بات سے بات: ایک نہتی لڑکی ، اور اس کے بعد کیا؟۔۔۔ عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

03:30PM Fri 11 Feb, 2022

 کرناٹک کے قصبہ منڈیا میں جنگلی مزاج ہجوم  کےغول کے درمیان اٹھارہ انیس سالہ ایک نہتی لڑکی مسکان نے اللہ تعالی کی ذات پرایمانی ہمت، اعتماد اور بھروسہ کا جومظاہرہ کیا ہے، اس نے اچانک دنیا کے نظر ہندوستانی مسلمانوں کی حالت زار پر موڑ دی ہے، اور چند منٹ کی ایک ویڈیو نے وہ معجزاتی کرشمہ کردکھایا ہے، جو ہزاروں جلسے جلوسوں اور احتجاجات کے بعد بھی شاید رونما نہیں ہوسکتا تھا۔ اللہ تعالی اس بچی کو نظر بد سے بچائے، اور قیامت تک کے لئے یہ مسلمانان ہند وعالم  کے لئے ہمت اور حوصلہ کا ایک روشن مینار بن جائے، جہاں سے امتحان وابتلاء کی گھڑیوں میں امید کی کرن پھوٹے، اور مایوسی کے بادلوں میں ہمت وحوصلہ پانے کا سرچشمہ بن جائے۔ ہر مسلمان کو اپنی دعاؤں میں ملت کی اس نیک بخت بچی کو نہیں بھولنا چاہئے۔

اس واقعہ کے بعد مسلسل مشوروں، تبصروں کا ایک بازار گرم ہوگیا ہے،اور اس میں ہر کوئی اپنا ہاتھ سینک رہا ہے۔ اس ضمن میں کچھ باتیں ہمارے ذہن میں بھی آرہی ہیں۔

۔ برصغیر کی تاریخ میں مسلمانوں کا ایک مزاج رہا ہے، اس میں اجتماعی اور قومی مقاصد کے لئے قربانیوں کا بڑا ذکر ہوتا ہے، ایسا ہونا بھی چاہئے، ایمانی حرارت تو ان قربانیوں ہی سے ملتی ہے، لیکن اس کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ قربانیوں کے بعد اس کا جو ثمر ملنا چاہئے، اس سے غفلت اورپہلو تہی برتی جاتی ہے،اور یہ قربانیاں، صرف تذکروں کے لئے رہ جاتی ہیں، ان کا دیر پا اثر محسوس نہیں ہوتا، یہی دیکھئے ہمارے اکابر تحریک آزادی میں شریک ہوئے قیدیں کاٹیں، جلا وطن ہوئے، سولیوں پر چڑھے، جب مسلمانوں کی حقوق طلبی اور اقتدار میں مساواتی بنیاد پرشراکت منوانے کا موقعہ تھا، تو صرف انگریز دشمنی پر اپنی ساری توجہ مرکوز کر رکھی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جناح جیسی ایک ایسی شخصیت ،مسلم قیادت پر قبضے میں کامیاب ہوگئی،جوعام مسلمانوں کی زبان اردو بھی ٹھیک سے نہیں بول پاتے تھے، جن کا انداز کلام بھی عام لوگوں کے فہم سے دور تھا، نہ وہ دلوں کو جھنجھوڑنے والی جذباتی تقریریں کرنا جانتے تھے، لیکن انہوں نے اپنی تحریک کو مسلمانوں کے حقوق منوانے پر مرکوز کیا، کہا جاتا ہے کہ اگر مسلمانوں کی جملہ قیادت کی جد وجہد ان کے حقوق منوانے میں متحد ہوجاتی،تو پھر مسلم اکثریت کی سیاسی قیادت جناح کے ہاتھ میں نہ جاتی، اور ملک تقسیم ہونے سے بچ جاتا، لیکن اس وقت کی مسلم قیادت نے کانگریس کے ساتھ مسلمانوں کے حقوق کے سلسلے میں کسی معاہدہ پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔ آج کچھ ایسی ہی صورت حال سامنے ہے،بیرسٹر اسد الدین اویسی کے ساتھ مسلمانوں کے ایک بڑے طبقہ کی محبت اور مقبولیت کا راز بھی یہی ہے، ایوان میں مسلمانوں کے حقوق کے لئے اٹھنے والی یہ سب سے وزنی آواز سمجھی جاتی ہے، (واضح رہے راقم الحروف کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے،نہ کسی جماعت سے اس کی وابستگی ہے)۔

۔ مسکان کے نعرہ تکبیر کے بعد جس طرح کسی کے پانچ لاکھ،اور کسی کے پانچ ہزار انعام کے جو اعلانات میڈیا پر آرہے ہیں،ایک بڑا سنجیدہ طبقہ اسے میڈیا پر مشہور ہونےکا ایک بہانا سمجھ رہا ہے۔

۔ مسئلہ اتنا سادہ نہیں ہے، مسکان کے نعرہ تکبیر کے بعد اسے کسی دوسری جانب موڑنے کے بجائے اس کے دیر پا نتائج حاصل کرنے پرملت کی سنجیدہ کوششیں اس وقت نظر نہیں آرہی ہیں، دو سال پہلے شاہین باغ سے بھی اپنی تاریخ کی ایک عظیم تحریک اٹھی تھی، وہ بھی خاموشی سے دب گئی، اور اس کے لئے قربانی دینے والی بہنیں، کورٹ کچھری کے چکر کاٹتے کاٹتے تھک ہارسی گئی ہیں، کوئی تحریک اٹھانا بہت بڑی کامیابی نہیں ہوا کرتی ، لیکن تحریک کو اس کے دیر پا ثمرات اٹھانے کے قابل  بنانا اصل کامیابی ہے، خوف لگتا ہے، اس بچی کی غیر مثالی عزیمت کے مظاہرے کے بعد اسے درست انداز سے استعمال نہیں کیا گیا، تو یہ بھی تاریخ کے کسی گوشے میں گم نہ ہو جائے۔

۔ کالج میں یونیفارم کوڈ ایک نئی بات ہے،جو کہ آزادی ہند کے بعد وطن عزیز میں رائج نہیں تھا، اب جس طرح ہائی کورٹ نے ان بچیوں کو ریلیف نہیں دیا ہے،اس سے انجانا سا ڈر محسوس ہوتا ہے، فیصلے میں جتنی دیر ہوگی اسی قدر قوم کی بچیوں کا نہ صرف مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا، بلکہ مسلم بچیوں کے بہت بڑے حصہ کا تعلیمی مستقبل مخدوش ہوجائے گا۔

۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری مسلم قیادت کا معاملہ صرف مسکان کی شاباشی تک سمٹ کر رہ جائے، اور اگر ہائی کورٹ کا فیصلہ یونیورسٹی میں یونیفارم کوڈ لاگو کرنےکی تائید میں آجائے تو پھر یہ شاباشیان صرف زبانی حساب خرچ کے سوا کچھ نہیں رہیں گی، حاصل کچھ نہیں ہوگا، البتہ اغیار کے مجوزہ یکساں سول کوڈ کے لئے راہ ہموار ہوجائے گی،  اس کا اندازہ چند روز قبل یونیفارم سیول کوڈ کے مخالف دارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے فتؤوں کی بندش اور اسے ہٹائے جانے کے حکم نامے سے لگایا جاسکتاہے۔ یونیفارم سیول کوڈ کی چاپ قریب سنائی دے رہی ہے، سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ سامنے آتا ہے توکورٹ میں پیش کئے جانے والے اچھے سے اچھے دلائل دھرے کے رہے رہ جاتے ہیں ان کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ لہذا کورٹ میں پیش کئےجانے والے دلائل پر بہت زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں، چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔

۔ جس کالج اسٹاف نے طالبہ مسکان کو پروٹیکشن دیا ہے، ان کی ہمت افزائی ہونی چاہئے، لیکن اس معاملہ میں ہم اس شخصیت کو بھول رہے ہیں، جس کا کردار ان دونوں سے کچھ کم اہم نہیں ہے، اس نے ہمت نہ دکھائی ہوتی اور اللہ نے اس کے دل میں بروقت یہ بات نہ ڈال دی ہوتی تو پھر ایک نہتی لڑکی کے ساتھ جنگل کا یہ رویہ  ( جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا) جیسا ہوجاتا، جس نے اس واقعہ کی ویڈیو کشی کی ہے وہ بھی قوم کی تعریف کا مستحق ہے۔ ذاتی طور پر ہم فوٹوز کے غیر ضروری اور بے جا استعمال کے سخت خلاف ہیں ، لیکن اس منظر کشی نے ویڈیو گرافی کی اہمیت بے انتہا اجاگر کی ہے، یہ ویڈیو نہ ہوتی تو حجاب کا یہ معاملہ کبھی کیا عالمی ،کیا ملکی ، ریاستی اہمیت کا بھی نہ بن پاتا، یہاں نونہالان قوم کو صحافت سے جوڑنے اور فوٹو گرافی وغیرہ کے سلسلے میں باشعور بنانے کی اہمیت محسوس ہوتی ہے۔

۔ مسکان کے واقعہ نے قوم کو بہت کچھ سکھا دیا ہے، اس میں جہاں دختران ملت کی صحیح رخ پر تعلیم وتربیت اور انہیں باشعور رکھنے کا احساس دلایا ہے وہیں کسی بڑے طوفان اور آندھی کے خطرے سے بھی آشکارا کردیا ہے، اب ہم انفرادی اور محدود مفادات کے اسیر ہونگے، او اس وقت بھی نہ جاگیں گے تو نفسانفسی اور محدود انفرادی، گروہی اور جماعتی مفادات کی قید میں رہیں گے، تووہ دن دور نہیں جب ہم پر بھی وہ عربی مثل صادق آئے گی جو ایک بیل نے اپنے سامنے موت نظر آنے پر کہی تھی (قتلت یوم قتل الثور الابیض)۔  میں تو اسی روز مارا گیا تھا جب میرا دوست سفید بیل مارا گیا تھا، اوراس وقت میں اسےدیکھتے کا دیکھتا رہا تھا، اور اس کی کوئی مدد نہیں کی تھی۔ اللہ ہمارا حامی وناصر ہو۔

2022-02-11