آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے

Bhatkallys

Published in - Other

05:16PM Mon 4 Feb, 2013
Haneef Shabab ڈاکٹر محمد حنیف شباب آفرین کلینک ، بھٹکل ’’زعفرانی دہشت گردی‘‘پربلبلاہٹ کیوں؟؟!! ہندوستان کی حالیہ تاریخ میں ایک زمانہ وہ تھا،جب ہمارا ملک یو ایس ایس آر کا جگری یار اور بھروسہ مند حلیف ہوا کرتا تھا، تب یہاں ہونے والے ہر ناخوشگوار حادثہ کے پیچھے حکومت اور تحقیقاتی ایجنسیوں کو پلک جھپکتے ہی امریکہ کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی سی آئی اےCIAکا ہاتھ نظر آتا تھا۔پھر جب امریکہ اور USSRکی سرد جنگ کے ایک طویل مرحلہ کے بعد روس سکڑ اور سمٹ کر رہ گیا اور اس کی ساکھ باقی نہیں تو انکل سام اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل سے ہمارے رشتے استوا اور مظبوط ہونے لگے ،تو یہاں سرحد پار سے آنے والا ایک لمبا ہاتھ نظر آنے لگااور اسے آئی ایس آئی کے ہاتھ سے موسوم کیا جانے لگا۔حالانکہ اس سے پہلے کبھی بھی سی آئی اے کے ہاتھ کو کرسچین ہاتھ نہیں کہا گیا تھا، لیکن پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے ہاتھ کو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔اور پھر یہ ہاتھ ’’اسلامی‘‘ یا Islamist بن گیا۔ اسلامی دہشت گردی کا ہوّا : کشمیر میں جاری شورش کے ساتھ ہندوستان میں مبینہ’’مسلم دہشت گردی‘‘ کا چرچا ہونے لگاجسے آگے چل کر ’’اسلامی دہشت گردی‘‘کا نام دیا گیا، اور یہی سکۂ رائج الوقت بن گیا۔ملک میں ہر طرف خونریز حادثات ہوتے رہے۔ بم پھٹتے رہے۔ دھماکے ہوتے رہے۔ ’’اسلامی دہشت گرد‘‘ پکڑے جاتے رہے۔ اور فسطائی طاقتیں تو خیر اپنی ہی بولی بولیں گی، خود حکومتی سطح پر یہی لائن اپنائی گئی کہ دہشت گردی کے ان واقعات میں اسلامی انتہا پسندی extremism کی آئیڈیالوجی کام کر رہی ہے۔ اور اس آگ کو سر حد پار سے ہوا دی جارہی ہے۔ مزیدار بات تو یہ ہوتی رہی ہے، اور اب بھی ہو رہی ہے کہ ملک کے کسی نہ کسی کونے میں پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے ذریعہ بم دھماکوں کے واقعات یا دہشت گردی کی سازش کا پردہ فاش کرنے کا ایک مخصوص موسم بھی ہوا کرتا ہے۔ جیسے عید ، دیوالی، ہولی یا پھرجشن آزادی یا یوم جمہوریہ کے موقع پر کہیں دھماکے یاسرکاری ایجنسیوں کے ذریعہ دہشت گردوں کی گرفتاری اور ڈھیر سارے گولہ بارود کی ضبطی کے بغیر یہ جشن اور تہوار نامکمل رہ جاتے ہیں۔ آزاد ہندوستان کا پہلا دہشت گرد: حالانکہ ساری دنیا جاتی ہے کہ آزاد ہندوستان کا پہلا دہشت گرد مہاتما گاندھی کا قاتل ناتھو رام گوڈسے ہندو مہا سبھا اور آر ایس ایس کا تربیت یافتہ کارکن تھا۔لیکن اس کی بنیاد پر کبھی ’’ہندو دہشت گردی‘‘کا نام نہ میڈیا نے لیا اور نہ ہی سرکار دربار نے۔ مگر’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کو ہر محاذ پر ہر ایک نے اچھالا ۔ پوری مسلم قوم کے کردار کو نہ صرف مشکوک بنا کر رکھ دیا گیابلکہ مسلم نوجوان نسل کو تباہ و برباد کرنے کی سازشوں میں سرکاری ایجنسیاں اور میڈیا والے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ حکومت چاہے یو پی اے کی رہی ہو یا این ڈی اے کی سب کا سُر سنگم ایک ہی تھا۔ہر بم دھماکے کے پیچھے ’’مسلم دہشت گردی‘‘کے تار اور وہ بھی سرحد پار سے جڑے ہوئے۔ پروپگنڈہ کا اثر : اگرچہ جانکار اور دانشور لابی حکومت اور سرکاری ایجنسیوں کے بیانات پر آنکھ بند کر کے یقین کرنے کو تیارنہیں تھی کیونکہ اسے ان واقعات کے پیچھے مسلم قوم کو بدنام اور برباد کرنے کی سازش محسوس ہورہی تھی۔ لیکن یہ اینٹی مسلم پروپگنڈہ اتنا منظم اور ایسا کارگر ہوتا تھاکہ خود مسلمان قائدین بھی دفاعی پوزیشن میں آگئے، اور مبینہ مسلم دہشت گردوں کو ملت بدر اور جہنم رسید کرنے کے لیے تلواریں سونت کر اٹھ کھڑے ہوئے۔حالانکہ اس دوران مہاراشٹرا کے نانڈیر،ناگپور اور پربھنی جیسے مقامات پر ایسے دہشت گردانہ واقعات رونما ہو چکے تھے ، جو ہندتوا وادیوں کی دہشت گردی کی طرف واضح اشارے کر رہے تھے ۔اور واقعاتی شواہد بھی موجود تھے ، لیکن اس کے باوجود کیسری آتنک واد کے شبہ کوخفیہ ایجنسیوں نے اور تحقیقاتی اداروں نے سنجیدگی سے نہیں لیا ۔بلکہ بعض مرحلوں پر اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ لہٰذا ملک بھرمیں سینکڑوں نوجوان سلاخوں کے پیچھے سڑتے رہے اور ٹارچر کی شکل میں زندگی کی بد ترین اذیتیں ان جرائم اور گناہوں کے لیے سہتے رہے ، جو کبھی ان سے سرزد ہو ئے ہی نہیں تھے ۔ اور پانسا پلٹ گیا : مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اچانک پانسا پلٹ گیا۔ مہاراشٹرا ATSکے مقتول چیف مسٹر کرکرے اور ا ن کی ٹیم کے ہاتھ سادھوی پرگیا سنگھ کی شکل میں بھگوا بریگیڈ کے دہشت گردوں کی پہلی بڑی مچھلی لگ گئی۔ اورایسا لگا کہ پہلی بار اونٹ پہاڑ کے نیچے آگیا ہے۔ اس کے بعد جیسے زعفرانی دہشت گردوں کے سارے منصوبے طشت از بام ہونے شروع ہوگئے اور دیش بھکتی کے چولے میں آتنک واد ی سازش کے تار جب ناگپور اور دہلی کے جھنڈے والان میں موجود آقاؤں سے جڑنے کے ثبوت ATSاور دیگر ایجنسیوں کے ہاتھ لگنے شروع ہوگئے تومہاراشٹرا کے سابق پولیس چیف مسٹر مشرف کے بقول مسٹر کرکرے اور ان کی ٹیم کے اہم کرداروں کو ایسی ہی دہشت گردانہ کارروائی میں ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلا دیا گیا۔(تفصیلات کے لیے پڑھیں کتاب:who killed Karkare) نتیجتاً ابھینو بھارت ، سناتن دھرم وغیرہ سے جڑے ہندتوا وادی دہشت گردوں کی گردنیں ناپنے کا کام سست ہوگیا۔اور مسلمانوں کو رسوا کرنے کے لیے دہشت گردی کی ہر گھٹنا کو انڈین مجاہدین سے جوڑ کر مسلم تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ملک کے کونے کونے میں ہراساں کرنے کا کام اسی رفتار سے جاری رہا۔ شندے جی بھی بولے! : کچھ عرصہ پہلے اس زعفرنی دہشت گردی کے تعلق سے سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم جی نے اشارہ کرتے ہوئے لب کشائی کی تھی۔ اس کے خلاف ذرا سی ہلچل ہوئی اور بات آئی گئی ہوگئی۔ مگر اس بار راجستھان کے کانگریس کنونشن کے دوران جب موجودہ وزیر داخلہ مسٹر سشیل کمار شندے نے صاف لفظوں میں ہندو ٹیررزم کی بات کہی تو فسطائی طاقتوں کے علمبردار بلبلا اٹھے ہیں۔ مزے کی بات تو یہ ہوئی کہ اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دیکھتے ہوئے ، اپنے حساب سے بیان کی شدت کم کرنے لیے شندے جی نے صفائی دی کہ ان کا مطلب ’’ہندو دہشت گردی‘‘ نہیں، بلکہ’’ زعفرانی دہشت گردی‘‘ تھا ۔پھر کیا تھا،طوفان سرد ہونے کے بجائے زلزلہ میں بدل گیا۔بھگو ا بریگیڈ کے کمانڈر وں کی جانب سے زعفرانی رنگ کی اہمیت اور مقام کو بے وزن اور مضحکہ خیزانداز میں بیان کرکے شندے کا ناک میں دم کرنے اور ان کے گلے میں پھندہ ڈالنے کی کوششیں تیز تر ہوگئی ہیں۔مگر اتنی ہمت تو شندے جی نے فی الحال دکھادی ہے،اور اس کی داد دینی ہوگی کہ وہ اپنے پاس موجود حقائق اور شواہد کا حوالہ دیتے ہوئے زعفرانی دہشت گردی کو ایک حقیقت قرار دے رہے ہیں۔ اور کسی طور اپنے بیان سے پلٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ حقیقت پر سیاست کیوں؟ : دنیا جانتی ہے کہ غیر ہندوؤں اور خاص کر مسلمانوں سے بغض و نفرت اور ان سے عداوت و دشمنی بھگو ا بریگیڈ کی بنیادوں میں ہی موجود ہے ( جسے شک ہو، وہ ساورکر اور ہڈ گیوار کی کتابیں جیسےWe the Nation defined, Bunch of Thoughtsوغیرہ پڑھے۔)آزاد ہندوستان کی تاریخ میں درجنوں مسلم کش فسادات کے دوران مسلمانوں کے خونِ ناحق سے اس عفریت کی پیاس بجھائی گئی ہے۔ مگر اب جب کہ زبانِ خنجرسے قاتلوں کے نام پکارے جارہے ہیں، مسلمانو ں کے ٹپکے ہوئے خون کا ہر قطرہ کف قاتل پر جم چکا ہے اور ظلم کے حد سے گزر جانے کے بعد مٹ جا نے کا موسم آیا ہے، توغیر فسطائی قوتوں اورحکمراں کانگریس کی اعلیٰ قیادت بشمول وزیر اعظم سے سوال یہ ہے کہ اس روز روشن کی طرح عیاں حقیقت پر آخر سیاست کیوں کھیلی جارہی ہے؟جب وزارت داخلہ کے پاس ضروری in putاور ثبوت موجود ہیں،توان مجرموں کے خلاف اقدامات کرنے کے بجائے وزیر داخلہ کا کسی پارٹی فورم میں محض الزام دھرنا ، اور پھر پارٹی اعلیٰ کمان کا ’’دہشت گردی کا کوئی رنگ اور مذہب نہیں ہوتا‘‘ جیسے ڈپلومیٹک بیان دے کر اپنے آپ کووزیر داخلہ کے بیان سے الگ کر لینااگر سیاست نہیں تو پھر کیا ہے؟ یہ دوہرے پیمانے کیوں؟ : یہ تماشہ تویہاں روز ہوتا ہے کہ کسی بھی دہشت گردانہ کارروائی کے رونما ہوتے ہی پل بھر میں ہماری خفیہ ایجنسیاں، ہماری سرکاریں اور ہماری پولیس وہ ساری تفصیلات،’’ثبوتوں‘‘کے ساتھ میڈیا کے سامنے پیش کردیتی ہے، کہ یہ سازش کہاں رچی گئی؟ ماسٹر مائنڈ کون ہے؟ کونسا module/outfit سرگرم رہا؟ کہاںsleeing cellموجود ہے۔ اس کو مالیہ fundingکس کے ذریعہ اور کہاں سے فراہم ہوا؟ وغیرہ۔اور دیش بھکتی کا ناٹک کرنے والا ٹولہ مسلمانوں کے خلاف مسلسل زہر اگلتے رہتا ہے۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اب عدالتوں میں پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے یہ’’ثبوت‘‘ جھوٹے اور من گھڑت ثابت ہو رہے ہیں۔ اورمختلف ریاستوں سے گرفتار شدہ مسلم نوجوانوں کو برسوں تک جرم بے گناہی کی سزا کاٹنے کے بعد عدالتیں ’’باعزت‘‘ بری کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں۔ تب سوا ل یہ ہے کہ جب سیمی پراب تک کوئی دہشت گردانہ کارروائی عدالتوں میں ثابت نہ کئے جانے کے باوجود حکومت خصوصی آرڈیننس کے ذریعہ پابندی لگا سکتی ہے، ’’منصوبہ بند سازش‘‘ کے نام پر بغیر حقیقی ثبوتوں کے مسلم نوجوانوں کو پابند سلاسل کیا جاسکتا ہے۔’’آئی ایس آئی‘‘ اور’’انڈین مجاہدین‘‘ کا بھوت دکھا کر پوری ملت اسلامیہ ہند کو اقوام عالم میں سوا کیا جاسکتا ہے، تو پھر وزارت داخلہ کے پاس تمام تر شواہد موجود ہونے کے باوجودبھگوا دہشت گردوں کے خلاف سخت تری قدم کیوں نہیں اٹھائے جا رہے ہیں؟ہندو مہا سبھا ، آر ایس ایس اور بی جے پی کے ساتھ پورے سنگھ پریوار پر پابندی کیوں نہیں لگائی جا رہی ہے؟کیا اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ بیان بازی صرف ووٹ بنک کی سیاست کامحض ایک پینترہ ہے! لاکھ ٹکے کا سوال : جب یونین ہوم سکریٹری آر کے سنگھ کے بیان کے مطابق مختلف بم دھماکوں میں ملوث پائے جانے والے کم از کم دس ملزموں کا آر ایس ایس سے تعلق ثابت ہو چکا ہے، جن میں سمجھوتہ ایکسپریس اوراجمیر درگاہ دھماکہ میں شامل سنیل جوشی(اب فوت ہو چکا ہے)،مکہ مسجدو سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ میں این آئی اے کو مطلوب سندیپ ڈانگے،رام جی کلسنگڑا،مکہ مسجد اور سمجھوتہ ایکسپریس کیس میں جیل میں بند لوکیش شرما، راجندر عرف سمندر اور کمل چوہان،دیویندر گپتا، چندر شیکھر لیوے، اجمیر بلاسٹ میں گرفتار مکیش واسانی کے علاوہ مکہ مسجد، اجمیر شریف اور سمجھوتہ ایکسپریس بلاسٹ کے ماسٹر مائنڈسوامی اسیمانندسب کے سب آر ایس ایس کے اہم ترین کارکنوں کی حیثیت سے ملک کے مختلف مقامات پراہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ تو لاکھ ٹکے کا سوال یہ ہے کہ ہوم منسٹر شندے جی کے بیان پر بی جے پی یہ ہوُ ہلّہ کیوں مچا رہی ہے؟ اور ہندتوا دہشت گردی کوبھگواٹیرر کہنے پر اس قدر بلبلاہٹ اور تلملاہٹ کیا معنے؟؟کیونکہ مسلم ٹیررزم اورIsmlamistدہشت گردی کا لیبل لگانے میں اس کے ہوم منسٹر ایل کے ایڈوانی جی تک کو بھی کبھی کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوا کرتی تھی! شاید فسطائیت کے علمبرداروں کواب سمجھ میں آجائے کہ رسوائی کا درد کیا ہو تا ہے اور معصوموں کی آہ کا اثر کیسے رنگ لاتا ہے! cell: 9986300865 haneefshabab@gmail.com[:fa]آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے   Haneef Shabab ڈاکٹر محمد حنیف شباب آفرین کلینک ، بھٹکل ’’زعفرانی دہشت گردی‘‘پربلبلاہٹ کیوں؟؟!! ہندوستان کی حالیہ تاریخ میں ایک زمانہ وہ تھا،جب ہمارا ملک یو ایس ایس آر کا جگری یار اور بھروسہ مند حلیف ہوا کرتا تھا، تب یہاں ہونے والے ہر ناخوشگوار حادثہ کے پیچھے حکومت اور تحقیقاتی ایجنسیوں کو پلک جھپکتے ہی امریکہ کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی سی آئی اےCIAکا ہاتھ نظر آتا تھا۔پھر جب امریکہ اور USSRکی سرد جنگ کے ایک طویل مرحلہ کے بعد روس سکڑ اور سمٹ کر رہ گیا اور اس کی ساکھ باقی نہیں تو انکل سام اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل سے ہمارے رشتے استوا اور مظبوط ہونے لگے ،تو یہاں سرحد پار سے آنے والا ایک لمبا ہاتھ نظر آنے لگااور اسے آئی ایس آئی کے ہاتھ سے موسوم کیا جانے لگا۔حالانکہ اس سے پہلے کبھی بھی سی آئی اے کے ہاتھ کو کرسچین ہاتھ نہیں کہا گیا تھا، لیکن پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے ہاتھ کو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔اور پھر یہ ہاتھ ’’اسلامی‘‘ یا Islamist بن گیا۔ اسلامی دہشت گردی کا ہوّا : کشمیر میں جاری شورش کے ساتھ ہندوستان میں مبینہ’’مسلم دہشت گردی‘‘ کا چرچا ہونے لگاجسے آگے چل کر ’’اسلامی دہشت گردی‘‘کا نام دیا گیا، اور یہی سکۂ رائج الوقت بن گیا۔ملک میں ہر طرف خونریز حادثات ہوتے رہے۔ بم پھٹتے رہے۔ دھماکے ہوتے رہے۔ ’’اسلامی دہشت گرد‘‘ پکڑے جاتے رہے۔ اور فسطائی طاقتیں تو خیر اپنی ہی بولی بولیں گی، خود حکومتی سطح پر یہی لائن اپنائی گئی کہ دہشت گردی کے ان واقعات میں اسلامی انتہا پسندی extremism کی آئیڈیالوجی کام کر رہی ہے۔ اور اس آگ کو سر حد پار سے ہوا دی جارہی ہے۔ مزیدار بات تو یہ ہوتی رہی ہے، اور اب بھی ہو رہی ہے کہ ملک کے کسی نہ کسی کونے میں پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے ذریعہ بم دھماکوں کے واقعات یا دہشت گردی کی سازش کا پردہ فاش کرنے کا ایک مخصوص موسم بھی ہوا کرتا ہے۔ جیسے عید ، دیوالی، ہولی یا پھرجشن آزادی یا یوم جمہوریہ کے موقع پر کہیں دھماکے یاسرکاری ایجنسیوں کے ذریعہ دہشت گردوں کی گرفتاری اور ڈھیر سارے گولہ بارود کی ضبطی کے بغیر یہ جشن اور تہوار نامکمل رہ جاتے ہیں۔ آزاد ہندوستان کا پہلا دہشت گرد: حالانکہ ساری دنیا جاتی ہے کہ آزاد ہندوستان کا پہلا دہشت گرد مہاتما گاندھی کا قاتل ناتھو رام گوڈسے ہندو مہا سبھا اور آر ایس ایس کا تربیت یافتہ کارکن تھا۔لیکن اس کی بنیاد پر کبھی ’’ہندو دہشت گردی‘‘کا نام نہ میڈیا نے لیا اور نہ ہی سرکار دربار نے۔ مگر’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کو ہر محاذ پر ہر ایک نے اچھالا ۔ پوری مسلم قوم کے کردار کو نہ صرف مشکوک بنا کر رکھ دیا گیابلکہ مسلم نوجوان نسل کو تباہ و برباد کرنے کی سازشوں میں سرکاری ایجنسیاں اور میڈیا والے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ حکومت چاہے یو پی اے کی رہی ہو یا این ڈی اے کی سب کا سُر سنگم ایک ہی تھا۔ہر بم دھماکے کے پیچھے ’’مسلم دہشت گردی‘‘کے تار اور وہ بھی سرحد پار سے جڑے ہوئے۔ پروپگنڈہ کا اثر : اگرچہ جانکار اور دانشور لابی حکومت اور سرکاری ایجنسیوں کے بیانات پر آنکھ بند کر کے یقین کرنے کو تیارنہیں تھی کیونکہ اسے ان واقعات کے پیچھے مسلم قوم کو بدنام اور برباد کرنے کی سازش محسوس ہورہی تھی۔ لیکن یہ اینٹی مسلم پروپگنڈہ اتنا منظم اور ایسا کارگر ہوتا تھاکہ خود مسلمان قائدین بھی دفاعی پوزیشن میں آگئے، اور مبینہ مسلم دہشت گردوں کو ملت بدر اور جہنم رسید کرنے کے لیے تلواریں سونت کر اٹھ کھڑے ہوئے۔حالانکہ اس دوران مہاراشٹرا کے نانڈیر،ناگپور اور پربھنی جیسے مقامات پر ایسے دہشت گردانہ واقعات رونما ہو چکے تھے ، جو ہندتوا وادیوں کی دہشت گردی کی طرف واضح اشارے کر رہے تھے ۔اور واقعاتی شواہد بھی موجود تھے ، لیکن اس کے باوجود کیسری آتنک واد کے شبہ کوخفیہ ایجنسیوں نے اور تحقیقاتی اداروں نے سنجیدگی سے نہیں لیا ۔بلکہ بعض مرحلوں پر اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ لہٰذا ملک بھرمیں سینکڑوں نوجوان سلاخوں کے پیچھے سڑتے رہے اور ٹارچر کی شکل میں زندگی کی بد ترین اذیتیں ان جرائم اور گناہوں کے لیے سہتے رہے ، جو کبھی ان سے سرزد ہو ئے ہی نہیں تھے ۔ اور پانسا پلٹ گیا : مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اچانک پانسا پلٹ گیا۔ مہاراشٹرا ATSکے مقتول چیف مسٹر کرکرے اور ا ن کی ٹیم کے ہاتھ سادھوی پرگیا سنگھ کی شکل میں بھگوا بریگیڈ کے دہشت گردوں کی پہلی بڑی مچھلی لگ گئی۔ اورایسا لگا کہ پہلی بار اونٹ پہاڑ کے نیچے آگیا ہے۔ اس کے بعد جیسے زعفرانی دہشت گردوں کے سارے منصوبے طشت از بام ہونے شروع ہوگئے اور دیش بھکتی کے چولے میں آتنک واد ی سازش کے تار جب ناگپور اور دہلی کے جھنڈے والان میں موجود آقاؤں سے جڑنے کے ثبوت ATSاور دیگر ایجنسیوں کے ہاتھ لگنے شروع ہوگئے تومہاراشٹرا کے سابق پولیس چیف مسٹر مشرف کے بقول مسٹر کرکرے اور ان کی ٹیم کے اہم کرداروں کو ایسی ہی دہشت گردانہ کارروائی میں ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلا دیا گیا۔(تفصیلات کے لیے پڑھیں کتاب:who killed Karkare) نتیجتاً ابھینو بھارت ، سناتن دھرم وغیرہ سے جڑے ہندتوا وادی دہشت گردوں کی گردنیں ناپنے کا کام سست ہوگیا۔اور مسلمانوں کو رسوا کرنے کے لیے دہشت گردی کی ہر گھٹنا کو انڈین مجاہدین سے جوڑ کر مسلم تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ملک کے کونے کونے میں ہراساں کرنے کا کام اسی رفتار سے جاری رہا۔ شندے جی بھی بولے! : کچھ عرصہ پہلے اس زعفرنی دہشت گردی کے تعلق سے سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم جی نے اشارہ کرتے ہوئے لب کشائی کی تھی۔ اس کے خلاف ذرا سی ہلچل ہوئی اور بات آئی گئی ہوگئی۔ مگر اس بار راجستھان کے کانگریس کنونشن کے دوران جب موجودہ وزیر داخلہ مسٹر سشیل کمار شندے نے صاف لفظوں میں ہندو ٹیررزم کی بات کہی تو فسطائی طاقتوں کے علمبردار بلبلا اٹھے ہیں۔ مزے کی بات تو یہ ہوئی کہ اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دیکھتے ہوئے ، اپنے حساب سے بیان کی شدت کم کرنے لیے شندے جی نے صفائی دی کہ ان کا مطلب ’’ہندو دہشت گردی‘‘ نہیں، بلکہ’’ زعفرانی دہشت گردی‘‘ تھا ۔پھر کیا تھا،طوفان سرد ہونے کے بجائے زلزلہ میں بدل گیا۔بھگو ا بریگیڈ کے کمانڈر وں کی جانب سے زعفرانی رنگ کی اہمیت اور مقام کو بے وزن اور مضحکہ خیزانداز میں بیان کرکے شندے کا ناک میں دم کرنے اور ان کے گلے میں پھندہ ڈالنے کی کوششیں تیز تر ہوگئی ہیں۔مگر اتنی ہمت تو شندے جی نے فی الحال دکھادی ہے،اور اس کی داد دینی ہوگی کہ وہ اپنے پاس موجود حقائق اور شواہد کا حوالہ دیتے ہوئے زعفرانی دہشت گردی کو ایک حقیقت قرار دے رہے ہیں۔ اور کسی طور اپنے بیان سے پلٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ حقیقت پر سیاست کیوں؟ : دنیا جانتی ہے کہ غیر ہندوؤں اور خاص کر مسلمانوں سے بغض و نفرت اور ان سے عداوت و دشمنی بھگو ا بریگیڈ کی بنیادوں میں ہی موجود ہے ( جسے شک ہو، وہ ساورکر اور ہڈ گیوار کی کتابیں جیسےWe the Nation defined, Bunch of Thoughtsوغیرہ پڑھے۔)آزاد ہندوستان کی تاریخ میں درجنوں مسلم کش فسادات کے دوران مسلمانوں کے خونِ ناحق سے اس عفریت کی پیاس بجھائی گئی ہے۔ مگر اب جب کہ زبانِ خنجرسے قاتلوں کے نام پکارے جارہے ہیں، مسلمانو ں کے ٹپکے ہوئے خون کا ہر قطرہ کف قاتل پر جم چکا ہے اور ظلم کے حد سے گزر جانے کے بعد مٹ جا نے کا موسم آیا ہے، توغیر فسطائی قوتوں اورحکمراں کانگریس کی اعلیٰ قیادت بشمول وزیر اعظم سے سوال یہ ہے کہ اس روز روشن کی طرح عیاں حقیقت پر آخر سیاست کیوں کھیلی جارہی ہے؟جب وزارت داخلہ کے پاس ضروری in putاور ثبوت موجود ہیں،توان مجرموں کے خلاف اقدامات کرنے کے بجائے وزیر داخلہ کا کسی پارٹی فورم میں محض الزام دھرنا ، اور پھر پارٹی اعلیٰ کمان کا ’’دہشت گردی کا کوئی رنگ اور مذہب نہیں ہوتا‘‘ جیسے ڈپلومیٹک بیان دے کر اپنے آپ کووزیر داخلہ کے بیان سے الگ کر لینااگر سیاست نہیں تو پھر کیا ہے؟ یہ دوہرے پیمانے کیوں؟ : یہ تماشہ تویہاں روز ہوتا ہے کہ کسی بھی دہشت گردانہ کارروائی کے رونما ہوتے ہی پل بھر میں ہماری خفیہ ایجنسیاں، ہماری سرکاریں اور ہماری پولیس وہ ساری تفصیلات،’’ثبوتوں‘‘کے ساتھ میڈیا کے سامنے پیش کردیتی ہے، کہ یہ سازش کہاں رچی گئی؟ ماسٹر مائنڈ کون ہے؟ کونسا module/outfit سرگرم رہا؟ کہاںsleeing cellموجود ہے۔ اس کو مالیہ fundingکس کے ذریعہ اور کہاں سے فراہم ہوا؟ وغیرہ۔اور دیش بھکتی کا ناٹک کرنے والا ٹولہ مسلمانوں کے خلاف مسلسل زہر اگلتے رہتا ہے۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اب عدالتوں میں پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے یہ’’ثبوت‘‘ جھوٹے اور من گھڑت ثابت ہو رہے ہیں۔ اورمختلف ریاستوں سے گرفتار شدہ مسلم نوجوانوں کو برسوں تک جرم بے گناہی کی سزا کاٹنے کے بعد عدالتیں ’’باعزت‘‘ بری کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں۔ تب سوا ل یہ ہے کہ جب سیمی پراب تک کوئی دہشت گردانہ کارروائی عدالتوں میں ثابت نہ کئے جانے کے باوجود حکومت خصوصی آرڈیننس کے ذریعہ پابندی لگا سکتی ہے، ’’منصوبہ بند سازش‘‘ کے نام پر بغیر حقیقی ثبوتوں کے مسلم نوجوانوں کو پابند سلاسل کیا جاسکتا ہے۔’’آئی ایس آئی‘‘ اور’’انڈین مجاہدین‘‘ کا بھوت دکھا کر پوری ملت اسلامیہ ہند کو اقوام عالم میں سوا کیا جاسکتا ہے، تو پھر وزارت داخلہ کے پاس تمام تر شواہد موجود ہونے کے باوجودبھگوا دہشت گردوں کے خلاف سخت تری قدم کیوں نہیں اٹھائے جا رہے ہیں؟ہندو مہا سبھا ، آر ایس ایس اور بی جے پی کے ساتھ پورے سنگھ پریوار پر پابندی کیوں نہیں لگائی جا رہی ہے؟کیا اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ بیان بازی صرف ووٹ بنک کی سیاست کامحض ایک پینترہ ہے! لاکھ ٹکے کا سوال : جب یونین ہوم سکریٹری آر کے سنگھ کے بیان کے مطابق مختلف بم دھماکوں میں ملوث پائے جانے والے کم از کم دس ملزموں کا آر ایس ایس سے تعلق ثابت ہو چکا ہے، جن میں سمجھوتہ ایکسپریس اوراجمیر درگاہ دھماکہ میں شامل سنیل جوشی(اب فوت ہو چکا ہے)،مکہ مسجدو سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ میں این آئی اے کو مطلوب سندیپ ڈانگے،رام جی کلسنگڑا،مکہ مسجد اور سمجھوتہ ایکسپریس کیس میں جیل میں بند لوکیش شرما، راجندر عرف سمندر اور کمل چوہان،دیویندر گپتا، چندر شیکھر لیوے، اجمیر بلاسٹ میں گرفتار مکیش واسانی کے علاوہ مکہ مسجد، اجمیر شریف اور سمجھوتہ ایکسپریس بلاسٹ کے ماسٹر مائنڈسوامی اسیمانندسب کے سب آر ایس ایس کے اہم ترین کارکنوں کی حیثیت سے ملک کے مختلف مقامات پراہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ تو لاکھ ٹکے کا سوال یہ ہے کہ ہوم منسٹر شندے جی کے بیان پر بی جے پی یہ ہوُ ہلّہ کیوں مچا رہی ہے؟ اور ہندتوا دہشت گردی کوبھگواٹیرر کہنے پر اس قدر بلبلاہٹ اور تلملاہٹ کیا معنے؟؟کیونکہ مسلم ٹیررزم اورIsmlamistدہشت گردی کا لیبل لگانے میں اس کے ہوم منسٹر ایل کے ایڈوانی جی تک کو بھی کبھی کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوا کرتی تھی! شاید فسطائیت کے علمبرداروں کواب سمجھ میں آجائے کہ رسوائی کا درد کیا ہو تا ہے اور معصوموں کی آہ کا اثر کیسے رنگ لاتا ہے! cell: 9986300865 haneefshabab@gmail.com