علمائے سلف (۱) طلب علم ۔ تحریر مولانا حبیب الرحمن خان شروانی

Bhatkallys

Published in - Other

08:05PM Sat 25 Apr, 2020

طلب علم

   علماے سلف کے جن حالات سے ہم بحث کرنا چاہتے ہیں ان میں طلب علم کو سب سے اول ہم نے قائم کیا ہے ۔ اہلِ علم کی زندگی کے مختلف مدارج ہیں ۔یہ منزل سب سے پہلی ہے اور یہ تقدم نہ صرف بلحاظ زمانے کے ہے بلکہ باعتبار اہمیت اور شان کے بھی ، کیوں کہ یہی وہ منزل ہے جو اس بات کا فیصلہ کردیتی ہے کہ کون منزل مقصود تک پہنچے گا اور کون حرماں نصیب ہوگا۔ ایک عالم کا ذکر آپ آگے پڑھیں گے کہ ایک شب اپنے دو طالب علموں کو انھوںنے دیکھا کہ ایک تکیہ کا سہارا لیے کتاب دیکھ رہا تھا ،دوسرا دوزانوں مستعد مطالعے میں مشغول تھا اور وقتاً وقتاً کچھ لکھتا بھی جاتا تھا ۔ جو ہر شناس استاد نے یہ ماجرا دیکھ کر اول کی نسبت کہا کہ ُ  انہ لا یبلغ درجۃ الفضل ،، (  اس کو فضیلت کا رتبہ حاصل نہ ہوگا ۔ ) دوسرے کی بابت فرمایا کہ    سیحصل الفضل ویکون لہ شأن فی العلم  ،، ( یہ شاندار فاضل ہوگا۔ ) تجربے نے ثابت کیا کہ پیشن گوئی بالکل سچی تھی ۔ پس جو منزل اس طرح آ ئندہ زندگی کا فیصلہ کر دینے والی ہو ،اسکے مہتم بالشان ہو نے میں کس کو کلا م ہو سکتا ہے! اس طرح منزل کو اگر صرف اول منزل کہہ کر چھوڑ دیا جائے تو ایک پہلو اس کا بیان ہوگا ۔ جس طرح یہ منزل سب سے اول ہے اسی طرح سب سے آخر ہے ، بلکہ یہ کہنا قطعا مبالغے سے مبرا ہے کہ باکمال علماء کی زندگی میں اول سے آخر تک یہ منزل ختم نہیں ہوتی ۔آپ آگے صفحوں میں بہت سے واقعات اس دعوے کے تائید میں پائیں گے ۔اہلِ کمال نوے برس کی عمر میں بھی طالب علم تھے ،اور جب ان کی روح سکرات کے تلاطم میں تھی ان کا دل ودماغ خدمت علم میں مصروف تھا۔ع

مہر تو در وجو دم  و  عشق  تو  در  سرم  باشیر  اندروں  شد  و  باجاں  بدرشود

   شیخ الاسلام انصاری نے فرمایا ہے کہ :  ُ  ھذا الشأن شأن من لیس لہ شأن سوی ھذا الشأن ، ـ، (  تذکرۃ الحفاظ ۔ جلد ۳ ۔ صفحۃ ۱۱۸۶۔) یعنی طلب علم ان جواں مردوں کا کام ہے جن کو یہی دھن ہو ۔

   طالب علم کے مختلف دور ہیں : پہلا دور مکتب یا مدرسے میں استاد کے زیر نگرانی ختم ہوتا ہے اور فی الواقع اس کو بنیاد کمال سے زیادہ کوئی لقب نہیں دیا جاسکتا ۔ اگر کوئی شخص ایک عالی شان عمارت کا منصوبہ دماغ میں قائم کرے اور اس کی بنیاد بھر کر سطح زمین سے کچھ بلند کردے اور اتنی محنت کے بعد وہ یہ خیال کرے کہ میں مکان بنا چکا تو یہ نہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ عالی شان عمارت بن چکی ۔ چند روز میں ہوا اور بارش کے صدمے اتنی بنیاد کو بھی نسیاً منسیاً کردیں گے اور اس کے بانی کی پست ہمتی کی ایک عبرتناک یادگار قائم رہ جائے گی ۔ بجنسہٖ یہی حال ان ہونہار طالب علموں کا ہے جو مدرسہ چھوڑ کر یہ سمجھ لیں کہ ہم عالم بن چکے ۔ یہ طلبہ بھی اپنی ہونہاری کا خون کر کے اپنے استاد اور دوستوں کے دلوں کو حسرت کاداغ دیں گے۔

   دوسرا دور طالب علمی کا مدرسے کے بعد شروع ہوتا ہے جس میں انسان خود شاگرد بنتا ہے اور خود استاد :

 معلم کیست  عشق  و  کنج  خاموشی  دبستانش

سبق  نادانی   و  دانادلم  طفل  سبق  خوانش

زہر  کس  نایدایں استاد  شاگردی نہ ہر کو ہے

بد  خشاں  باشدوہر  سنگریزہ  لعل  رخشانش

   اس دور کی انتہا وہ ہے جو بلند خیال ابن العلاء نے مقرر کی ہے یعنی  ُمادامت الحیاۃ تحسن ، (  جب تک زندگی بخیر ہے ۔) ۔ یہی دور کمال کا دور ہے ۔ پس طالب علمی اور کمال گو یا ایک ہی ہیں اور اسی لحاظ سے ہم نے طلب علم کو اول اور آخر منزل قرار دیا ہے

         جن جواں مردوں نے میدان طلب علم کو طے کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ راہ کیسی معر کہ خیز اور صبر آزما ہے۔ کہیں افلاس کامردم خواردیو اپنی منحوس صورت دکھلاتا ہے، اور  ُ قوت لا یموت  ، کے حاصل ہونے کی بھی کوئی شکل نظر نہیں آتی ؛ کبھی جڑی بوٹی کے پتوں پر بسر کر نی ہوتی ہے اور کبھی نان بائی کی دکان پر صرف بوئے طعام پر قانع ہونا پڑ تا ہے ؛ کہیں محنت و مشقت سے دل گھبراتا ہے اور چھکے چھو ٹتے ہیں؛ کسی کو نازو نعمت کے کرشمے اپنی طرف کھینچتے ، کسی کی نفسانی خواہشیں دست بگر یباں ہوتی ہیں ۔ غرض ایک ہنگامہ بلا خیز سے سامنا کر نا پڑتا ہے ۔ جن ارادوں میں ذرا بھی قوت کی کمی ہوتی ہے وہ ان معرکوں کے مقابلے میں پست ہو جاتے ہیں اور ان کی زبان حال پر لاطاقۃ لنا الیوم کا مضمون ہوتا ہے ؛ لیکب سچی طلب اپنا راستہ صاف کر کے طالب کو مطلوب تک پہنچادیتی ہے ۔ جس قدر دقت اور صعوبت پیش آتی ہے ان بہادر طالبوں کے عزم زیادہ مستحکم اور حوصلے زیادہ بلند ہو تے جاتے ہیں ۔ اگر حوصلوں میں وسعت اور ارادوں میں استحکام نہ ہوتا تو اہل اسلام کو شیخ الاسلام بقی بن مخلد ، امام بخاری اور حکیم ابو نصر فارابی نصیب نہ ہوتے ۔کیا چقندر کے پتے اور جنگل کی گھاس کھاکر ، اور شب کو پاسبانوں کی لالٹینوں سے مطالعہ کر کے امام اور حکیم بن جانا آسان ہے؟ نہیں ہر گز نہیں !! وہ کون سی قوت تھی جس نے علی بن عاصم عراقی اور ابن سنجر کو ناز ونعمت کے آغوش دے چھین کر راہ طلب میں سر گرداں کردیا، اور اتنا پھر ایا کہ ایک کو مُسنِدِ عراق اور دوسرے کو حا فظِ کبیر بنا کر چھوڑا۔ بے شک یہ طلبِ صادق ہی کا کرشمہ تھا ۔ اتنی تمہید یہ امر ناظرینِ با تمکین کے ذہن نشین کر سکے گی کہ ہم علماے سلف کی طلبِ علم کی نسبت کس کس پہلو پر بحث کر نے والے ہیں اور سچی طلب کا معیار ہمارے پاس کیا ہے؟

 http://www.bhatkallys.com/ur/author/habiburrahmnasherwani/