خواجہ الطاف حسین حالی کی تصنیف ’’حیات سعدی‘‘ پر تبصرہ

Bhatkallys

Published in - Other

03:50PM Sun 22 May, 2016
تصنیف: حیات سعدی مصنف: خواجہ الطاف حسین حالی تحشیہ و تعلیقات: سید محمد اسد علی خورشید سال طباعت: ۲۰۱۶ء ؁ قیمت : ۴۰۰ روپئے ناشر : دارالمصنفین اعظم گڑھ مبصر: احمد نوید یاسر ازلان حیدر حیات سعدی (محشی سید محمد اسد علی خورشید) جب کوئی احساس دل کی گہرائیوں سے نکل کر شمشیر قلم کے زور سے قلعۂ قرطاس کو تسخیر کرتا ہے تو اس سے نکلنے والا رنگ خونی ہونے کے بجائے پر کیف اور دل و دماغ کو مسرت بخشنے والاہوتا ہے، چاہے وہ شاعر ہو یا ادیب، کہانی کار ہو داستان نگارایسے تخلیق کاروں کی تخلیقات میں احساسات کی وہ آمیزش ہوتی ہے جو نہ کہ صرف قارئین کے دلوں کو چھو جاتی ہے بلکہ ان کی دھڑکنوں کو نغمگی بخشنے میں بھی بڑی کار آمد ثابت ہوتی ہیں۔فارسی شعر ادب کی اگر بات کی جائے توشاید اللہ رب العزت نے اس زبان و ادب کی آبیاری آب حیات سے کی تھی یہی وجہ ہے کہ ہر زمانہ میں اس زبان نے ایسے ایسے فنکار پیدا کئے کہ جن کی تخلیقات سے نہ صرف زبان و ادب فارسی ہی سیراب ہوا بلکہ تمام ادبیات کے لئے وہ تخلیقات مشعل راہ بن گئیں۔ ایسے ہی تخلیق کاروں میں ایک نام مصلح الدین سعدی شیرازی کا بھی ہے جن کا نام اور شخصیت صرف علماء ہی نہیں بلکہ عوام کے لئے بھی تعریف و تعرف کا محتاج نہیں ۔ سعدیؔ شیرازی نے فارسی شاعری کوتغزل اور فکر کی وہ راہ عطا کی جس آگے چل کر حافظ شیرازی نے اسی شاعری کو اوج ثریا تک پہنچا دیا، اسی وجہ سے سعدیؔ کو فارسی غزل کا پیغمبر بھی کہا جاتا ہے۔ شاعری کے علاوہ سعدی کے معرکۃ الآراء کارناموں میں گلستان و بوستان ہیں جو سعدی کے عہد سے لیکر عہد وسطیٰ تک مدارس میں اولین درس میں شامل رہی ہیں اور آج بھی اپنی اہمیت اور افادیت کا لوہا منوا رہی ہیں۔ لیکن افسوس کہ انیسویں صدی تک ایسی بلند اقبال ہستی پر کوئی تحقیقی تصنیف نہ لکھی جا سکی ۔ انیسویں صدی کے بے مثل عالم، بے بدل ادیب ، طوطی مقال شاعر اور ماہر سوانح نگار مولاناالطاف حسین حالی نے پہلی بار سعدی شیرازی پر تحقیقی و تنقیدی تصنیف ’’حیات سعدی‘‘ لکھی اس بات کا اعتراف ایرانی اور انگریز محققین نے بھی کیا ہے کہ ’’حیات سعدی ‘‘ سعدی شیرازی پر کسی بھی زبان میں لکھی گئی پہلی باضابطہ تصنیف ہے۔ اس کتاب کے سن تالیف میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ لیکن اس کی اہمیت و شہرت کا یہ عالم تھا کہ حالی کی زندگی میں ہی اس تصنیف کے دس بارہ ایڈیشن شائع ہوچکے تھے اس کے بارے میں حالی خود کہتے ہیں: ’’پھر دلی میں سعدی شیرازی کی لائف اور ان کی نظم و نثر پر ریویو لکھ کر شائع کیا جس کا نام حیات سعدی ہے اور جس کے دس بارہ ایڈیشن اب سے پہلے شائع ہو چکے ہیں۔ (حیات سعدی ۔مطبوعہ دارالمصنیفن ۔ ص iii بحوالہ مسدس حالی) ‘‘ کئی مطابع سے شائع ہونے کی وجہ سے یا مرتبین کی کوتاہیوں کی وجہ سے ان ایڈیشنوں میں شاید کچھ خامیاں بھی در آئی تھیں جس کی وجہ اسماعیل پانی پتی نے بڑی محنت و کاوش سے اسکا پہلا ایڈیشن حاصل کرکے جو کہ خود مولانا حالی نے شائع کروایا تھا دوبارہ اسے مرتب کرکے ۱۹۶۰ء میں شائع کیا اور تب سے آج تک اسی نسخے کے ایڈیشن معتبر مانے جاتے ہیں اور یہ تصنیف آج بھی مسلسل شائع ہو رہی ہے ۔ مولانا حالی نے وہ زمانہ پایا تھا جہاں ایک بڑا طبقہ فارسی داں بھی اور اردو زبان کا بھی عروج کا دور تھا، حیات سعدی کی زبان ان کے عہد کے علمی و ادبی ماحول کی عکاس نظر آتی ہے ، مگر کسی بھی تحقیق کو کبھی تکمیل کی سند نہیں دی جا سکتی، تحقیق کا باب ہمیشہ وا رہتا ہے ۔مولانا حالی نے سعدی اور سعدی کی تخلیقات کے ساتھ خود بھی بہت ایسے الفاظ لکھے ہیں جن کے لئے حواشی کی ضرورت پڑتی ہے ، ’’حیات سعدی‘‘ جو کہ سعدی کی حیات کے ساتھ ساتھ ان کی تصانیف کا بھی احاطہ کرتی ہے اس میں ہر سطر میں ایسے الفاظ اور صفحہ پر ایسے اشعار اور ایسی اصطلاحیں موجود ہیں جو کہ خود ایک الگ تحقیق کا موضوع ہیں۔ اس ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے دارالمصنفین شبلی اکیڈمی نے اس کے متن کو دوبارہ مرتب کرکے مع حاشیہ اور تعلیقات شائع کروایا۔ موجودہ نسخہ جس پر حاشیہ اور تعلیقات کا التزام فاضل استاد پروفیسر سید محمد اسد علی خورشید ، صدر شعبۂ فارسی، دانشگاہ اسلامی، علی گڑھ نے کیا ہے، حیات سعدی کا یہ ایڈیشن تقطیع پر رنگین کور اور اچھے کاغذ کے ساتھ ۳۱۲ صفحات میں جنوری ۲۰۱۶ء میں شائع ہوا۔ اس ایڈیشن کی جو سب سے خاص بات نظر آئی وہ یہ کہ حاشیہ نگار نے بڑی تحقیق و جستجو سے ہر اس لفظ، ہر اس شعراور ہر اس محاورہ کی تشریح کر دی جن کے معنی کا حصول قاری کے لئے اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور تھا۔ ایڈیشن میں حاشیہ کے اس التزام کے ساتھ ایک اور بات یہ قابل ذکر نظر آئی ہے کہ حالیؔ کے ذریعہ رقم کئے حواشی کے ساتھ حاشیہ قدیم لکھ دیا گیا ہے تاکہ حالیؔ کی تحقیق اور موجودہ تحقیق میں فرق واضح ہو جائے ۔ اسی طرح فہرست اسمائے اشخاص ، اسمائے کتب، اسمائے اماکن کے ساتھ مصادر محشی کی فہرست بھی درج ہے جس سے جہاں ایک طرف یہ واضح ہوتا ہے کہ محشی نے کتنی دقیق نظری اور کتنی عرق ریزی سے اس کام کو انجام دیا ہے وہی یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ محشی نے اسماعیل پانی پتی کی کوشش سے مرتب ہوئے نسخے (مجلس ترقی ادب، لاہور، ۱۹۶۰ء) کے ساتھ ساتھ حیات سعدی کے لاہور ایڈیشن (۱۸۸۸ء)، آگرہ ایڈیشن اور نئی دہلی (۲۰۱۱ء) ایڈیشن سے بھی استفادہ کیا ہے، اور ان ایڈیشنز کے علاوہ بھی کئی ایڈیشن زیر نظر رکھے ہیں۔ ’’حیات سعدی‘‘ کے اس ایڈیشن کے انر کور کے بعد علامہ شبلی کے ان اقوال کو بعنوان ’’حیات سعدی: شبلی کی نگاہ میں‘‘ یکجا کرکے ایک پیج میں شامل تصنیف کیا گیا جو انہوں نے اس تصنیف کے متعلق کہے تھے ۔ اس کے بعد پروفیسر اشتیاق احمد ظلی ڈائریکٹر دارالمصنفین شبلی اکیڈمی کا پر مغز مقدمہ اور اس کے بعد پروفیسر سید محمد اسد علی خورشید (محشی) کی تحریر بعنوان سرگزشت حیات سعدی شامل تصنیف ہے اس سرگذشت میں موصوف نے حیات سعدی کی اہمیت و افادیت پر سیر حاصل بحث کرنے کے ساتھ ساتھ سعدی کی شخصیت ان کے آثار اور ’’حیات سعدی‘‘ کے بارے میں ایرانی اور غیر ایرانی تمام محققین کی آراء پر بھی روشنی ڈالی ہے ، اور ساتھ ہی اس نکتہ پر بھی ضمناً گفتگو کی ہے کہ ’’حیات سعدی‘‘ پر اس طرح کے کام کی ضرورت کیونکر پیش آئی۔ موصوف کی شخصیت حلقہ اساتذہ فارسی و اردو میں کسی تعریف و تعرف کی محتاج نہیں ان کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ خود بھی فارسی زبان کے بے طوطی مقال شاعر ہیں اور اس امر کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے حج کے سفر کی روداد منظوم بزبان فارسی ’’سفر سعادت حرمین شریفین‘‘ کے نام سے رقم کی ہے۔ اس طرح حیات سعدی کے اس ایڈیشن کے ساتھ شاعری کی ایک روایت کچھ یوں پوری ہوتی نظر آتی ہے کہ سعدیؔ شیرازی جیسے اخلاقی شاعر پر پہلا تحقیق کام حالی ؔ جیسے اخلاقی شاعر نے کیا اور اب اس پر حواشی کا التزام پروفیسرسید محمد اسد علی خورشید جیسے شاعر نے انجام دیا۔ میں بارگاہ ایزدی میں دعا گو ہوں کہ وہ استاد گرامی کو ایسے اور بھی گراں مایہ کارنامے انجام دینے کے لئے صحت اور ہمت عطا کرے اور دارالمصنفین کو اتنے بڑے ادبی کارنامے کے لئے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ (آمین)