وَالَّذِیْنَ یَرْمُونَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَأْ تُوْابِاَرْبَعَۃِشُھَدَائِ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً وَلَا تَقْبَلُوْا لَھُمْ شَھَادَۃً اَبَدًا وَاُولٰئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُوْنَ
جو لوگ پاک دامن عورتوں پر عیب لگاتے ہیں اور پھر چار گواہ نہ لا سکے تو مارو ان کے اسی کوڑے اور کبھی ان کی کوئی گواہی قبول نہ کرو اور وہی لوگ نا فر مان ہیں۔
اِذْتَلَقَّوْنَہُ بِأَلْسِنَتِکُمْ وَتَقُوْلُوْنَ بِأَفْوَاہِکُمْ مَالَیْسَ لَکُمْ بِہِ عِلْمٌ وَتَحْسَبُوْنَہُ ہَیِّنًا وَھُوَعِنْدَاللّٰہِ عَظِیْمٌ ہ وَلَوْلَآاِذْسَمِعْتُمُوْہٗ قُلْتُمْ مَا یَکُوْنُ اَنْ نَتَکَلَّمَ بِھٰذَاسُبْحٰنَکَ ھٰذَا بُھْتَانٌ عَظِیْم یَعِظُکُمْ اللّٰہُ اَنْ تَعُوْدُوْا لِمِثْلِہِ اَبَدًااِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْن
جب تم اس بہتان کو زبانوں پر لانے لگے اور اپنے منہ سے وہ باتیں کہنے جن کا تمھیں کوئی علم نہ تھا اور تم انھیں ہلکی بات سمجھتے تھے حالانکہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات تھی اور جب تم نے سنا تھا اسی وقت کیوں نہ کہ دیا کہ ہمارے لیے یہ زیبا نہیںکہ ہم ایسی بات زبان سے نکالیں، تو پاک ہے، یہ بہتان عظیم ہے اللہ تمھیں نصیحت کرتا ہے کہ اگر تم مومن ہو تو اس جیسی بات پھر کبھی نہ کرنا۔
- اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیعَ الْفَاحِشِۃَ فِیْ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْالَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِیْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃ
جو لوگ چاہتے ہیں کہ بے حیائی کی باتوں کا چرچا مسلمانوں میں پھیلتا رہے ان کے لیے دنیا وآخرت میں دردناک عذاب ہے۔
یہ کلام مجید کی تین آیتیں ہیں اور آپ جس فرقہ سے بھی تعلق رکھتے ہوں اگر مسلمان ہیں تو کلامِ مجید کی ہر آیت پر یقین رکھتے ہوں گے پہلی آیت میں یہ ہے کہ بغیر چار چشم دید گواہوں کے کسی پاک دامن مسلمان خاتون کی عصمت پر عیب لگانے والوں کی سزا یہ ہے کہ ان کے اسی کوٹے مارے جائیں اور آیندہ عمر بھر کے لیے ان کی گواہی غیر معتبر اور مرد ود ٹہرجائے ،اور اللہ کی طرف سے اس کا اعلان ہوتاہے کہ ایسے تہمت لگانے والے فاسق ہیں۔دوسری آیت میں ا م المؤمنین بی بی عائشہ صدیقہ ؓکی بابت ایک بیہودہ روایت پھیلانے والوں سے خطاب ہے کہ جس اتہام کا تمھارے پاس قطعاًکوئی ثبوت نہ تھا تم نے اپنی زبان سے اس کا چرچاکیوں کیا اور اس روایت کے گڑھنے والوں سے فوراً کہہ کیو ں نہ دیا کہ ہم ایسی بے ہودہ بات زبان سے نہیں نکال سکتے اور آیندہ کے لیے کسی پاک دامن مسلمان بیوی کی عزت وناموس کی بابت ایسی بے احتیا طی اور بے پروائی نہ برتنا ۔تیسری آیت کا مفہوم ی ہے کہ جو لوگ قوم میں بدکاری اوربے حیائی کے تذکرے پھیلاتے رہتے ہیں ان کے لیے دنیا اور آخرت دونوں میں سزا اور بہت سخت سزا ہے ا ن آیاتِ قرآنی ہی کی طرح صحیح بخاری کی ایک حدیث میں شرک ،قتل ،سود خواری وغیرہ سات سب سے بڑے گناہوں میں ایک گناہ تہمت بدکاری کا بھی ارشاد فرمایا گیاہے۔
اللہ اور اس کے رسول کے یہ احکام اگر محض سن لینے او ر پڑھ لینے کے نہیں بلکہ عمل کے لیے بھی ہیں تو ارشاد ہوکہ خود آپ کا آپ کے دوستوں کا ، آپ کے عزیزوں کا ،آپ کے کنبہ اور برادری والوں کا کہاں تک ان پر عمل ہے؟ مانا کہ آپ اس قسم کی روایا ت از خود نہیں گڑھتے لیکن جب کبھی سن پاتے ہیں تو ان کے قبول کرلینے میں اور پھر اس کا چرچا کرنے میں آپ کے کان اور آپ کی زبان نے کبھی احتیاط بر تی؟ آپ کے جاننے والوں میں خدا معلوم کتنی عورتیں ایسی ہیں جن کی بابت آپ نے بد چلتی آوارگی و بے عصمتی کی روایات شوق کے کانوں نہیں سنیں اور بے پروائی کی زبان سے نہیں دوہرائیں ؟ حالانکہ شریعت میں اسی کوڑوں اور گواہی کبھی آیندہ نہ قبول ہونے اور فاسق قرار پاجانے کی جو سزائیں مقررہیں وہ صرف گڑھنے والو ں ہی کے لیے نہیں بلکہ ان تہمتوں کی تشہیر کرنے والوں ان کا چرچاپھیلانے والوں کے لیے بھی ہیں آپ کی شریعت نے تو اس باب میں اتنی سختی برتی ہے کہ اگر اس دعوے پر بجائے چار گواہوں کے تین گواہ مل سکے تو ان تینوں پر بھی حد شرعی جاری ہو گی اور آپ ہیں کہ تین گواہ کے کیا معنی ایک گواہ کی بھی ضرورت نہیں سمجھتے اور محض اپنی زبان کی بے احتیاطی کے باعث خدا نخواستہ اپنے کو دنیا وآخرت دونوں میں عذاب الیم کا مستحق بنا رہے ہیں !آج ہمارے گھرانوں میں ،ہمارے کنبوں میں ، ہماری برادری میں کتنی رنجشیں ، کتنی کدورتیں ،کتنی عداوتیں ،محض اسی بے احتیاطی نے پھیلارکھی ہیں! آج اگر شریعت کی صرف اسی ایک سیدھی اور سہل ہدایت پر عمل ہوتا تو ہماری خانگی زندگی پاک محبتوں اور اخلاص مندیوں کی کیسی جیتی جاگتی تصویر بنی ہوتی!