دینی،تعلیمی ،ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز بھٹکل۔۔ ۔از: سید سعادت اللہ حسینی(نائب امیر جماعت اسلامی)

Bhatkallys

Published in - Other

09:26AM Thu 29 Dec, 2016
گذشتہ دنوں بھٹکل کے مسلمانوں کی نمائندہ  تنظیم یعنی مجلس اصلاح و تنظیم کی دعوت پر جلسہ تحفظ شریعت میں شرکت کے لئے بھٹکل کے سفر کا موقع ملا۔ بھٹکل میں کئی دفعہ جاچکا ہوں لیکن اس دفعہ لمبے وقفہ کے بعد جانے کا اتفاق ہوا۔ بھٹکل کے سفر سے ہمیشہ بڑا حوصلہ ملتا ہے اور بڑی مسرت ہوتی ہے۔یہاں کی گوناگوں دینی، تعلیمی، اور ادبی و ثقافتی سرگرمیوں اور لوگوں کے خلوص اور جذبہ و مہمان نوازی  وغیرہ  کا اثر تو ہوتا ہے لیکن  جو چیز سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے وہ یہاں کے مسلمانوں کی منظم اجتماعی زندگی ہے۔ ملک کے مسلمانوں کی تمام جماعتیں اور فرقے یہاں موجود ہیں۔اکثریت شافعی مذہب کی پیرو ہے لیکن حنفی مسلک والے بھی ہیں۔ اکثریت نوائطی نسل کی ہے لیکن بیری، موپلہ ، کوکنی وغیرہ نسلوں کے علاوہ  شمالی اور جنوبی ہند کے مختلف علاقوں کے مسلمان بھی یہاں آباد ہیں۔ اکثریت نوائطی زبان بولتی ہے لیکن بڑی تعداد میں اردو، کوکنی، بیری اور ملیالم بولنے والے بھی موجود ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود یہ نہایت حیرت کی بات ہے کہ مسلمان ایک مضبوط اجتماعیت کا حصہ ہیں۔ سارے مسلمان اُن چند اجتماعی اداروں کا حصہ ہیں جنہیں وہ ’’قومی ادارے‘‘ کہتے ہیں اورہر مسلمان ان ’’قومی اداروں‘‘ کا خود کو حصہ سمجھتا ہے۔ بھٹکل کے مسلمانوں کی دو نمائندہ جماعتیں ہیں جماعت المسلمین بھٹکل اور مرکزی خلیفہ جماعت المسلمین،یہ دونوں جماعتیں مسلمانوں کے مشترک مذہبی معاملات دیکھتی ہیں ۔ عام دینی بیداری کے کاموں کے علاوہ اس کا سب سے اہم کام شرعی عدالت یا محکمہ شرعیہ عالیہ ہے۔ یہ ادارے آٹھویں صدی ہجری میں قائم ہوا تھا اور سات سو سالوں سے کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ بھٹکل کے مسلمان اپنے تنازعات کے حل کے لئے عدالتوں میں نہیں جاتے بلکہ اسی ادارہ سے رجوع کرتے ہیں۔ ادارہ میں قاضی، نائب قاضیوں اور ان کے اسٹاف پر مشتمل ایک پورا نظام موجود ہے جو شریعت کے مطابق فیصلے کرتا ہے اور سارے مسلمان اسے قبول کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے سپریم کورٹ میں شرعی عدالتوں کی افادیت پر بھٹکل کے اس سات سو سالہ پرانے ادارہ کو دلیل بنایا تھا۔ جب انجمن حامی مسلمین کا قیام 1919 میں ہوا تھا۔ یہ ادارہ مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے کام کرتا ہے۔ انجنیرنگ کالج، مینجمنٹ کالج  اور لڑکیوں کے ڈگری کالج سمیت تقریباً 16ادارے اس کے زیر انتظام ہیں۔ مجلس ا صلاح و تنظیم بھٹکل کے مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ہے جو جنگ بلقان کے بحرانی دور میں 1912میں قائم ہوئی تھی۔ یہ تنظیم مسلمانوں کی سیاسی ، سماجی و ثقافتی رہنمائی کرتی ہے۔اور اس کا رول صرف علامتی اتحاد تک یا مشترک مسائل پر موقف اختیار کرنے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک فعال عملی تنظیم ہے۔ اس کے کاموں کا اندازہ اس کی کمیٹیوں سے کیا جاسکتا ہے۔سیاسی پینل، مالی امداد کمیٹی، میڈیا واچ کمیٹی، قانونی اقدام کمیٹی، تعلیمی و ثقافتی کمیٹی، امور قبرستان کمیٹی وغیرہ کچھ مستقل کمیٹیاں ہیں اور وقتی مسائل کے لئے الگ سے وقتی کمیٹیاں بنتی ہیں۔ تنظیم گرام پنچایت سے لے کر پارلیمنٹ کے انتخاب تک ، مسلمانوں کے مشورہ سے متفقہ امیدوار کی تائید کرتی ہے اور سارے مسلمان اسے ہی ووٹ دیتے ہیں۔ بھٹکل کی میونسپلٹی میں مسلم اکثریتی وارڈوں میں بہت کم انتخابی مہم اور انتخابات کی نوبت آتی ہے اور ہمیشہ تنظیم کے تائید کردہ امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہوجاتے ہیں۔الیکشن کے بعد ان منتخب افراد سے تنظیم مستقل ربط رکھتی ہے۔ ان کی کارکردگی کی جائزہ نشستیں پابندی سے منعقد ہوتی ہیں۔ تنظیم کی طرف سےغریب لوگوں کو روزگار فراہم کرنے اور ناداروں کی کفالت اور ان کے وظیفوں کا نظام ہے۔ مظلوم مسلمانوں کی قانونی مدد کا نظام ہے۔حکومت کے عہدیداروں اور میڈیا وغیرہ سے تال میل اور مسلمانوں کی موثر نمائندگی کا نظام ہے۔ دنیا کے مختلف علاقوں اور ملک کے مختلف شہروں میں پھیلے ہوئے بھٹکلی مسلمان بھی اس نظام سے مضبوطی سے وابستہ ہیں۔ خلیجی ممالک اور دیگر ملکوں میں ہر جگہ بھٹکل مسلم جماعتیں قائم ہیں جن کے نمائندے تنظیم کی انتظامیہ کے ارکان ہوتے ہیں ۔ شہر کی تمام مسجدوں کے کلیدی عہدہ دار بھی تنظیم کی انتظامیہ کا حصہ ہوتے ہیں اور تنظیم کے اجتماعی فیصلے مسجدوں کے ممبروں سے ایک ہی آواز میں مسلمانوں تک پہنچتے ہیں۔ تنظیم کی ایک بڑی قوت، تمام محلوں میں پھیلے ہوئے اس کے اسپورٹس کلب ہیں۔ محلہ کے نوجوان ان کلبوں سے وابستہ ہوتے ہیں۔ کرکٹ، کبڈی وغیرہ کھیلتے بھی ہیں اور اکثر کلب ان کی دینی و اخلاقی تربیت کا بھی انتظام کرتے ہیں۔ جلسہ تحفظ شریعت کا پوار انتظام ان کلبوں نے حیرت انگیز نظم و ڈسپلن کے ساتھ ،سنبھال رکھا تھا۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ہزاروں شرکاء کی ماکولات و مشروبات سے ضیافت ہورہی تھی۔ معلوم ہوا کہ الگ الگ اسپورٹس کلب یہ کام اپنی طرف سے اور اپنے خرچ پر کررہے ہیں۔الگ الگ کلبوں کو جلسہ کے انتظام کے الگ الگ  کام دیئے گئے ہیں۔اور جو کام جس کلب کے ذمہ ہے اس کا خرچ بھی وہی کلب برداشت کرتا ہے۔ محلہ کو ہمیشہ صاف رکھنا، اخلاقی بگاڑ پر نطر رکھنا وغرہ جیسے مستقل  کام بھی ان کلبوں کے ذمہ ہے۔ تنظیم وقتاً فوقتا تمام مسالک و مکاتب فکر کی سرکردہ شخصیات کو مدعو کرتی ہے۔ مجھے چند سال قبل تنظیم کی جانب سے سیرت کے خصوصی خطاب کے لئے بھی مدعوکیا گیا تھا۔ بھٹکل کے مسلمانوں کی بعض انفرادی کوششیں بھی اسی اتحاد و اتفاق کی مظہر ہیں۔ کئی نیوز پورٹلز ہیں جن میں سب کی خبریں آتی ہیں۔ بھٹکلیس ڈاٹ کام پر غالباً ہندوستا نی مسلمانوں کے اکابر کی آڈیو ویڈیو تقاریر کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ جس میں تمام مکاتب فکر کے سرکردہ اکابر کی آوازیں محفوظ ہیں۔ میں نے بھی سب سے پہلے عبد الرزاق لطیفی مرحوم، حامد حسین صاحب مرحوام، محمد یوسف صاحب مرحوم،  حامد علی صاحب مرحوم  اور ان کے علاوہ قاری محمد طیب صاحب مرحوم، مولانا آزاد،  وغیرہم کی تقریریں اور عامر عثمانی وغیرہ کی تخلیقات ان کی آواز میں ،اسی پورٹل پر سنیں۔ ان اداروں کی مالی ضروریات کی تکمیل کے لئے بھٹکل کے مسلمان اعانت کرتے ہیں۔ بعض دلچسپ روایتیں بھی قائم ہیں۔ مثلاٍ شادی کے موقع پر تنظیم کا نمائندہ وفد  جاکر نوشہ کو مبارکباد دیتا ہے اور نوشہ اپنی حیثیت کے مطابق ایک اچھی رقم ان اداروں کی اعانت کے لئے پیش کرتا ہے۔ اس کےعلاوہ بھٹکل کے مسلمانوں نے ان اداروں کے لئے بڑی بڑی جائدادیں، شاپنک کامپلکس وغیرہ بھی بنا رکھے ہیں جو ان اداروں کی مستقل آمدنی کا ذریعہ ہیں۔ بھٹکل کے مسلمانوں کے یہ تمام ادارے، باقاعدہ دستور کے تحت کام کرتے ہیں۔ پابندی سے ان کے انتخابات ہوتے ہیں۔ سالانہ اجلاس ، رپورٹ ، جائزہ وغیرہ کا پورا نظام موجود ہے اور خاندانوں اور خانوادوں کے تسلط کی اس بیماری سے پاک ہیں جس کے در آنے کے بعد ادارہ جاتی نظام ملیامٹ ہوجاتا ہے۔ان اداروں کی طویل تاریخ میں آزامئشی دور بھی آئے۔ اختلافات اور تنازعات بھی ابھرے لیکن یہاں کے بیدار مغز مسلمانوںنے سوجھ بوجھ کے ساتھ انہیں حل کیا اور ان پر قابو پالیا۔ بھٹکل کے مسلمانوں کی جماعتوں وغیرہ کے اپنے ادارے بھی ہیں۔ ان سے بھی بھٹکل کے مسلمان کود کو وابستہ رکھتے ہیں۔ جماعت اسلامی ہند کے زیر انتظام بلاسودی بنک ، ہاسپٹل، شمس اسکول اور الکوثر کالج ہے۔ ان اداروں سے بھی سارے مسلمان وابستہ رہتے ہیں اور ان سے مستفید ہوتے ہیں۔جماعت اسلامی ہند ، ایس آئی او، اے پی سی آر، ویلفیر پارٹی وغیرہ بھی اس اجتماعی نظام کا اہم اور سرگرم حصہ ہیں۔ جماعت کے کئی ذمہ داران تنظیم کی شوری اور انتظامیہ میں منتخب ہوتے ہیں۔ مختلف مکاتب فکر کے نظریات ، مذہبی خیالات  اور رجحانات کا احترام کرتے ہوئے مشترک معاملات میں اتحاد و اتفاق کا جو ماڈل بھٹکل کے مسلمانوں نے قائم کیا ہے اور سو سال سے  زیادہ عرصہ تک اسے کامیابی کے ساتھ چلایا ہے، وہ پورے ہندوستان کے مسلمان کے لئے نمونہ ہے۔ کاش کہ ہماری دیگر بڑی بڑی اسلامی آبادیوں میں اس ماڈل کو دہرایا جاسکے۔ سید سعادت اللہ حسینی(نائب امیر جماعت اسلامی)