تجربات و مشاھدات (۱) ڈاکٹر بدر الحسن القاسمی ۔ الکویت

Bhatkallys

Published in - Other

07:41PM Sun 25 Apr, 2021

۔ ۱۹۷۷م جامعہ دار السلام عمر آباد کا  جشن منعقد ہوا اس میں شرکت کیلئے دار العلوم دیوبند کی طرف سے جو وفد تشکیل پایا اس میں حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب۔ مولانا حامد الانصاری غازی کے ساتھ اس فقیر کا نام  بھی ادا کے ایڈیٹر کی حیثیت سے شامل تھا

اس جشن میں شریک ہونے والے عرب مہمانوں میں شیخ محمد متولی شعراوی اس زمانہ میں وہ مصر کے وزیر اوقاف بھی تھے توفیق عویضہ ، کویت سے سید یوسف ھاشم رفاعی جو پہلے  کویت کی اسمبلی کے سابق رکن وسابق وزیر رہ چکے تھے اور بولنے  میں جری اور اپنے خیالات پیش کرنے میں سلیقہ مند اور بے باک تھے ، وہ سید ہونے کے ساتھ سید احمد کبیر رفاعی سے نسبی رشتہ  اور تصوف میں انکے سلسلہ سے وابستہ ہو نے کا برملا اظہار کیا کرتے تھے

سعودی عرب کا وفد  مشہور فقیہ عبد اللہ بن سلیمان بن منیع اور نامور ادیب و سفرنامہ نگار شیخ محمد بن ناصر العبودی پر مشتمل تھا اور انکی رفاقت کیلئے سلفی عالم  مولا نا  لقمان سلفی تھے، جو اجلاس کے بعد وفد کو مدرسہ سلفیہ دربھنگہ لیجانے کیلئے کوشاں تھے۔

اجلاس کے دوران غیر ملکی مہمانوں  سے تفصیلی ملا قات کے مواقع بمشکل ہی ملا کرتے ہیں اجلاس کے ذمہ داران  مہمانوں کی راحت کیلئے انکے گرد گھیرا ڈال کررکھتے ہیں اور انہیں سونے کی چڑیا سے کم نہیں سمجھتے اور دوسرے مدارس والے بھی ان مہمانوں سے اپنے روابط قائم کرنے کیلئے تاک جھانک سے باز نہیں آتے ،یہ عام مزاج اور عرب مہمانوں کی شرکت والے اجلاس کا ہوتا ہے ، بہر کیف شیخ محمد متولی شعراوی تو غالبا عربک کالج مدراس میں اپنے خطاب کے بعد رخصت ہوگئے تھے ، میری سعودی وفد کے ارکان سے بنگلور میں فرقانیہ اکیڈمی کے آفس میں ہوئی، اس وقت آفس ایک چھوٹے سے کمرہ میں تھا جو مولانا شہاب الدین ندوی  کی بے  سرو سامانی کے عالم میں غیر معمولی محنت کا آئینہ دار تھا جسمیں سائنس کی کتابوں کے اردو تراجم اور کچھ عربی و انگلش کتابوں  پرمشتمل کتبخانہ بھی تھا، انکی محنت کا یہ حال تھا کتابوں کی ہر نمائش کے موقع پر اپنی مولفات کے ساتھ خود ہی نظر آتے تھے یہاں تک کہ ایک شخص نے ان کے سامنے انکا تعارف اس طرح کرایا کہ یہ واحد مصنف ہیں جنکی کوئی کتاب خریدنا چاہیں تو کتاب کے ساتھ مصنف سے بھی ملاقات ہو جائیگی ، بعد میں پھر ان پر فتوحا ت کا دروازہ کھلا اورآفس کیلئے وسیع اور عالی شان عمارت حاصل ہوئی، مولانا شہاب الدین ندوی کو قرآن کے علمی اعجاز اوسائنسی تحقیقات کی روشنی میں قرآن کے بیان کردہ حقائق کو پیش کرنا تھا  ہمیں انکی بعض تحقیقات پر اعتراض تھا مولانا کی سائنسی معلومات بھی اردو کے واسطے سے اور ثانوی درجہ کی تھیں، البتہ انکی کتاب "چاند کی تسخیر قرآن کی نظر میں " بروقت آئی تھی اور شہرت ومقبولیت حاصل کی تھی اسکا مقدمہ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے قلم سے تھا ۔

وہ جب کبھی کویت آتے تو میں اتوارکی مجلس میں قرآن کے علمی اعجاز کے بیان میں بےاحتیاطیوں پر تنقید کرتا اورہر نظریہ کو قرآن سے جوڑنے کی خطرناکیوں پر روشنی ڈالتا اور ساتھ ہی ان کی محنت کی داد بھی دیتا تھا۔

شیخ عبداللہ بن سلیمان بن منیع نے اپنی کتاب " الورق النقدی "کا ایک نسخہ دیا اور اسکے اردو ترجمہ کی خواہش ظاہر فرمائی۔

بنگلور کے  ایک ہوٹل میں عمرآ باد سے واپسی کے بعد سعودی وفد مقیم تھا اور وہیں کویت کے سید یوسف ہاشم رفاعی بھی تھے میں چونکہ پندرہ روزہ عربی جریدہ " الداعی"کاایڈیٹرتھا انٹر ویو لینے کیلئے ہوٹل پہنچ گیا  اور شیخ محمد بن ناصر العبودی اور سید یوسف ھاشم الرفاعی دونوں سے الگ الگ انٹرویو لئے اور الداعی میں شائع کئے۔

شیخ محمد بن ناصر العبودی نے دعوت کی اہمیت پر اپنے خیالات کا اظہار کیا دعوت کے وسیع میدان  کی طرف توجہ دینے پر زور دیا

سید یوسف ھاشم الرفاعی نے ہندوستانی مسلمانوں کے حا لات کا  بڑا دلچسپ تجزیہ کیا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی بڑی تعداد ہے لیکن آپس کے اختلاف کی وجہ سے مسلمانوں کے کام کا وزن نہیں ہوتا پھر فرمایا کہ  دارالعلوم دیوبند کے حلقہ میں علم ہے، جماعت اسلامی می تنظیم کی قوت ہے ، اور تبلیغی جماعت میں حرکت ہے، اب اگر یہ تینوں طرح کی کوششیں ایک ہو جائیں تو بڑی قوت آسکتی ہے ، انہوں نے اس ضرورت کا بھی اظہار کیا کہ  عالمی سطح پر مسلمانوں کو  ایک  "سپریم کونسل "یا ایسااعلی "اسلامی بورڈ "تشکیل دینا چاہئے جو ٹن سٹی کی طرح با اثر ہو  جس کے ذریعہ ان مسائل کو عالمی سطح پر اٹھایا  جاسکے، دونوں انٹر ویو نمایاں سرخیوں کے ساتھ "الداعی" میں شائع ہوئے اور پھر پائیدار تعلقات  قائم ہوئے اور کتابوں کا تبادلہ اور کانفرنسوں  کے موقع پر روابط کی تجدید ہوتی رہی۔

شیخ محمد العبودی کی" اخبار ابی العیناء "اور کتاب" الثقلاء" جیسی خالص ادبی کتابوں پر میں نے تبصرے لکھے انکی کتاب افریقیة الخضراءکا "شاداب افریقہ" کے نام سے اردو زبان میں ترجمہ حکیم عزیز الرحمن  صاحب مرحوم نے اپنی دلچسپی سے کیا ،   1979م میں  پہلی اسلامی جغرافیائی کانفرنس میں شرکت کیلئے گیا تو انہوں نے اپنے استاذ مور ادیب محقق  شیخ حمد الجاسر سے ملاقات کرائی  ، دوسرے سفر میں جب مولا نا محمد سالم  قاسمی صاحب بھی ساتھ تھے اور شیخ عبد العزیز  بن باز  کی طرف سے ضیافت کانظم اور شیخ کے ساتھ بعض دلچسپ مکالمے بھی شیخ العبودی کی عنایت کے نتیجہ  میں ممکن ہو سکے ، اپنے گھر پر دعوت کی تو اپنے بڑے استاذ اور نامور حنبلی عالم اور فقیہ شیخ عبد اللہ بن حمید  کو بھی دعوت دی جن کےسوال پر  ہندوستان میں تفسیر کی تعلیم کے بارے میں دلچسپ گفتگو ہوئی ۔ اسی سفر میں حکیم الاسلام کے خصوصی میزبان جناب سی رشید صاحب کے گھر میل وشارم میں بھی چند دن رہنے کا اتفاق ہوااور جنوبي ہند کے بعض تاجروں کی بزرگوں کے ساتھ غیر معمولی عقیدت کا اندازہ ہوا  کہ وہ کس طرح نہایت تواضع کے ساتھ اپنی جان نچھاور کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔