بات سے بات: واٹس اپ اور سوشل میڈیا۔ اپنی حفاظت آپ کیجئے ۔۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Bat Say Bat

03:54PM Fri 8 Jan, 2021

 واٹس اپ پر ڈیٹا غیر محفوظ رہنے کی وجہ سے اسے چھوڑنے اور گروپ کو دوسری جگہ ٹرانسفر کرنے کی تجویزاحباب سے پیش ہورہی ہے۔ اس سلسلے میں ہماری چند معروضات ہیں۔

آج سے پینتیس سال قبل موبائل اور انٹرنٹ جیسی سہولتوں کے سلسلے میں مشہور تھا کہ انہیں ترقی یافتہ ممالک کی افواج اور خفیہ ادارے بیس تیس سال یا اس سے زیادہ عرصہ تک استعمال کرنے کے بعد عام کرتی ہیں، لیکن موبائل اور انٹرنٹ کی سہولت کو جلد ہی عام کردیا گیا، اور اسے زیادہ سے زیادہ عام ہونے کے لئے  انہیں بہت ہی سستا کردیا گیا، ہمیں اچھی طرح یاد ہے، دبی سے ہم لوگ ۱۹۸۰ء کی دہائی میں فون کرتے تھے، تو ایک منٹ کے ۱۲ درہم اور کم ازکم تین منٹ فون کرنا ہوتا تھا، ایک فون کی قیمت آج کے لحاظ سے ۷۵۰ ساڑھے سات سو روپئے بنتی تھی، آج کے دنوں میں ہندوستان جیسے ملک میں اس مبلغ میں ایک سال انٹرنٹ اور فون کا صرفہ آجاتا ہے، اس دوران دوسری اشیاء ہمارے ملک میں بیس گنا سے زیادہ مہنگی ہوگئی ہیں، لہذا بی یس ین یل جیسی ملکی کمپنیاں خسارے میں چل رہی ہیں، اور جس طرح جی او نے موبائل اور انٹرنٹ کو سستا کردیا ہے، اس صورت میں شاید دوسری موبائل کمپنیوں کا آئندہ زندہ رہنا ممکن نہ رہے۔ اور اسی ایک کمپنی کی اجارہ داری باقی رہ جائے، اس کے نتائج آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔

ان ایجادات کی رسائی مطلوبہ افراد تک پہنچنا کتنا آسان کردیا ہے، اس سلسلے میں آپ کو دو واقعات بتاتا ہوں، جو اس وقت رونما ہوئے جب انٹرنٹ اور گوگل میپ  ابھی عام نہیں ہوئے تھے۔ اور ابھی بیسک نوکیا فون لوگوں کے ہاتھوں میں تھا۔

ہمارے قصبہ سے پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک شخص کو لے جاکر قتل کرنے کا واقعہ ہوا، پولیس نے اس قضئے میں دلچسپی لی،اور قاتلوں کے گروپ کو پکڑ لیا، حالانکہ قاتلوں نے مقتول کا فون بند کرکے اسے توڑ دیا تھا، لیکن پولیس نے پتہ لگایا کہ موبائل سم آخر میں کہاں تک گئی تھی، جہاں پر فون توڑا گیا تھا، وہاں تک پولیس پہنچ گئی۔

دوسرا واقعہ، ایک شخص نکاح کرکے بھاگ گیا، پولیس نے اسے پانچ سو کلومیٹر دور پونے کے ایک ہوٹل سے موبائل فون کو ٹریک کرکے پکڑ لیا۔

ایک سال قبل ہمارا دلی و اطراف کا جو سفر ہوا تھا، ابھی چند روز قبل جی میل پر گوگل میپ کے توسط سے اس کی پوری ہسٹری لوکیشن آگئی۔

یہ سوشل میڈیا کے جتنے ذرائع ہیں، یہ سبھی عالمی تجارتی منڈی سے وابستہ ہیں، چین، انڈیا وغیرہ جیسی بڑی منڈیوں کا نقصان یہ کمپنیاں برداشت نہیں کرسکتیں، ان پر بڑی سرمایہ کاری ہوتی ہے، موبائل اور سوشل میڈیا کی کمپنیاں ابتدا میں لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے سیکوریٹی اور معلومات کو خفیہ رکھنے کی بات کرتی ہیں، لیکن لوگوں کو اپنی خدمات کا عادی بنانے کے بعد مفادات کی اس دوڑ میں وہ ان بڑے ملکوں کی شرائط پر سمجھوتہ کرلیتی ہیں، خاص طور پر ممبئی کے تاج محل ہوٹل پر حملے کے بعد یہ سبھی کمپنیاں حکومتوں کے دباؤ میں ہیں، اس قسم کے واقعات میں جو بھی لوگ ملوث ہوتے ہیں، دراصل وہ آزادی کے سب سے بڑے دشمن ہوتے ہیں، تاج محل ہوٹل کے واقعے کے بعد سوشل میڈیا کی آزادی سلب کرنے کا دور شروع ہوا، جس کا سب بڑا شکار بلیک بری موبائل ہوا،انٹرنٹ میسیجس  کی ابتدا اسی موبائل کمپنی نے کی تھی، وہ کسی ملک کو اپنا ڈاٹا شیر نہیں کرتی تھی، لیکن بھارت اور دوسرے چند ملکوں نے اس کی سروسس بند کردیں تو پھر بلیک بیری نے گھٹنے ٹیک دئے۔

اس کے علاوہ یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے، کہ موبائل اور فیس بک پر ان کے صارفین کے نامہ اعمال محفوظ رہتے ہیں، کلاؤڈ اسٹوریج نے عرش وکرسی اور آخرت کے دن نامہ اعمال پرایمان لانا آسان کردیا ہے، اب ایجنسیوں کومطلوبہ شخص کے روابط اور پورا نامہ اعمال ایک کلک میں پوچھ تاچھ کے دوران دکھانے کے واقعات وقتا فوقتا سنائی دیتے ہیں۔ انہیں واٹس اپ، فیس بک وغیرہ سوشل میڈیا سے طلب کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی،ان کے پاس اپنی ضروریات کےسبھی سوفٹ ویر موجود ہیں، لہذا بہتر یہی ہے، اس کی تائید یا اس کی مخالفت کے بجائے، ایک ماہر ڈرائیور کی طرح نہ خود کسی کو ٹکر دیں، اور اس کا بھی خیال رکھیں کہ کوئی دوسرا آپ کو ٹکر نہ دے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ٹیلگرام اور سوشل میڈیا کے کئی ایک سوفٹ ویر ہندوستانی انجینیروں کے بنائے ہوئے ہیں.

سوشل میڈیا کے استعمال کے سلسلے میں مندرجہ ذیل باتیں ذہن میں رہیں تو ان کے خطرات کم ہوسکتے ہیں۔

۔ اگر آپ موبائل یا سوشل میڈیا استعمال نہیں کرتے تو یہ سب سے زیادہ بہتر ہے، اس سے آپ کی پریشانیاں کم ہوسکتی ہیں۔

۔ دنیا کے مختلف ملکوں کے حالات وقوانین کے تحت سوشل میڈیا واٹس اپ فیس بک وغیرہ ٹریک ہوتے ہیں، اس میں مخصوص الفاظ، تصاویر، پیغامات اور پروفائل کی ترتیب میں احتیاط کریں، سرچ انجن میں یہ چیزیں محفوظ رہتی ہیں، جو تلاش کی فہرست میں ہمیشہ چلتی رہتی ہیں ہیں، اسی بنیاد پر ہم پروفائل کی ایسی بعض تصاویر پر نام گروپ سے نام نکلوادیتے ہیں، اس پر بعض احمق لڑنے آجاتے ہیں، پروفائل کی ایک معمولی تصویر پر کیوں آپ نے نام نکلوادیا، سوشل میڈیا استعمال کرنے والے کی چھٹی حس ہمیشہ کھلی رہنی چاہئے، اس سلسلے میں جنگل سے بھاگنے والی لومڑی کا ہاتھی کو دیا جانے والا وہ جواب یاد رہنا چاہئے، جنگل کے راجہ نے اونٹ کو پکڑنے کا حکم صادر کردیا ہے، اور میں اونٹ نہیں ہوں ثابت کرنے تک آدھی جان نکل جائے گی۔

۔ جس ملک میں بھی رہتے ہوں، وہاں کے احکامات اور قوانین کا علم ہونا چاہئے، اور یہ کہ ان کی داخلی اور خارجہ پالیسی کیا ہے،کن ملکوں سے ان کی دوستی ہے، کن ملکوں سے دشمنی۔ ان باتوں کو پیغامات پوسٹ کرتے ہوئے خیال رکھیں

یہ سب چیزیں ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔

۔ بھارت کے مسلمانوں کو خاص طور پرحلال وحرام کی بنیادیں اپنے اولاد کو سکھانے کے ساتھ اپنی پوری توجہ تعلیم اور معیشت کی ترقی پر دینی چاہئے، ۱۹۷۰ سے پہلے ہندوستانی مسلمان ان میدانوں میں جتنے بچھڑے ہوئے تھے، وہ صورت حال اب بدل گئی ہے،  یہ صورت حال بدلنے میں ان پر خلیجی ممالک میں معیشت کے دروازوں کا کھلنا، اور غیر متعلقہ مسائل میں پڑے بغیر یہاں کے قوانین وضوابط کا خیال کرکے محنت اور ایمانداری سے ترقی معاش کی کوششیں کرنا اور مقامی افراد کا اعتماد حاصل کرنا ایک بڑا سبب ہے ۔ اس اعتماد کو باقی رکھنے کے لئے کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت اب پہلے سے زیادہ ہے۔ تعلیم ومعیشت میں ترقی اور لینے والے ہاتھ کے بجائے دینے والا ہاتھ بنے بغیر جذباتی مسائل میں انہماک خطروں سے خالی نہیں۔

۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ پارسی، بوہرے، اسماعیلی، سکھ وغیرہ چھوٹی اقلیتیں ہیں، ان کی اپنے اور غیر ممالک میں بڑی عزت ہے، اس کی بڑی وجہ  یہ جہاں پر ہوں وہاں کے قوانین وضوابط کی پابندی اور لینے کے بجائے دینے والا ہاتھ بننے کی ہے۔ یہ قانون فطرت سب کے لئے ہے۔

۔ ضروری احتیاط برتی جائے، اور مناسب حال ترجیحات متعین کرکے سوشل میڈیا کا استعمال کیا جائے تو ہماری ناقص رائے میں خوف زدہ ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔

ہاں اللہ تعالی سے دعا کرتے رہیں، کہ اللہ تعالی ہر ظاہری اور مخفی خطرے سے ہمیں محفوظ رکھے۔ آمین۔