بات سے بات: آسان تفسیر کی تلاش۔۔۔ عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

08:26PM Sat 15 Jan, 2022

آج کاروار سے مفتی سلیمان قاسمی صاحب نے اس جانب توجہ دلائی ہے کہ:۔

"رمضان المبارک کا مہینہ قریب ت۔خدا نہ کرے کہ وہ مبارک ایام حصار کے ہوں۔رمضان کے پیشِ نظر عوام الناس میں قرآن فہمی پیدا کرنے کے لئے بہترین اور آسان جامع و مختصر ترجمہ قرآن یا تفسیر قرآن کونسی ہے؟"

اس سلسلے میں احباب نے کئی ایک تراجم قرآن کی جانب رہنمائی فرمائی ہے، جن کے ہم مشکور ہیں، لیکن چونکہ اس محفل میں فارغین مدارس اور علماء کرام کی اکثریت ہے ، تو اس سلسلے میں ان سے کچھ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

۔ ماہ رمضان مبارک قرآن کا مہینہ ہے، لہذا اس مہینہ میں ہمار ا قرآن کریم سے خاص تعلق ہونا چاہئے، اس کے کئی ایک طریقے  ہوسکتے ہیں،ہمارا زیادہ تر وقت تلاوت قرآن میں صرف ہو، اور اس میں ہماری کوشش ہو کہ کم از کم ایک مرتبہ قرآن پاک مکمل سمجھ کرپڑھیں، علمائے کرام کو دوران  تعلیم  قرآن کریم مکمل سمجھ کرپڑھنے کے مواقع شاذ ونادر آتے ہیں،اور اس نقص کو شاید ہی کوئی محسوس کرتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری ساری کوشش تفاسیر کے ذریعہ قرآن سمجھنے پر ہوتی ہے، اور قرآن سے زیادہ ان تفاسیر کے مضامین حل کرنے پر محنت صرف ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اصل مقصد چھوٹ جاتا ہے، اور یہ اپنی جگہ ایک  حقیقت ہے کہ اردو یا عربی کوئی بھی تفسیر ہم مکمل پڑھ نہیں پاتے۔ اور تفسیر کو ختم کرنے کے فکر میں پورا قرآن سمجھ کر پڑھنے کا موقع زندگیوں میں شاذ ونادر آتا ہے۔ اب سوال یہ ہے آخرکیا کیا جائے؟، کیا اس کا پورا ٹھیکرا نصاب تعلیم پر ڈال کر خود کو ذمہ داری سے سبکدوش کیا جائے؟ ہماری  رائے میں یہ رویہ درست نہیں،مدرسے کی تعلیم نے ایک بنیاد فراہم کی ہے ، اسی کی بنیاد پر ہمیں اپنے نقص کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

۔ قرآن کے مضامین کو سمجھانے کے لئے تفسیر کے خزانے سے استفادہ سے چارہ کار نہیں، لیکن جب قرآن فہمی کی بات آئے تو ہمیشہ چند مخصوص تفاسیر کے پڑھنے کا مشورہ دیا جائے، اس سے مقصد حل نہیں ہوتا۔ ہمیں وسیلہ سے زیادہ مقصد پر توجہ صرف کرنی چاہئے ، عمر رہے گی تو تفسیریں پڑھتے رہیں گے، لیکن  براہ راست قرآن کو مکمل سمجھ کر پڑھنا بھی ہر ایک فارغ التحصیل کا مقصد ہونا چاہئے۔

۔ اس سلسلے میں ہماری رائے ہے کہ فارغین تلاوت قرآن کے لئے ایسی مختصر تفاسیر کا انتخاب کریں، جن میں  مفردات کے معنی بیان کرنے کا اہتمام کیا گیا ہو، اور اس سلسلے میں مصحف کے حاشیہ پر چھپی عربی زبان کی تفاسیر کو منتخب کریں، اردو ترجمہ وتفاسیر کی  صرف ان الفاظ معنی ومفہوم سمجھنے کے لئے رجوع کریں،  جو عربی تفسیر سے سمجھ میں نہ آرہے ہوں، یاسمجھ میں تو آرہے ہوں ، لیکن اس لفظ کا ٹھیک اردو مترادف لفظ زبان پر نہ آرہا ہو، ہماری نظر میں اس سلسلے میں مفید ترین تفسیر شیخ حسنین مخلوف کی صفوۃ البیان ہے، یہ شیخ کی رائج کتاب کلمات القرآن سے مختلف ہے، اگر یہ دستیاب نہ ہوں تو   پھر  ابن صمادح التجیبی کی مختصر تفسیر القرآن جو مختصر طبری کے نام سے مشہور ہے، اس کے علاوہ  ایسر التفاسیر بھی مفید ہے، بعض ایسی مختصر تفاسیر جن میں آیات کا مفہوم بیان کیا گیا ہے، جیسے المنتخب من تفسیر القرآن، المختصر فی تفسیر القرآن جیسی کتابیں   تو ہمیں زیادہ مفید محسوس نہیں ہوتیں، قرآن کی تلاوت کرنے والے کو جن مفردات کا ٹھیک مفہوم معلوم نہیں  ہیں ان پر پنسل سے اشارہ کرکے حاشئے پر موجود الفاظ کے معنی کو ہائی لائٹ کرکے اور انہیں ذہن نشین کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے، اس طرح براہ راست قرآن کی تلاوت سے دل پر جو اثر ہوگا، اس کی حیثیت جداگانہ ہوگی، یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے، واضح رہے کہ کوئی ایک کتاب یا ایک مخصوص طریقہ ایک طالب علم یا عالم کی جملہ علمی ضروریات کو پورا نہیں کرسکتا، اگر ایسا ہوتا تو پھر گذشتہ پندرہ سو سالوں میں علوم قرآن کا اتنا بڑا ذخیرہ تیار نہ ہوتا۔

۔ اس وقت متوسط پڑھے لکھے طبقوں میں جنہیں مدارس میں تعلیم پانے کا موقع نہیں ملا ، لیکن مختلف دینی تحریکات اور جماعتوں کے ساتھ میل جول کی وجہ سے قران سمجھنے کا ذوق اور شوق پید ا ہوا ہے، اس طبقہ کے  مدارس سے مختلف دینی وتعلیمی پس منظر ہونے کی وجہ سے اسے ہمارے علمائے کرام کے روایتی دروس تفسیر میں دلچسپی محسوس نہیں ہوتی،  اس طبقہ کو مطمئن کرنے اور قرآن کریم ،اس کی ذہنی صلاحیت کے مطابق انہیں سمجھانے کی سخت ضرورت ہے، اس طبقہ کو قرآن کریم سے قریب کرنے والے  مدرسین کو غیرعالم کہ کر دور کرنا مفید نہیں ہے، کیونکہ ان میں سے کئی ایک جدید علوم کے ماہر ہوتے ہیں، انہیں مسلمانوں کو درپیش جدید چیلنجوں سے مدارس کے  فارغین کی بہ نسبت زیادہ علم ہوتا ہے ، سب تو نہیں لیکن ان درس دینے والوں میں ایسے مدرسین پائے جاتے ہیں ، جو دعوت دین ، تزکیہ نفس، انسانی معاملات اور  جدید مسائل پر موثر اور اپیل کے اندا ز میں بولتے ہیں، ان سے دور رہ کر ان سے نفرت کرکے، آپ دردرکھنے والے مسلمانوں کے ایک بڑے حلقے کو  علماء سے کرنے کا سبب بنتے ہیں، اس کے لئے آپ  کسی ایک تفسیر پر انحصار نہیں کرسکتے، مخاطب کی ذہنی صلاحیت، اور اس کی دلچسپی کے موضوعات کو دیکھنا ہوگا، اور اسی کے مطابق تفسیری اسلوب کو اپنا نا ہوگا، اب درس قرآن میں ہم  مدرسے کی تعلیم کی طرح الفاظ کا ترجمہ کریں، اور پھر واعظانہ انداز کی تقریریں کریں تو اپنے معتقدین کو تو  ہم مطمئن کرسکتے ہیں، لیکن اللہ کی اس وسیع مخلوق تک دعوت کو پہچانے کی جو ذمہ داری آپ کو دی گئی ہے، اس کا حق  آپ کیسے ادا کریں گے؟۔ رمضان کریم  میں قرآن پاک  کا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے بہت سارے  مواقع آئیں گے، اس کے لئے تفسیر بیان القرآن، معارف القرآن ، جلالین وغیرہ رائج تفاسیر کے علاوہ بھی آپ کو کچھ پڑھنا پڑے گا۔ درست بنیادوں پر آپ کا وسیع مطالعہ  اور مخاطب کی نفسیات فہمی ہی آپ پر عائد ایک اہم دینی فریضہ کی انجا م دہی کے قابل آپ کو بنا سکے گی۔