ہمارے دوست مولانا محمد یاسر عبد اللہ صاحب نے ڈاکٹر الشریف حاتم العونی صاحب کے شیخ محمد ناصر الدین الالبانی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں جو تاثرات نقل کئے ہیں ان سے اختلاف کی گنجائش موجود نہیں ہے، اصولی طور پر ان کی سبھی باتیں قابل غور ہیں، طلبہ و علماء کو شیخ البانیؒ کی کتابوں سے استفادہ کرنا چاہئے، اور ان کے طریقہ کار کو جاننے کی کوشش کرنی چاہئے،لیکن دور سلف کے ائمہ کرام کی جگہ پر سہولت پسندی سے کام لیتے ہوئے کسی بھی صورت میں صرف شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ احکامات کو حجت نہیں بنانا چاہئے، شیخ البانیؒ نے اپنی زندگی ہی میں اپنی کئی ایک کتابوں جیسے صحیح و ضعیف سنن الاربعۃ سے اظہار براءت کیا ہے، لہذا جن کتابوں میں شیخ البانی نے تفصیل میں گئے بغیر صرف احکامات بیان کئے ہیں، ان سے استفادے کے بجائے، آپ کے مجموعہ سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، اور سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ، ارواء الغلیل،تمام المنۃ جیسی کتابوں سے استفادہ کرنا چاہئے، اور یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ سلسلہ صحییحہ اور ضعیفہ بنیادی طور پر التمدن الاسلامی دمشق میں لکھے گئے سلسلہ وار مقالات ہیں، اور یہ سلسلہ ایک طویل عرصہ تک جاری رہنے کے وجہ سے اس قسم کے قدیم اور جدید مضامین میں تضادات کا پایا جانا ایک فطری بات ہے،لہذا کسی نتیجے تک پہنچنے سے پہلے ایک ہی موضوع پر جملہ معلومات اکٹھا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، ورنہ غلطیوں کے سرزد ہونے کا خطرہ ہے۔ شیخ البانی پر شیخ عبد الفتاح ابوغدہ، مولانا حبیب الرحمن اعظمی، اور محمد اسماعیل الانصاری وغیرہ نے جو اعتراضات کئے ہیں وہ بڑے وزنی ہیں، اول الذکر ادب اور احترام کا نمونہ تھے۔ شیخ البانیؒ نے ان کے جوابات دئے ہیں، لیکن ان کے جوابات سے اہل علم کو مطمئن ہونا ضروری نہیں۔ لیکن ان کے علاوہ حسن السقاف ،ممدوح احمد سعید، اور شیخ غماری وغیرہ نے البانی کے خلاف جو لکھا ہے، ان پر اعتماد کرکے شیخ البانی کو برابھلا کہنے اور اعتراض کرنے سے ناانصافی کا احتمال ہوسکتا ہے، کیونکہ ان تینوں کے یہاں شیعیت کے جراثیم پائے جاتے ہیں، حضرت معاویۃ رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں ان کا موقف ہمیں ناقابل قبول ہے، آج سے پندرہ سال پہلے ہم نے ایک عالم دین کو شیخ البانی کی مخالفت میں ان اہل بدعت سے ہاتھ ملانے پر واضح طور پر ٹوکا تھا، اس کے بعد جو کچھ ہوا، زباں کو چپ رکھنا ہی مناسب ہے۔ 2020-11-19 http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/