حج کا سفر ۔ شرط اول قدم۔۔۔ ( ۲)  ۔۔۔۔ تحریر: مفتی محمد رضاانصاری فرنگی محلی

Bhatkallys

Published in - Other

07:35AM Tue 28 Jun, 2022
یہ نکتہ صوفیائے کرام اور بزرگان دین کے سوانح کے مطالعہ کرنے والوں کے اگر پیش نظر رہے تو "طریقت" اور "شریعیت" کے تصادم کی فرضی داستانیں خود بخود معدوم ومنتفی ہوجائیں۔
 تو جس راہ کے رو کے لئے قدم اٹھانے کی پہلی شرط یہ ہو کہ وہ تمام احتیاطوں اور انجام بینیوں سے فارغ ہو جائے، اس راہ پر چلنے کا ارادہ اگر وہ کرے جو قدم قدم پر سہارے ڈھونڈھنے کا عادی، لمحے لمحے کی ضرورتوں کے لئے گھنٹوں اور دنوں فکرمند اور منزل منزل کی آسائشوں کے لئے سارے وسائل صرف کردینے پر تیار رہتا ہو تو سوائے اس کے اور کیا کہا جائے گا؂
ہر بُوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوۂ اہل نظر گئی
مانے بغیر چارہ نہیں کہ یہ دور "شیوهٔ اہل نظر" کی بے آبروئی کا دور ہے اور اس اعتراف و اقرار کے بغیر مفر نہیں کہ سفر حج کا قصد کرنے سے بہت پہلے "بوالہوسی" کی کیفیات سے مجبور ہوکر بار بار اور لگاتار سوچنا پڑا کہ یہ دور دراز کا سفر کن کن سہاروں کے ذریعہ آرام و اطمینان سے طے ہوسکتا ہے، جو ہو آئے ہیں ان سے گھنٹوں تبادلہ خیال اور جو اثر و رسوخ رکھتے ہیں ان کے سامنے بار بار اپنی پریشانیوں کا اظہار، یہی وہ مشاغل تھے جو دوسرے تمام نجی او منصبی فرائض پر غالب ہو گئے تھے ۔۔۔ جو پہلا قدم اٹھانے کی پہلی ہی شرط کے سراسر منافی تھے۔
سفرحج کے لئے شرع نے استطاعت کی شرط رکھی ہے، استطاعت میں مالی استطاعت، جسمانی، ذہنی استطاعت سب ہی کچھ شامل کیا جاتا ہے، اپنے خیال میں یہاں کسی قسم کی بھی استطاعت کماحقہ نہ پائی جاتی تھی؛ لیکن جب کسی "ہم سایہ" کی "پائے مردمی" سے مالی استطاعت نصیب ہو جائے تو بلاشبہ کفران نعمت ہو گا کہ دوسری ان بے استطاعیوں کو جو موہوم ہونے کا پہلو بھی رکھتی ہیں قابل اعتنا سمجھا جائے۔
بالواسطہ مالی استطاعت نصیب ہوتے ہی ۱۹۶۲ء میں پہلی بار اپنی، اپنی والدہ اور اپنی پھوپھو کی طرف سے جہاز راں کمپنی مغل لائنز بمبئی کو درخواستیں بھیجدی تھیں، اس وقت درخواستوں کی وصولی کی ترتیب کے حساب سے جہازوں پر جگہیں دی جاتی تھیں، ترتیب کا مطلب یہ کہ ایک ہی دن اگر دس ہزار درخواستیں پہنچیں تو کمپنی کا عملہ جس ترتیب سے رجسٹریاں وصول کرے گا، اسی ترتیب سے رجسٹر میں اندراج ہو گا، ہماری درخواستیں اس نمبر پر درج رجسٹر ہوئیں جو مقرر نشستوں کے بعد پڑتا تھا، اس طرح اس سال پھر ۶۳ء میں ہماری درخواستوں کا جواب انکار میں ملا،۱۹۶۴ء میں تیسری بار درخواستیں دیں ان کا بھی وہی حشر ہوا اگرچہ اس دفعہ ترتیب کے بجائے "قسمت" کی کار فرمائی رائج ہو چکی تھی یعنی سب درخواستیں جو مقررہ تاریخ تک کمپنی کو پہونچ گئیں یکجا کر کے مقررہ نشستوں کی تعداد کے مطابق قرعے کے ذریعہ نکال لی گئیں، ہماری درخواستیں قرعے میں نہیں نکلیں اور محرومی اور ناکامی پھر ہاتھ آئی۔
اس دفعہ حج کمیٹی نے ایک گنجائش پیدا کر دی تھی وہ یہ کہ کچھ نشستیں محفوظ کرلی تھیں (جن کی تعداد کے بارے میں افواہیں بہت سی سننے میں آئیں تحقیق سے معلوم ہوا کہ صرف دوسو تھیں) یہ ایسے درخواست دہندگان کے لئے محفوظ کی گئی تھیں جو سن رسیدہ ہیں اور پہلی بار عازم حج ہیں، ان نشستوں کو الاٹ کرنے کا اختیار مرکزی حج کمیٹی کے صدر مفتی محمد عتیق الرحمن عثمانی (ورکنگ صدر مرکزی جمعیۃ العلماء) اور ممبران کمیٹی کو دیا گیا تھا۔
مفتی صاحب سے ذاتی نیاز مندی نے آمادہ کیا کہ والدہ اور پھوپھی کی سن رسیدگی کی طرف ان کو توجہ دلائی جائے اور انہوں نے توجہ کرکے تین نشستیں ہم تینوں کے لئے الاٹ کر دیں، آخری جہاز ۲۸/مارچ کو جانے والا تھا اور جگہیں ملنے کی خوشخبری شروع مارچ میں گویا تقریباً عالم یاس میں ملی۔
چھوٹا سا سفر بھی جس کے لئے باعث وحشت ہوتا ہو اس کو اتنے بڑے سفر کے لئے اتنے مختصر وقت میں اور اتنی ذمہ داریوں کے پیش نظر تیاریاں کرنا کیسی کچھ پریشانی اور سراسیمگی کا باعث بنا ہو گا اب اسے سوچنے کا بھی حوصلہ نہیں ہے، خیر تیاریاں ہوئیں اور زور وشور کے ساتھ ہوئیں، کپڑے لتے، اوڑھنا بچھونا تو ہوتا ہی ہے جتنے منھ اتنے مشورے ۔۔۔ اور ظاہر ہے کہ سب مخلصانہ مشورے ۔۔۔ یہ بھی ساتھ ہونا چاہیئے وہ بھی ۔۔۔ پھر بڑی بوڑھیوں کی نصیحت نے دادا، پردادا کے وقت سے چلی آنے والی "ضروریات سفر" کی فراہمی بھی لازم کردی، انکار کی گنجائش کہاں؟ لاکھ الجھیے مگر بزرگ کا کہنا نہ ماننے کا گناہ وہ بھی اس مبارک سفر کے موقعہ پر اپنے سر کیسے لے لیجئے گا؟
عزیزوں اور دوستوں نے بہت سا زادِ راہ بھیجا، سب کا لاد کرلے جانا بس سے باہر نظر آیا؛ لیکن والدہ کے سامنے مصلحت یہ تھی کہ کھانے کا ایسا سامان جو بہت دنوں چل سکے اتنا جائے کہ اگر خدانخواستہ دو تین مہینے کے سفر میں کہیں ضرورت پڑ جائے تو زحمت نہ ہو اوران کی مصلحت تسلیم ہی کرنا پڑی۔
مگر تجربے نے یہ ثابت کر دیا کہ سوائے روزمرہ کی بہت ہی ضروری چیزوں کے اور سامان کا لاد کرلے جانا محض درد سر ہے، وہ زمانہ اور تھا جب حجاز میں کچھ نہیں ملتا تھا، اب کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو وہاں نہ ملتی ہو۔
عازم حج کو جس قدر روپیہ لے جانے کی اجازت ہے اس کی محدودیت کے دیکھتے بعضوں کو یہ خیال بجاطور پر آتا ہے کہ اگر محدود درقم حجاز میں ضروریات کی فراہمی میں خرچ کی گئی تو حج کے ضروری اخراجات میں تنگی ہوجائے گی؛ اسی لیئے وہ ہر چیز جو یہاں سے لے جا سکتے ہیں لے جاناضروری سمجھتے ہیں۔
ذاتی تجربہ اس کے برعکس ہوا، ریل اور جہاز پر اس کے بعد ہر منزل پر زیادہ سامان کی بار بر داری میں جتنا خرچ کر نا پڑا اس سے کم ہی میں وہ چیزیں وہاں خریدی جاسکتی تھیں جو یہاں سے لاد کے لے جائی گئی تھیں، مزید برآں لدے پھندے حاجی کو ہر مرحلے میں پچھڑا رہنا پڑتا ہے اور سامان کی حفاظت کا تردد کسی وقت اسکا ساتھ نہیں چھوڑتا۔
جتنی رقم بحری جہاز سے جانے والے حاجی کو ملتی ہے اتنی ہی ہوائی جہاز سے جانے والے حاجی کو، ہوائی جہاز کا مسافر بہت محدود سامان لے جا سکتا ہے؛ ایک بچھونا، ایک بکس اور ایک آدھ ٹوکری اس میں اس کا وزن پورا ہو جا تا ہے، اتنے مختصر سامان کے ساتھ اور اسی محدود رقم میں وہ حج کر لیتا ہے تو بحری جہاز کے مسافر بھی سامان میں بڑی حدتک اختصار سے کام لے سکتے ہیں؛ مگر چوں کہ بحری جہاز پرفی کس سامان کے وزن کی کوئی قید نہیں ہے؛ اس لئے جی بھر کے سامان لے جانے والے لے جاتے اور بے سبب پریشانی میں پڑجاتے ہیں۔(جاری)