مخصوص نشستوں کا مسئلہ

Bhatkallys

Published in - Other

03:45PM Fri 25 Sep, 2015
از: کلدیپ نیئر جب بھارت کو آزادی ملی تو مختلف برادریوں کے لیڈروں کو ملک کی انصاف پسندی پر اس قدر اعتماد تھا کہ ان میں سے کوئی بھی اپنے لیے کسی قسم کا کوٹہ مخصوص نہیں کرانا چاہتا تھا۔ اس وقت کے وزیر داخلہ سردار پٹیل نے مسلمانوں کے لیے ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں پندرہ فیصد نشستیں مختص کرنے کی پیش کش کی جسے مسلم لیڈروں نے مسترد کر دیا۔ ان کی دلیل تھی کہ کوٹہ مقرر کرنے میں تنگ نظر سوچ کی غماضی ہوتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ برطانوی حکمرانوں نے فرقہ ورانہ انتخابات کو متعارف کرایا جس کے نتیجے میں ملک کی تقسیم کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ وزیر قانون بی آر امبیدکر نے‘ جو خود ایک دلت تھے‘ کہا کہ ان کی برادری ساری عمر بیساکھیوں کے سہارے نہیں جینا چاہتی تاہم انھیں جب بہت مجبور کیا گیا تو انھوں نے شیڈول کاسٹ اور شیڈول قبیلوں کے لیے صرف دس سال تک نشستوں کو مخصوص کرنا تسلیم کر لیا۔ البتہ ان کو یہ علم نہیں تھا کہ یہی ریزرویشن مستقل بن جائیں گی کیونکہ ان کے ساتھ بھاری ووٹ بینک ہوتا ہے۔ یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ ذات پات کا نظام سیکڑوں سال گزرنے کے باوجود ہندو معاشرے کا ایک جزو لاینفک بنا ہوا ہے۔ دلت (اچھوت) اب بھی سیڑھی کے سب سے نیچے والے ڈنڈے پر ہیں۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ دیہی آبادیوں میں دلتوں کے لیے اونچی ذات والوں سے علیحدہ کر کے رہائش بنائی جاتی ہے۔ اب بھارت میں یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ کیا ریزرویشنوں کو از سر نو نہیں دیکھنا چاہیے کیونکہ دلتوں کے خلاف توہین آمیز سلوک برسر عام اور بڑی بے شرمی و ڈھٹائی کے ساتھ بدستور کیا جاتا ہے۔ آر ایس ایس چیف موہن بھگوت کی ریزرویشنز پر نظرثانی کی تجویز نے ’’اسٹیٹس کو‘‘ ہلا کر رکھ دیا جس پر بی جے پی کو خود کو آر ایس ایس سے فاصلے پر رکھنا پڑا۔ بہت سے دلتوں نے امتیازی سلوک سے بچنے کے لیے اسلام قبول کر لیا لیکن اس وقت ان کو بڑی وحشت ہوئی کہ اسلام، جس میں ذات پات کا کوئی تصور نہیں مگر عمل اس کے برعکس کیا جاتا ہے۔ بہت سی عدالتوں نے متعدد ایسے فیصلے کیے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ کم از کم اشرافیہ کو ریزرویشنز سے دور رکھا جائے لیکن وہ ہی سب سے زیادہ بااثر ہیں اور ان کی ہی سنی جاتی ہے۔ اسی سے وضاحت ہوتی ہے کہ پورے ’’سنگھ پریوار‘‘ میں آر ایس ایس چیف ہی واحدہے جس کی سوچ مختلف ہے۔ ان کی مایوسی میں اس وقت اور زیادہ اضافہ ہو گیا جب بی جے پی کے زیر حکومت ایک اور ریاست راجستھان نے اونچی ذات والے غریب لوگوں کے لیے بھی کوٹہ مقرر کر دیا۔ انسانی حقوق کے نکتہ نظر سے تو یہ بات درست نظر آتی ہے لیکن یہ ہمارے آئین سازوں کی سوچ سے مطابقت نہیں رکھتی کیونکہ انھوں نے ریزرویشنز کا حق صرف دلتوں کو دیا تھا۔ ہندو معاشرے میں صدیوں سے ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی تھی۔ اور ریزرویشنز کی صورت میں گویا ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا گیا تھا۔ جب آئین میں اس بات کو شامل کیا جا رہا تھا تو اس وقت بھی اونچی ذات والوں میں بہت سے غریب موجود تھے۔ مگر جواہر لعل نہرو اور سردار پٹیل نے آئین ساز اسمبلی کو اس بات پر قائل کر لیا کہ نچلی ذات والوں کے ساتھ صدیوں سے بدسلوکی ہو چکی ہے اس کا اونچی ذات والوں کو خمیازہ بھگتنا چاہیے۔ ریاست سپریم کورٹ کے واضح احکامات کی خلاف ورزی کر رہی ہے جس نے ہدایت کی تھی کہ ریزرویشنز کی حد 50 فیصد سے ہر گز تجاوز نہیں کرنی چاہیے لیکن اس کا خیال نہیں رکھا جا رہا۔ آج یہ دیکھنا مضحکہ خیز لگتا ہے کہ پٹیل جو کہ خاصی مالدار کاروباری برادری ہے وہ اب اپنے لیے ریزرویشنز مانگ رہی ہے۔ گجرات میں بھی بی جے پی کی حکومت ہے لیکن وہ پٹیل برادری کے لیڈر ہریتک پٹیل کے خلاف سخت کارروائی کر رہی ہے وہ کیوں پٹیل برادری کے لیے ریزرویشنز مانگ رہے ہیں۔ دوسری ریاستیں بھی راجستھان اور گجرات کی طرف دیکھ رہی ہیں کہ آیا وہاں اونچی ذات والوں کو ریزرویشنز ملتی ہیں یا نہیں تا کہ وہ بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کا سوچیں۔ نریندر مودی کی حکومت کو ان ریاستوں میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے سخت سلوک کرنا چاہیے بصورت دیگر پورا وفاقی ڈھانچہ کے منہدم ہونے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ مودی حکومت میں ایک عجیب طرح کا اعتماد ہے کہ جب کسی قسم کے مسائل کھڑے ہونگے تو ہندو آبادی کی اکثریت والی ریاستیں ان کے دفاع کا کام کریں گی۔ ریاست بہار میں الیکشن کے بعد مودی نظم و ضبط کا کوڑا استعمال کریں گے کیونکہ اگر اس وقت کوئی ایکشن لیا جائے جب کہ انتخابات میں صرف چند ہفتے باقی ہیں تو اس کا نتیجہ بی جے پی کے مستقبل کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ بہرحال یہ وقت یقیناً آ گیا ہے جب تمام سیاسی پارٹیوں کو بیٹھ کر ذات پات کی بنیاد پر ریزرویشنز کے معاملے پر غور و خوض کرنا چاہیے۔ آئین نے جو مہلت صرف 10 سال کے لیے دی تھی وہ مستقل ہو چکی ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں آئین کی ہی پاسداری کرتی ہیں جب بھی پارلیمنٹ کوئی آئینی ترمیم پیش ہو گی تو وہ آئین کی حمایت کریں گے۔ ایک ایسا ملک جس کے آئین کے دیباچے میں سیکولرازم کا لفظ موجود ہو اسے چاہیے کہ ذات پات کی زنجیروں کو توڑ دے۔ سوشلزم بھی ذات پات کی تقسیم کو تسلیم نہیں کرتا۔ حکمران بی جے پی کو ایسی قانون سازی کرنی چاہیے جس میں معاشرے کو اس کی اقتصادی حیثیت کے مطابق تقسیم کیا جائے۔ ایک غریب برہمن ایک دلت سے کم امداد کا مستحق نہیں۔ اور مسلمانوں کے بارے میں کیا کیا جائے گا؟ جسٹس سچر کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے۔ جوں جوں ملک میں ’’ہندو توا‘‘ نافذ کیا جا رہا ہے اقلیتوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان پیدا ہو رہا ہے۔ ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں میں بیروز گاری میں اضافہ ہو رہا ہے چونکہ وہ اچھے اسکولوں کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے لہٰذا وہ مقابلے کے امتحانوں میں بھی شرکت نہیں کرتے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں ان کی آبادی کی شرح 18 فیصد کے لگ بھگ ہے لہٰذا ان کا پسماندہ رہ جانا پورے ملک کے لیے تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔ سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ ہندو اور مسلمانوں میں سماجی تعلقات کو بہتر بنایا جائے قبل ازیں دیوالی یا عید کے تہواروں پر دونوں برادریاں اکٹھی ہو جاتی تھیں جو اب نظر نہیں آتا۔ ملی جلی آبادیاں بہت کم رہ گئی ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ مسلمان اہم قومی شخصیات میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے جب کہ باقی ملک ان شخصیات کے ذکر سے ولولہ حاصل کرتے ہیں مثال کے طور پر نیتا جی سبھاش چندر بوس کے بارے میں چلنے والی بحث کو دیکھئے جب ایک غیر ضروری معاملہ اسقدر جذباتی حیثیت اختیار کر گیا۔ کئی دنوں تک پوری قوم اسی بحث میں الجھی رہی کہ نیتا جی کے بارے میں ملنے والی فائلوں کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے یا نہ کیا جائے حالانکہ بی جے پی حکومت کا بنیادی عزم ملک کی تعمیر و ترقی ہے اور اسے اپنے اس عزم کو ہی ہمہ وقت پیش نظر رکھنا چاہیے کیونکہ اس ملک کی ایک تہائی آبادی 24 گھنٹوں میں صرف ایک وقت کا کھانا نصیب ہوتا ہے۔ مودی حکومت ڈیڑھ سال سے ملک پر حکمرانی کر رہی ہے۔ اس کا وعدہ تھا کہ وہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سب کو روزی روٹی دے گی مگر زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو نریندر مودی کے اس نعرے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا جس میں کہا گیا ہے کہ سب کا ساتھ سب کا وکاش (بھلا)۔ قوم اس وعدے کے پورا ہونے کی منتظر ہے۔ (ترجمہ: مظہر منہاس)