بات سے بات: یہ بھی سوچنے کا مقام ہے۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

03:49PM Thu 27 May, 2021

کل ہم نے ریختہ ڈاٹ کام کے سلسلے میں جو پوسٹ کی تھی،اس کی تحریک یوں ہوئی تھی، کہ علم وکتاب گروپ پر ایک ممبرنے جب ریختہ سے کتابوں کے ڈون لوڈ کا طریقہ طلب کیا تو یہ ہمیں ناپسند لگا، ہم نے گروپ پر اسے پوسٹ نہ کرنے کی درخواست کی، اس پر جو تبصرے آئے، وہ ہماری سوچ کے عکاس نہیں تھے۔ایسے امور جو بلوائے عام کی صورت اختیار کرجاتے ہیں، ان کے جائز یا ناجائز، قانونی یا غیر قانونی ہونے کی بحثوں میں ہم شامل ہونے سے عموما احتراز کرتے ہیں، کیونکہ ان امور پر بحث کا نتیجہ کچھ نہیں نکلتا۔ بلاضرورت فروعی مسائل میں الجھ جاتے ہیں  اور مرجوح مسائل میں ہماری علمی وفکری توانیاں صرف ہو کر رہ جاتی ہیں، عوام سیدھے طور پر علماء کے عمل کو فتوی سمجھتے ہیں، اور مولوی اپنے فتوے کے کئی ایک  توجیہات نکال دیتے ہیں، جو ان کے ذہن میں نہیں اترتیں۔

ہمیں معلوم ہے کہ ریختہ کے مالک ایک غیر مسلم تاجر ہیں، ہم ان پر ایک مسلمان کی طرح آخرت کے اجر اور کارثواب کی امید رکھنے والے کی طرح   رائے قائم نہیں کرسکتے ، ان جیسے پروجکٹوں میں ہماری اصولی رائے ہے کہ انہیں  جاری رکھنے کے لئے مالی وسائل ومنفعت کا حصول بھی سامنے رہنا چاہئے، خیرات اور چندوں پر ان کا مدار نہیں ہونا چاہئے، خاص طور پر اس لئے بھی کہ بہت سارے ممالک میں ایسی ویب سائٹسوں پر پابند ی ہے  جن میں چندوں کی اپیل کی جاتی ہے۔ اس کے پیچھے ہمارا بھی تلخ تجربہ ہے۔

بھٹکلیس ڈاٹ کام گذشتہ بیس سال سے میڈیا کے میدان میں کام کررہا ہے، اس میں جو مواد پوسٹ ہوا ہے اسے جمع کرنے میں  ہمیں پینتالیس سال لگے ہیں، اس  ویب سائٹ کے پس پشت ایسے لوگ ہیں جو ٹیکنکل میدان کے بہت پرانے ماہر ہیں ، محمد محسن شابندری صاحب جنہوں نے اس ویب سائٹ کو شروع کیا تھا، ۱۹۷۸ء میں بنگلور یونیورسٹی  سے پورے کرناٹک میں انجینئرنگ میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی، اور انہیں اسعودی عرب کی باوقار الظہران پٹرولیم یونیورسٹی سے ماسٹر ڈگری کے لئے اسکالر شپ ملی تھی، یہ امارات میں کے الکٹرک  اینڈ واٹر ڈپارٹمنٹ( دیوا ) ، اتصالات، الاتحاد ایرویس جیسے باوقار اداروں میں چیف انجینیر کی حیثیت سے  کام کرکے  چار پانچ سال قبل رٹائرڈ ہوئے ہیں، ان کے فرزند معاذ بھی میڈیا اور ایجوکشن کی فیلڈ میں اہم ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں۔

اب لوگ سمجھتے ہیں کہ اس ویب سائٹ کو  چلانے والے خوش حال ہیں ، انہیں  تعاون کی کیا ضرورت ہے؟۔ اب لوگوں کو کون بتاتا پھرے کہ اس کے انتظام و انصرام پر کتنا خرچ آتا ہے؟  اور کتنا وقت اور توانائی صرف ہوتی ہے۔ عزت نفس بھی کوئی چیز ہوتی ہے ،  ایسی چیزوں کو اشتہارات وغیرہ نہیں ملا کرتے، اخراجات کا   اندازہ اتنی بات سے  لگائیں کہ  صرف اردوآڈیو موبائل ایپ تین سے زیادہ مرتبہ اپڈیٹ ہوچکی ہے، اور اس پر  ابتک ہندوستانی   پندرہ لاکھ سے زیادہ کا خرچ آچکا ہے۔  یہ ڈاٹا اسٹوریج،ٹیکنیکل  سپورٹ، اور ملازمین کی تنخواہوں کے جاری اخراجات الگ ہیں، کیونکہ بھٹکلیس ڈاٹ کام آڈیوز ،ویڈیوز کے علاوہ انگریزی اردو کا نیوز پورٹل بھی ہے، اور اس کو قائم کرنے والے چند  ملازمت پیشہ افراد کی رٹائرمنٹ کے بعد اس کی بقا  ایک سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔ اتنی محنت اور خرچ کے بعد اردو آڈیو ایپ کی  لنک احباب کو بھیجی جاتی ہے، تو اسے فروغ دینے کے بجائے  جواب آتا ہے  کہ  ہمیں لنک نہیں براہ راست  آڈیو یا ویڈیو بھیجیں، ہمارے پاس لنک دیکھنے کا وقت نہیں۔ اب محنتوں کے ساتھ ایسی بے قدری ہوگی تو پھر  کام کو تسلسل کیسے  حاصل ہوگا، اور آئندہ ترقی کے مراحل کیسے حاصل ہونگے، اچھے کام شروع ہونے کے بعد اپنے بانیوں کے ساتھ اسی طرح قبر میں چلے جاتے ہیں۔ اور پھر کوئی انہیں یاد بھی نہیں کرتا۔