوں کا تجربہ پیشتر بھی ہوچکا تھا۔آج پھر ہوا، ہر اعرابی کے اندر چار چار پانچ پانچ سواریاں بیٹھی ہیں۔کسی میں گھوڑا اور کسی میں خچر جتا ہوتا ہے۔عرب کے گھوڑوں کی تعریف سنتے آئے تھے لیکن وہ نسل شاید اب ناپید ہوگئی ہے جو کچھ دیکھا وہ اس سے بالکل مختلف تھا، جو کچھ کہ اب تک سنا تھا، ہر گھوڑا مریل اور خالی مریل ہی نہیں اڑیل بھی! ہمارے ہاں کے اکّوں کے ٹٹو ان سے بدرجہا بہتر ہوتے ہیں اور اعرابیوں کی حالت گھوڑوں سے بھی بدتر! خدا معلوم مکہ کی حکومت بلدیہ ایسی سڑیل سواریوں کو ”پاس“ کرتے وقت اپنے احساس ذمہ داری کو کہاں رکھ آتی ہے۔ یہ سب تفصیل اس لیے حوالہ قلم ہورہی ہے کہ جو دینی بھائی اس سفر نامہ کو پڑھیں، وہ ہر موقع کی راحتوں اور زحمتوں دونوں کا پیشتر سے خوب اچھی طرح اندازہ لگالیں اور ہر موقع کے لیے اسی مناسبت سے تیار رہیں جو زحمت خلافِ توقع اور اچانک پیش آجاتی ہے، وہ محسوس بھی بہت زائد ہوتی ہے۔ فی اعرابی کرایہ غالباً چار چار ریال سعودی ایک ریال ہندوستان کے تقریباﹰ ۱۸/ کا ہوتا ہے) طے پایا۔

راستہ ابھی نصف طے ہوا تھا کہ بلا کسی ظاہری سبب کے اچانک ہماری اعرابی الٹ گئی، جانور الگ اور سواریاں ایک دوسرے کے اوپر اسی اعرابی کے قفس کے اندر بند! ہم لوگ تو خیر محفوظ رہے۔ البتہ منشی احمد صاحب علوی کاکوردی (جن کا ذکر مدینہ منورہ کے ذیل میں آچکا ہے) کا پیر ایک ٹوٹے ہوئے تختے میں پھنس گیا، اور ان بیچارے کے اچھی خاصی چوٹ آئی، مرہم پٹی کا سامان بھلا کہاں دستیاب ہوتا۔پیر پانی سے دھوکر بیچارے پھر سے سوار ہوئے اور شکر کے نہ سہی، صبر کے مراتب ازسر نو طے ہونے لگے۔

ہندوستان کی گھڑیوں کے حساب سے کوئی ساڑھے آٹھ کا وقت ہوگا کہ حرم شریف کے دروازوں پر پہونچ گئے، جنت المعلیٰ ۸/ ذی الحجہ کو منیٰ  جاتے وقت بھی راستہ میں پڑا تھا، لیکن آج اسے ذرا زیادہ غور و اطمینان سے دیکھنے کا اتفاق ہوا، اور جتنا قریب سے دیکھا، اسی قدر حیرت میں بھی اضافہ ہوا۔۔۔۔۔خیر یہ تذکرہ تو پھر کبھی ہوگا۔ در حرم پہونچے اور اندر داخل ہوتے ہی ساری کلفتیں، ساری زحمتیں، ساری تکلیفیں دور تھیں، وہی بشاشت وہی مسرت، وہی تازگی اللہ اللہ! گھر والے نے گھر کی کیا شان رکھی ہے! تسکین و تسلی کے سارے نسخے، اطمینان و سکون خاطر کی ساری تدبیریں ایک طرف اور اس بے گھر والے کے گھر کی زیارت، اسے بے مکان اور لامکان والے مکین کے مکان کا دیدار دوسری طرف! بزرگوں نے کہا ہے کہ دل کا سکون اور چین چاہتے ہو تو دل کا تعلق اللہ سے پیدا کرو۔ یہاں یہ عرض کرنا ہے کہ اللہ سے دل کا لگانا تو اللہ والوں کا کام ہے۔اللہ تک اگر براق ہمت اور کمند حوصلہ کی رسائی نہیں ہوتی تو بیت اللہ تک کیوں نہ پہونچئے؟ اور دل کے تصور کو چھوڑ کر آنکھوں سے دیدار کی دولت کے حصول میں کیوں قصور کیجئے؟ مکان والے کے جمال کا حال تو قدوسیوں اور ملکویتوں سے پوچھیے، باقی خود مکان کے در و دیوار میں جو حسن و جمال ہے، جو کشش و رعنائی ہے جو زیبائی و محبوبی ہے، اس سے اگر کوئی خاکی و ناسوتی باوصف قدرت محروم رہے تو اس بے چارے کی محرومی پر جی چاہتا ہے کہ دل کھول کر آنسو بہایئے۔ لوگ کہتے ہیں اور سچ کہتے ہیں کہ حج کے سفر میں بڑی بڑی زحمتیں پیش آتی ہیں۔لیکن ادائے فریضہ حج کا احساس تو لگ رہا، عرفات کی حاضری، مزدلفہ کی شب باشی، منیٰ کی قربانی یہ ساری چیزیں الگ رہیں، محض کعبہ کا دیدار، سیاہ پتھر والے اور سیاہ غلاف والے بقعہ نور کا پرتو جمال بجائے خود وہ نعمت ہے کہ اس کی قیمت میں اگر صدہا سفر اور ہر سفر کی صدہا زحمتیں اور صعوبتیں پیش کرنی پڑیں تو رب کعبہ کی قسم ہے کہ سودا پھر بھی ارزاں ہے، یہ جو کچھ آج عرض کررہا ہوں، اپنے جیسے کور بصروں اور ٹھیٹھ دنیاداروں کی زبان سے کہہ رہا ہوں، باقی عارفوں اور بصیرت والوں کے نزدیک تو ہر بار اگر سر بھی نذر کرنا پڑے، جب بھی یہ سودا گراں نہ ہو!۔

 متاع وصل جاناں بس گراں ست

گر این سودا یہ جان بودے چہ بودے

"وصل جاناں" سے شاعر نے جو کچھ بھی مراد لی ہو، ہم کوتاہ بینوں کے لیے تو در جاناں تک رسائی اس گھر کی زیارت ہی سب سے بڑی دولت اور اپنی ہمتوں اور حوصلوں کا آخری منتہیٰ ہے!۔

طواف اس سے پیشتر متعدد ہو چکے تھے۔مگر آج کے طواف کا کیا کہنا۔ صبح کا ٹھنڈا وقت مجمع نسبتاً بہت کم، عرفات و مزدلفہ سے واپسی کی برکتیں، ادائے فرض کا احساس، سب نے مل کر عجیب کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ مکان کے ہر چکر کے ساتھ صاحب مکان پر فدا ہونے کو جی چاہ رہا ہے! ملتزم پر دعا مانگنے کا موقع  بھی آج ہی ملا، حجر اسود اور خانہ کعبہ کی چوکھٹ کے درمیان دیوار کا حصہ ہے اور جو کہ ۱۰ بالشت کا ہوگا، اس کا نام ملتزم ہے اور جو مقامات اجابت دعا کے لیے مخصوص ہیں، ان میں سے ایک مقام یہی ملتزم ہے۔حضرت  ابن عباسؓ کی روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بہ قسم ارشاد فرمایا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں میں نے جو دعا مانگی قبول ہوئی، جب رسول اللہ ﷺ نے یہاں دعائیں مانگی ہیں اور بار بار مانگی ہیں، اور ہر مرتبہ اپنی مانگی مرادیں پائی ہیں تو کوئی امتی یہاں کیوں کمی کرے، وہ بیچارہ تو ہمہ احتیاج اور ہمہ درماندگی ہے۔ مناسک کی کتابوں میں آتا ہے کہ ملتزم سے لپٹ کر (ملتزم کے لفظی معنی بھی یہی ہیں کہ جس سے لپٹا گیا) اور غلاف کعبہ کو تھام کو خوب دعا مانگے، حضور قلب کے ساتھ مانگے اور ہو سکے تو آنسوؤں کا تحفہ نیاز و ناز والے کی خدمت میں پیش کرے، بعض روایات میں آیا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جبرئیل ملتزم سے لپٹے ہوئے یہ دعا مانگتے رہتے ہیں:

۔″ا واجد یا ساجد لا تزل عنی نعمۃ انعمتھا علیٰ″۔

اے قدرت والے اور اے عزت والے جو نعمت تو نے مجھے عطا فرمائی ہے مجھ سے زائل نہ فرما۔

ان الفاظ کی جامعیت اور ان کی برکت کا کیا پوچھنا، لیکن اکیلی اسی دعا پر موقوف نہیں، اس وقت جو کچھ دل میں آئے سب کچھ کہہ سنائے اور جو کچھ اپنے لیے یا جس کے لیے مانگنا ہو، سب کچھ مانگ ڈالے، سوزِ دل اور رقتِ قلب کے لیے زیادہ فکر و اہتمام نہ کیجئے، وقت اور موقع ایسا ہے کہ ان شاءاللہ خود پیدا ہوکر رہے گا۔

ان سطور کا محرر نامہ سیاہ، کیا بتائے کہ اس نے کیا کیا مانگا؟ کوئی دو چار دس بیس گناہ ہوں تو متعین طور پر انھیں یاد کرکے، اور ان کا نام لے کر ان سے معافی چاہی جائے لیکن جس کی زندگی کی ساری فر و عمل سیاہیوں کا ایک مجموعہ اور تاریکیوں کا ایک تسلسل ہو، وہ اپنے کس کس گناہ کو یاد کرے اور کس کس سے معافی چاہے؟ مگر خدا کی قدرت اس وقت اپنی ساری خطائیں اور معصیتیں اور عصیاں شعاریاں ایک ایک کرکے یاد آتی چلی جارہی ہیں! اور دعائیں جو زبان سے اور زبان قلب سے نکل رہی ہیں، وہ تنہا اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے والوں کے لیے بھی، عزیزوں کے لیے، دوستوں کے لیے، بزرگوں کے لیے اور سب سے بڑھ کر امت اسلامیہ کے لیے ہیں۔ آج ہندوستان پر کیا موقوف ہے، سارے عالمِ اسلام میں مسلمانوں کا کیا حال ہے؟ ان کا زوال اور ادبار، ان کی پستی اور فلاکت، ان کی بدنظمی اور بےعملی، ان کا نفاق اور انتشار دور کردینا، اور ان کے قلوب کو ایمان سے، حسنِ عمل سے، نورِ ہدایت سے، باہمی نظم و اتحاد سے معمور کردینا سب تیرے ہی ہاتھ میں ہے! ذلتوں کی انتہا ہوچکی، رسوائیاں اپنی حد کو پہونچ چکیں، گلی گلی تیرے خلیل کی ذریت پر طنز ہیں، طعنے ہیں، مضحکہ ہے، گھر گھر تیرے حبیب کی امت کے ساتھ تمسخر و استہزاء ہے۔ پھبتیاں اور آوازے ہیں، ہم اپنی شور بختیوں سے تو کعبہ کو مدت ہوئی بھلا چکے، اور مدت ہوئی کہ۔″  کالذین نسوا اللہ فانسھم انفسھم ″۔کے مصداق بن چکے، اب کیا کعبہ نے بھی ہم کو بھلادیا؟ اب تیری ذات سہو و نسیاں سے پرے ہے تو تو کبھی اور کسی کو نہیں بھول سکتا! کون کہے اور بلاشائبہ گستاخی کس طرح کہے، کہ کیا تو نے بھی طواف کعبہ پر آس لگانے والوں کو محمد ﷺ کا کلمہ پڑھنے والوں کو اپنی نگاہ لطف و چشم التفات سے بھلادیا ہے؟۔

ناقل: محمد بشارت نواز