بدعنوانی اور تذلیل کی حمایت میں بھی جلوس(از:حفیظ نعمانی)

Bhatkallys

Published in - Other

01:45PM Fri 8 Jan, 2016
hafeez-noumani-394x600 از حفیظ نعمانی دسمبر کی 19 تاریخ ہر سال کی طرح ایک عام سی تاریخ تھی لیکن گذشتہ سال اسے کانگریس کی صدر اور مسز اندرا گاندھی کی بہو مسز سونیا گاندھی نے یہ کہہ کر اہم بنا دیا کہ میں کسی سے نہیں ڈرتی۔ میں اندرا گاندھی کی بہو ہوں اور وہ سبرامنیم سوامی کی طرف سے اٹھائے گئے نیشنل ہیرالڈ کی باقیات میں ہونے والی بدعنوانیوں کے الزام اور عدالت کے سمن کی تعمیل میں عدالت جارہی تھیں۔ دو دن پہلے تو شور تھا کہ انہوں نے ملک بھر سے تمام ممبران اسمبلی اور تمام سرگرم کانگریسیوں کو دہلی آنے کا حکم دے دیا ہے۔ اور شاید وہ ضمانت لینے کے بجائے جیل جائیں گی اور اسے ایک سیاسی مسئلہ بنائیں گی لیکن نہ جانے کس نے انہیں سمجھایا کہ اسے سیاسی جنگ بنانے سے پہلے یہ بھی سوچ لیا جائے کہ الزام بھرشٹاچار کا ہے۔ بہرحال سونیا گاندھی نے فیصلہ کیا کہ وہ ضمانت دے کر باہر ہی رہیں گی۔ اس کے باوجود جو کچھ ہوا وہ کچھ کم مضحکہ خیز نہیں تھا کہ تمام پارلیمنٹ کے ممبر، تمام بڑے لیڈر اور سیکڑوں ورکر جلوس کی شکل میں عدالت آئے اور محترمہ نیز ان کے لخت جگر راہل صاحب کے تمام کاغذات تیار تھے۔ بس وہ عدالت کے سامنے گئے اور ذاتی مچلکہ پر دستخط کئے اور چلے آئے۔ سونیا گاندھی سے پہلے فلم نگری کے بے تاج بادشاہ سلمان خان بھی ہزار ہزار کے نوٹوں کی سڑک پر چل کر قتل کے مقدمہ میں اس طرح ضمانت حاصل کرچکے تھے اور اب جو ملک کے نامور ماں بیٹے کا مسئلہ سامنے آیا تو انہیں بھی صرف دس منٹ لگے۔ اس لئے کہ ہر عدالت میں آج بھی بڑے آدمیوں کے لئے قانون دوسرے ہیں اور عام آدمیوں کے لئے دوسرے۔ یہاں تک کہ اگر غیرمنقولہ جائیداد ضمانت کے طور پر دی جاتی ہے تو ملزم کو اس لئے جیل بھیج دیا جاتا ہے کہ اس جائیداد کے بارے میں تحقیق کرلی جائے کہ اس پر کوئی قرض تو نہیں ہے؟ اور جس نے ضمانت کے طور پر اسے عدالت کو دیا ہے وہی اس کا مالک ہے؟ مسز سونیا اور راہل پر الزام ہے کہ نیشنل ہیرالڈ کے بند ہوجانے کے بعد اس کی باقیات سے کروڑوں روپئے ماں بیٹے وصول کررہے ہیں۔ یہ الزام بی جے پی کے ایک لیڈر سبرامنیم سوامی نے لگایا تھا۔ لیکن اس کی اہمیت اس وجہ سے بڑھ گئی کہ عدالت نے اسے قابل سماعت سمجھا اور سبرامنیم کی دلیلوں میں وزن محسوس کیا۔ یہ اتنی شرمناک بات تھی کہ بغیر کسی سے کہے ہوئے دونوں ماں بیٹے اپنی سیکوریٹی کے ساتھ خاموشی سے جاتے اور ضمانت دے کر آجاتے۔ زیادہ سے زیادہ ان کے وکیل وہاں ہوتے اور عام دستور کے مطابق دونوں کے دو دو منقولہ جائیداد کے کاغذات کے ساتھ ضامن وہاں ہوتے۔ لیکن سیکڑوں کانگریسیوں کا جلوس انہیں لے کر آیا اور اسے سیدھا حملہ نریندر مودی کا بتاکر وہ سب گھٹیا قسم کے نعرے لگتے رہے جو دشمن حکومت کے حاکم کے خلاف ہوتے ہیں۔ اور اسی موقع پر سونیا صاحبہ نے کہا کہ میں اندرا گاندھی کی بہو ہوں۔ میں کسی سے نہیں ڈرتی۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ بات انہوں نے کس سے کہی؟ وزیر اعظم سے یا عدالت سے؟ اس واقعہ کے چند دن کے بعد وزیر مالیات ارون جیٹلی کو غصہ آیا اور وہ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال کے لگائے گئے الزامات سے اتنے ناراض ہوئے کہ وہ اپنی بے عزتی کا ہرجانہ دس کروڑ لینے کے لئے اس عدالت جاپہونچے اور انہوں نے بھی کوشش کی ان کا جلوس سونیا گاندھی اور راہل سے کسی طرح بھی کم نہ ہو۔ یہ بھی کوئی دہلی حکومت کو برخاست کرنے کا جلوس نہیں تھا بلکہ اس بات کا تھا کہ ان کی سرپرستی میں جو دہلی میں فیروز شاہ کوٹلہ اسٹیڈیم 114 کروڑ روپئے میں بنا ہے اس میں بدعنوانیاں ہوئی ہیں جو جیٹلی جی نے نہیں کہیں بلکہ دوسروں نے کیں اور جیٹلی صاحب نے انہیں روکنے کے بجائے ان کی طرف سے چشم پوشی کی۔ یہ بات تو کجریوال بھی جانتے ہیں اور جیٹلی صاحب بھی کہ اگر کسی کی بے عزتی کردی جائے یا کسی کی پٹائی کردی جائے تو اس پر شور مچانے سے اور زیادہ بے عزتی ہوتی ہے۔ اور جب اتنا اہم وزیر اور سپریم کورٹ کا نامور وکیل عدالت سے فریاد کرے کہ اس کی دس کروڑ روپئے کے برابر بے عزتی ہوئی ہے تو اور زیادہ شرم کی بات ہے۔ اس کے لئے جیٹلی صاحب خاموشی سے آتے اور اپنی شکایت درج کراکے چلے آتے۔ لیکن انہیں خیال آیا کہ اگر سونیا گاندھی کے جلوس سے بڑا جلوس نہیں ہوا تو پھر ان کی ناک کٹ جائے گی۔ اس لئے انہوں نے ہزاروں کا جلوس لاکر عدالت پر زور ڈالا کہ وہ کجریوال سے انہیں دس کروڑ کا تاوان دلائیں۔ بدعنوانی اور بے عزتی یہ دونوں ایسے عیب ہیں کہ جس پر بھی لگیں شرم سے اس کی گردن جھک جاتی ہے لیکن یہ جب بہت بڑے آدمیوں پر لگیں تو ان کی حیثیت کیوں ایسی ہوجاتی ہے جیسے یہ مجاہد یا غازی ہیں معلوم نہیں اور حیرت ان سیکڑوں فدائیوں پر ہے جو اُن سے کنارہ کشی کرنے کے بجائے ان کے جلوس میں زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں اور مودی سرکار ہو یا کجریوال کی کٹی پھٹی حکومت انہیں کٹہرے میں کھڑا کرتے ہیں اور مردہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔ ہمیں وہ دن یاد ہیں جب 1977 ء میں جنتا پارٹی حکومت کے خلاف سنجے گاندھی میدان میں آئے تھے اور ان کی محبت میں پورے ملک کے کانگریسی جیل بھرو تحریک چلا رہے تھے بات صرف اتنی تھی کہ چودھری چرن سنگھ نے کہہ دیا تھا کہ قومی پرچم سے ملتا جلتا اور اس کے ہی رنگوں والا پرچم بنانے کی کسی پارٹی کو اجازت نہیں ہونا چاہئے۔ ظاہر ہے کہ ان کا اشارہ کانگریس کے ترنگے کی طرف تھا اور یہ بات چودھری صاحب ان دنوں میں بھی کہتے رہتے تھے جب وہ جنتا پارٹی میں نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کانگریس کو قومی پرچم بناتے وقت اس کی مخالفت کرنا چاہئے تھی اس لئے کہ دستورساز کونسل میں اکثریت اسی کی تھی۔ ترنگے جھنڈے کے درمیان میں چھوٹا سا چکر یا چرخہ رکھنے کا فیصلہ کرتے وقت شاید یہ سوچا ہوگا کہ ملک میں اب تاحیات کانگریس کی ہی حکومت رہے گی۔ سنجے گاندھی نے صرف اس مسئلہ پر نہیں بلکہ جنتا پارٹی کے ہر فیصلہ کے خلاف تحریک چھیڑ دی اور ہر کانگریسی نے یہ ضروری سمجھا کہ وہ ان کی آواز پر جیل جائے۔ اس لئے کہ جنتا پارٹی کی حکومت میں ایک سال کے بعد ہی نظر آنے لگا تھا کہ یہ دیر سویر اپنے ہی بوجھ سے دب کر گرجائے گی۔ اس وقت پورے شمالی ہند میں جہاں کانگریس کا بالکل صفایا ہوگیا تھا وہاں ایسے ہی جلوس نکل رہے تھے جیسے 19 دسمبر کو سونیا اور راہل نے نکالا اور اس کے بعد دو بار جیٹلی صاحب نے اس لئے نکالا کہ کوئی انہیں سونیا گاندھی اور راہل سے کم نہ سمجھے۔ حالانکہ یہ جلوس ہر اعتبار سے باعثِ فخر نہیں باعثِ ننگ تھے۔ اس موضوع پر لکھنے کا خیال اس لئے آیا کہ بے ایمانی، غبن، بدعنوانی اور گناہوں سے چشم پوشی کرنے والا اگر اپنی پارٹی کا ہے تو پارٹی کے لوگوں کو اس کا ساتھ دینا ہے اور یہی نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ فکر کی بات یہ ہے کہ پارٹی کے ہر بڑے کو بھی اس کا ساتھ دینا ہے۔ جیسے سبرامنیم سوامی کانگریس کے نہیں ہیں لیکن وہ فدائی فوجدار ہیں اگر انہوں نے جھوٹا الزام لگایا ہے تو ان کا منھ کالا ہوجائے گا۔ لیکن پوری کانگریس کو اس ذاتی مسئلہ میں سونیا اور راہل کے پیچھے کیوں کھڑا ہونا چاہئے؟ اور ارون جیٹلی کے پیچھے پوری پارٹی کو کیوں کھڑا ہونا چاہئے؟ اور اگر اسی پارٹی کے ایک ایم پی کیرتی آزاد اس کی تفصیلات بیان کرنے کے لئے پریس کانفرنس کرنا چاہیں تو پارٹی کے صدر کو کیوں روکنا چاہئے؟ اور وہ نہ مانیں تو انہیں کیوں پارٹی سے باہر کا راستہ دکھا دینا چاہئے؟؟؟ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ملک کو چاہے جیسے برباد کرو اس پر صرف مخالف شور مچائیں گے اگر اپنوں نے اعتراض کیا تو انہیں پارٹی سے نکال دیا جائے گا۔ ہمارا بچپن ایسے ماحول میں گذرا کہ اگر ہمیں کسی نے مار دیا تو گھر میں پھر ہماری پٹائی ہوتی تھی کہ تم وہاں گئے کیوں؟ اور تم نے ضرور ایسی حرکت کی ہوگی جو کسی نے تمہیں مارا۔ لیکن آج جو ہو رہا ہے وہ تو یہ ہے کہ اپنا بچہ کچھ بھی کرے سب اس کے ساتھ ہیں۔ اور دوسرے کا بچہ چاہے کتنا ہی شریف ہو سب اس کے مخالف ہیں۔ اگر یہی حال رہا تو ہمارے ملک کا شمار بدترین ملکوں میں ہوگا۔ ہر غلطی پر وہ چھوٹی ہو یا بڑی اپنوں کو ٹوکنا چاہئے اور وہ نہ مانے تو اس کی مخالفت کرنا اس کا فریضہ ہے۔ ملک کو بچانا ہے تو پوری طرح اس روش کو بدلنا ہوگا۔