بات سے بات: شیخ جمال الدین افغانی اور ان کے روابط۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Bat Say Bat

08:00PM Thu 12 Nov, 2020

شیخ جمال الدین الافغانی اور فری میسن سے ان کے روابط کے سلسلے میں ایک استفسار موصول ہوا ہے۔

اس سلسلے میں ہماری چند معروضات ہیں:۔

  • ہمارا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ آج کےزمانے میں معلومات کے جو وسائل میسر ہیں ان کا عشر عشیر بھی  اس سے پہلے بیسویں صدی کے آغاز میں میسر نہیں تھے،  لہذا اس زمانے میں جو معلومات میسر ہوئیں  ان پر  ہمارے بہت سے مخلص قائدین اور داعیان نے اعتماد کیا، لہذا ہمیں  کسی کے سسلسلے میں رائے قائم کرنی ہو، تو یہ اصول ذہن میں رہنا چاہئے کہ معلومات کی کمی سے ہمارے اکابرین اور محترم شخصیات سے غلطیاں سرزد ہوسکتی ہیں ان کے سبھی مواقف ہمارے لئے نمونہ نہیں بن سکتے، لیکن ان شخصیات کے پس منظر ان کے اخلاص کو دیکھتے ہوئے ، ان کا احترام دل سے ختم نہیں کرنا چاہئے، نہ ہی ان کے بارے  میں  توہین آمیز رویہ اپنا نا چاہئے۔ لہذا ابتدا میں جو شخصیات فری میسن کی مداح رہیں، یا قادنیت اور احمد یت کے سلسلے میں  نرم لہجہ اختیار کیا انہیں کم علمی کی بنیاد پر محمول کرکے  شخصیت کے کے احترام اور عظمت کی  بنیاد پرانہیں قبول نہیں کرنا چاہئے۔

  • اس میں شک نہیں کے جمال الدین افغانی کا مجلۃ ا((لعروۃ الوثقی))، اور ان کا ((سرسید کی نیچریت پر رد)) اور تحریک ((جامعہ اسلامیہ یا پان اسلامزم )) بعد  میں رونما ہونے والی  اسلامی و قومی تحریکات کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں، اور عالم عرب کی بات کہیں تو یہاں کی علمی نشات ثانیہ کا انتساب جمال الدین اٖفغانی کے شاگر د محمد عبدہ اور ان کے شاگر د شیخ محمد رشید رضا مصری کے مجلہ المنار کی طرف ہوتا ہے۔

  • یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ فرانسیسی استعمار کے خلاف مسلمانوں میں عموما جتنی نفرت پائی جاتی ہے بہت سے مسلم علاقوں میں انگریزوں کے خلاف ایسی نفرت نہیں پائی جاتی تھی، ان میں مغربی  پنجاب کو لیجئے، یہاں پر  مہاراجہ رنجیت سنگھ   سے دوری زیادہ پائی جاتی ہے،سید احمد شہید کی تحریک جہاد بنیادی طور ہر انہی کے خلاف تھی، مولانا محمد اسماعیل شہید کی سیرت پر حیرت دہلوی کی حیات طیبہ وغیرہ دیکھنے سے اس کا انداز ہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے، رنجیت سنگھ سے انگریزوں نے سلطنت چھینی، اس  کے نتیجے میں انگریزی سامراج کو مضبوط کرنے میں پنجاب کے فوجیوں نے سب سے زیادہ کردار انجام دیا، انہیں پیروں او ر سجادہ نشینوں نے امام ضامن باندھ کر بھیجے، عراق ، فلسطین، کو انگریزوں کے قبضے میں دینے میں  یہاں کے فوجیوں کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ مصر میں انگریزی سامراج فرانسیسی سامراج کے کو پچھاڑ کر آیا ہے، اور فرانسیسیوں کے مقابلے میں عموما انگریزوں نے کم ظلم کیا، بلکہ حقیقت تو یہ ہے  جب انگریز غلام اقوام کے درمیان  فیصلہ کرتے تھے تو انصاف کا دامن نہیں چھوڑتے تھے، اور یہ کہ انہوں نے جہاں بھی حکومت کی مواصلات اور صحت کا نظام    بہت بہتر کیا، برصغیر کے مسلمانوں کو انگریز سے نفرت کا بڑا سبب ان کے ہاتھوں سے حکومت کا چھیننا ہے، لہذا یہاں کی دوسری اقوام نے ان سے اتنی نفرت نہیں کی جتنا یہاں کے مسلمانوں نے کی،  اسی طرح عثمانیوں کے آخری دور میں عراق ، شام ، لبنان ، اور نجد پر استبدادی انداز سے حکومت کی گئی، اور  شیخ محمد بن عبد الوہاب کے فرزند شیخ سلیمان بن محمد بن عبد الوہاب  اور آپ کے خاندان پر ترکی الاصل خدیوی حکمران ابراہیم پاشا کو  بڑے ظالمانہ انداز سے استعمال کیا گیایہ تاریخ کا حصہ ہے، لہذا  جب پورا عرب عثمانیوں کے خلاف کھڑا ہوا تو  اس میں عثمانیوں کی سیاسی   غلطیاں بھی شامل ہیں۔ یہ بھی انگریزوں کے خلاف نفرت میں کمی کا بڑا سبب بنا ہے۔

  • جمال الدین افغانی کے خلیفہ سلطان عبد الحمید سے ابتدا میں اچھے روابط رہے، اور وحدت اسلامی یا پان اسلامزم کی تحریک ان دونوں نے شروع کی  تھی، لیکن پھر ان دونوں میں دوریاں ہوئیں، اور  افٖغانی اس تحریک کی  علامت بن گئے ۔ جسے ہندوستان کی مسلم قیادت نے بہت سراہا  گیا۔

  • رہی بات فریمیسنس کی تو ۱۹۶۰ء کی دہائی تک تو یہ بر صغیر میں  بھی ایک فیشن تھا، صدر ایوب کے زمانے میں اسے بڑا عروج حاصل ہوا، ہماری معلومات کی حد  تک  پاکستان میں اس پر سب سے کاری ضرب وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے لگائی تھی، کیونکہ وہ اس تحریک کو گہرائی سے جانتے تھے، آپ نے روٹری کلب، لائنز کلب ، اور مشنری اسکولوں کا بند کیا، ان کی جائداد یں  ضبط کرکے ان کی عمارتوں میں لائبریریاں اور باغ   بنائے، لیکن جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں مشنری اسکولوں کو دوبارہ کھولنے اور تعلیم کو پرائیوٹائز کرنے کی اجازت دی گئی جس کا نتیجہ آج بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ شاید یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ بھٹو شیعہ  مسلک تھے۔ اور ضیاء الحق کا احترام ہمارے  کئی ایک اکابر کرتے ہیں۔

  • ۔۱۹۷۹ میں جب ہمارا ملک سے باہر جانا نہیں ہوا تھا، تو افغانی کے بارے میں ہماری وہی رائے تھی، جو پان اسلامز م کے بارے میں ہمارے اکابر کی تھی، مولانا ظفر علی خان، مولانا آزاد ، علی برادران سبھی اس کے گرویدہ تھے۔ اللہ غریق رحمت کرے استاد محمد محمد حسین کو، ان کی کتاب((   الاتجاهات الوطنية في الأدب المعاصر))، مطالعہ میں آئی، یہ غالبا پہلی کتاب ہے جس نے افغانی کے فریمیسن سے تعلقات پر روشنی ڈالی ہے، پھر اس کے بعد دکتور محمد البھی کی کتاب ((الفکر الاسلامی الحدیث وصلتہ بالاستعمار الغرب)) پر بھی نظر پڑی، جس نے  بہت سے بتوں کو پاش پاش  کردیا ہے ، اور سوچنے اور غور کرنے کا نیا انداز عطا کیا،

پھر افغانی کے بھانجے میرزا لطف اللہ خان کی کتاب  ((جمال الدین الاسد آبادی المعروف الافغانی)) اور صفات اللہ جمالی اسد آبادی کی فارسی کتاب(( سید جمال الدین اسد آبادی)) نظر سے گذری، جس سے شیعہ مذہب سے آپ کے تعلق میں شک باقی نہیں رہا۔

  • ایک زمانے میں ندوۃ العلماء میں احمد امین کی کتاب ((زعماء الاصلاح فی العصر الحدیث)) مکمل شامل درس تھی، احمد امین کا شمار عربی زبان کے چوٹی کے مصنفین میں ہوتا ہے، حضرت مولانا  علی میاں رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی کتاب فجر الاسلام کے اسلوب کی اپنی معرکۃ آراء کتاب ماذا خسر العالم میں اتباع کی ہے، احمد امین ہی نے اپنے ادارہ التالیف والنشر سے ماذا خسر  کا پہلا ایڈیشن شائع کیا تھا، مولانا کا مصر کا سفر اس کے بعد ہوا، یہاں پر اسلامی فکر کے حاملین نے آپ سے احمد امین کی تقریظ کی شکایت کی کہ اس نے کتاب کی جان نکال دی ہے، پھر اس کا مقدمہ ایک مشہور مصنف نے لکھا ، جو آپ کے دوست بھی بن گئے، اسی کے بعد ہی اس کتاب کا دنیا بھر میں ڈنکا بجا ، احمد امین بنیادی طور پر مستشرقین سے متاثر تھے، اور انگریزی مصنفین کے دلدادہ ۔

غالبا ۱۹۸۴ ء ک بات ہے ، ہمارا تکیہ کلاں کا پہلا سفر ہوا تھا، وہاں خلوت میں حضرت مولانا سے بے تکلفانہ انداز سے  بات کرنے کا موقعہ ملا تھا، حضرت مولانا بھی اپنے خوردوں پر بڑے مشفق تھے، ہم جیسوں کے گستاخانہ انداز کو بھی برداشت کرلیتے تھے، اس وقت ہم نے آپ سے کہا تھا کہ  ہم  طلبہ آپ کی کتابیں پڑھ کر مغربی تہذیب سے متنفر ہوئے ، لیکن یہ کیا بات ہے کہ دارالعلوم کے نصاب میں احمد امین کی زعماءالاصلاح  رکھی گئی ہے، جب کہ اس میں جن شخصیات کا ذکر ہے ان میں سے بعض کا شمار زعماء الفساد میں ہونا چاہئے، اس میں ہم نے خاص طور پر جمال الدین افغانی اور امیر علی کا ذکر کیا تھا، ان کے علاوہ بھی چند ایک شخصیات  تھیں ، جن کی فکر سے ہمیں اتفاق نہیں، تو مولانا نے ہم سے فرمایا تھا کہ اس کتاب کو احمد امین کے اسلوب کی وجہ سے  شامل  کیا گیا ہے، ایک عربی لکھنے والے کو ان کے اسلوب سے آگاہ ہونا چاہئے۔

چند سال بعد  ندوے کے نصاب میں زعماء الاصلاح کا ایک انتخاب نظر آیا جس میں ان شخصیات کا تذکرہ حذف تھا، جن پر اس ناچیز نے شکایت کی تھی۔

2020-11-12

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/