سچی باتیں ۔ تقوی کی اہمیت ۔۔۔ از : مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys

Published in - Other

08:00PM Thu 29 Jun, 2017

وَمَن یَتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہُ مَخْرَجًاوَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَایَحْتَسِبْ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلٰی اللّٰہِ فَھُوَحَسْبُہُ اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہِ قَدْجَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شِیْئٍ قَدْرًا۔ اور جو کوئی اللہ سے تقویٰ اختیار کرتا ہے اللہ اس کے لیے کشائش پیدا کردیتا ہے اور جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتااسے روزی دیتا ہے اور جو کوئی اللہ پر توکل رکھے پس وہ اس کے لیے کافی ہے یقینااللہ اپنا ہر کا م پورا کرلیتاہے اللہ نے ہر شے کا اندازہ ٹھہرارکھا ہے۔ یہ کسی شاعر کا کلام نہیں ،کسی انشا پرداز کی عبارت آرائی نہیں،کسی انسانی دماغ سے نکلا ہوا مقولہ نہیں ،زمین وآسمان کے پیدا کرنے والے ،تمام اشیاء کو نیست سے ہست کرنے والے جملہ اسباب و وسائل کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھنے والے کا ارشاد ہے ،جو قرآنِ پاک کی سورۂ طلاق کی رکوع۲ میں وارد ہے آپ کا اس کے متعلق کیا خیال ہے؟ آپ بھی دنیوی کامیابی کے لیے تقویٰ کی اس اہمیت کے قائل ہیں؟آپ بھی توکل کو ایسی ہی اہم اور ضروری چیز خیال کرتے ہیں یا اس کے برعکس ایک ضعیف الاعتقادی و خام خیالی؟ آیۂ کریمہ کا مفہوم واضح ہے کسی تفسیر و تحشیہ کی حاجت نہیں ارشاد ہوتا ہے کہ جو کوئی اللہ سے تقویٰٗ اختیار کرتاہے ،جو خوفِ خدا ، خشیتِ الٰہی ،امانت ،صداقت ،دیانت کو اپنی روشن زندگی بنا لیتاہے اس کے لیے اسی مادی دنیا میں کامیابی اور کشائش کی نئی نئی راہیں اللہ پیدا کرتا رہتا ہے اور سامانِ معاش ومعیشت اسے اُن اُن ذرائع سے پہنچاتا رہتاہے ،جن کا اس قبیل سے کچھ وہم وگمان بھی نہیں ہوتا اور جو کوئی اللہ پر توکل و اعتماد رکھتاہے وہ اپنی مراد کو پہنچ کررہتا ہے اس لیے کہ اس کی ذات پاک تو تمام اسباب کی پیدا کرنے والی اور ان پر قدرت رکھنے والی اور وہی تو ہر ضرورت اور اس کے سامان کا اندازہ داں اور اس کی بہم رسانی پر تنہا بغیر کسی شرکت وامداد کے قادر ہے پس اپنے ذہن کودرمیانی واسطوں اور وسیلوں میں کیوں اتنا الجھائے ہوئے رہتے ہو براہِ راست اسی مسبب الاسباب ،اسی قادرِ مطلق سے کیوں نہیں تعلق پیدا کرلیتے اسباب کا جال بھی اسی حکیم مطلق کا پھیلایا ہو اہے اس لیے ان سے کا م لینے کو منع نہیں فرمایا ان سے واسطہ رکھنے کو حرام نہیں قرار دیا لیکن ان پر اعتماد کرنے ۔۔۔ان سے دل اٹکانے کو یقینا جہالت ونادانی بتایا ہے اور اس اعتماد و توکل ،اور اس بھروسے اور سہارے کے لائق صرف اپنی ہی ذات کو قراردیا ہے یہ اللہ کا فرمان ہے اور اسی کی بنا پر رسول کا یہ عمل تھا کہ عین اس شب کو جب کہ مکہ کی ساری آبادی خون کی پیاسی ہورہی تھی اور قتل کرنے والے سازشی اور خونی موقع کے منتظر مکان کا چکر کاٹ رہے تھے اپنے محبو ب اور عزیز ترین بھائی علی مرتضیٰ کو اپنے بسترِخواب پر لٹا کر اور قرآن کی یہ آیت پڑھتے ہوئے کہ ’’ہم نے ان کافروں کے آگے اور پیچھے دیوار یں کھڑی کردی ہیں اور ہم نے ان کی آنکھوں پر پردے ڈال دیئے ہیں کہ وہ نہیں دیکھتے‘‘مکا ن سے باہر تشریف لے آئے اور خونیوں میں سے کوئی بھی نہ دیکھ سکا- یہ اللہ کا ارشاداور رسول کا عمل تھا اب اپنے دل سے دریافت ہو کہ آپ کا خیال اور آپ کا عقیدہ ، آپ کی عادت اور آ پ کا عمل اس باب میں کیاہے؟دیکھنے میں تو یہ آیاہے کہ آپ کو جب کبھی کسی معاملہ میں کامیابی حاصل ہوئی تو اسے ہمیشہ آپ نے اپنی ہی کوشش وپیروی اپنے اثر اورجوڑ توڑ اپنی تدبیر ودانائی کا نتیجہ قرار دیا مقدمہ میں جب آپ کو فتح ہوئی تو اس کا سہرا ہمیشہ آپ کی دوڑ دھوپ اور آپ کے وکیل صاحب کی ذہانت وقابلیت کے سر بندھا ۔ملازمت اگر آپ کو آپ کی مرضی کے موافق مل گئی تو اس پر آپ نے ہمیشہ اپنی ہی حکام رسی، اپنے ہی اعلیٰ اسناد اور اپنے ہی اثرورسوخ کو قابلِ مبارکباد سمجھا ۔ بیماری سے جب آپ کو شفا ہوئی تو ہمیشہ آپ نے اپنے معالج ہی کی صداقت کا کلمہ پڑھا۔غرض زندگی کے ہر ہر شعبے میں آپ نے جب جب توکل واعتماد کیا تو ہمیشہ داروغہ صاحب اور ڈپٹی صاحب کلکٹر صاحب اور جج صاحب ،ڈاکٹر صاحب اور حکیم صاحب ، وکیل صاحب اور بیرسٹر صاحب ،راجہ صاحب ،اور نواب صاحب، وزیر صاحب اور لاٹ صاحب ہی پر کیا اور ان سے بڑھ کر خود اپنے دل ودماغ ،اپنی عقل وتدبیر پر کیا،پر ان تمام صاحبوں کے صاحب کا جلوہ بھی کبھی آپ نے اپنے دل کی گہرائیوں میں دیکھا؟ان تمام جھوٹے خداؤں کے سچے خداکے فضل وکرم سے کبھی آپ نے اپنے دل کو اٹکایا ؟تماشہ گاہ شہود کی ان ساری کٹھ پتلیوں کے پیچھے جو پُر قوت غیبی ہاتھ ہے کبھی اسکے چومنے اور آنکھوں میں لگانے کی گُد گُدی بھی آپ کے دل میں پیدا ہوئی ؟